اظہار ہمدردی مگر کب تک ؟

پہلے وہ سوشلسٹوں کےپیچھے آ ئے ، میں نہیں بولا کیوں کہ میں سوشلسٹ نہیں تھا، پھر وہ ٹریڈ یونینسٹ کے پیچھے آ ئے میں چپ رہا کیوں کہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا ، پھر وہ یہودیوں کے پیچھے آ ئے میں جب بھی نہیں بولا کیوں کہ میں یہودی نہیں تھا اورپھر وہ مجھے لینے آگیے ....لیکن تب تک کوئی نہیں بچا تھا جو میرے لیے کچھ بولتا ...... جرمن پادری مارٹن نیمولر کی یہ نظم آپ سینکڑوں نہیں ہزاروں بار سن چکے ہونگے ہوسکتا ہے پچھلے کچھ برسوں میں آپ یہ نظم کسی نہ کسی سیاسی ، لسانی ، مذہبی یا سماجی مسلے پر گفتگو کے دوران اپنے اردگرد بیٹھے افراد کو سنا بھی چکے ہوں کیوں کہ یہ نظم ایک آفاقی حقیقت کو بیان کرتی ہے، یہ ہمیں عمومی حالات میں بہت سے سبق دیتی ہے مگر آج کل پاکستان کے جو سیاسی حالات ہیں اسمیں تو یہ بہت سے لوگوں کا قومی ترانہ بھی بن سکتی ہے

سن دو ہزاراٹھارہ کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت وجود میں آئی جس کو ریاستی اداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی اور شاید پہلی بار پاکستان کے غیراعلانیہ مگر طاقتور ترین "ادارے " یعنی میڈیا کی مکمل آشرباد بھی حاصل تھی کسی کو بھولنے کا مرض ہو تو ہو مگر جن کی یاداشت کچھ کام کرتی ہے وہ اس معاملے میں بلکل واضح ہیں کہ عمران خان اور انکی حکومت کی نالائقی اور نااہلی کو تقریبا تمام چینلز نے کسی بھی ٹاک شو یا نیوز بلیٹن میں عوام کے سامنے اس انداز سے لانے کی کوشش نہیں کی جیسے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے ہر روز بخیے ادھیڑے جاتے تھے. نواز لیگ کو یقینن ریاستی اداروں اور میڈیا کی طرف سے اتنی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا پیپلزپارٹی کو مگر بہرصورت "لاڈلے" جتنی محبت انکے حصے میں بھی نہیں آئی تھی اپنے دور حکومت میں جوکچھ تحریک انصاف کے وزیراعظم اور وزراء نے اپنے سیاسی مخالفین ، مخالف راۓ رکھنے والے صحافیوں اورسوشل میڈیا آیکٹیوسٹس کے ساتھ روا رکھا وہ اپنی جگہ مگر عوام کے مختلف گروہوں مثلآ کسانوں، مزدوروں، ہیلتھ ورکرخواتین ،سرکاری ملازمین ،خواجہ سراؤں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ جو بدسلوکی اور ناانصافی روا رکھی تھی وہ ہماری یاداشت میں محفوظ ہے اگر آپ یہ بلاگ پڑھ رہے ہیں تو یقینن آپ ان سیاسی حالات سے بھی واقف ہونگے جو اس وقت ملک خدا داد کے طول و عرض میں پھیلے ہیں اور سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر نان سٹاپ ہوتی اس بحث کے بارے میں بھی بہت اچھی طرح جانتے ہونگے جس میں تحریک انصاف کے حالیہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں معتوب رہنما اور انکے سرکردہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ مسلسل ایک بیانیہ بنا رہے ہیں کہ "ایسا ریاستی ظلم و ستم تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ ہوا جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے " ہوسکتا ہے آپ بحث کا حصہ ہوں اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا علم رکھتے ہیں تو اس بیانیے کے خلاف آپ کے پاس ہزاروں دلائل ہونگے اور اگر اس بیانیے کی حمایت کرتے ہیں تو آپ کو مطا لعہ وسیع کرنے کا مشورہ دیتی ہوں مگر ان دونوں انتہاؤں کے درمیان بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کو تاریخ میں سیاسی پارٹیوں پر ناحق ظلم و ستم ہونے کا علم بھی ہے اور تحریک انصاف کے چئیرمین کی طرف سے اکسانے والے بیانات کی خبر بھی مگر انکو ہلڑ بازوں اور انکی سرکردگی کرنے والی خواتین و حضرات سے انسانی ہمدردی بھی محسوس ہورہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جبر ریاست کا پرانا ہتیار ہے جو وہ بد ل بدل کر مخصوص حالات میں اپنی طاقت اور قبضے کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے

ایسے لوگ درست سمجھ رہے ہیں جی ہاں بلکل ایسا ہی ہے کہ ریاست قانون کی دھجیاں اڑاتی رہی ہے کبھی اس کے نشانے پر بنگال کے سیاسی باشعور عوام تھے تو کبھی حقوق کی جدوجہد کرتے بلوچ اور کبھی جمہوریت کی شمع کو اپنے خون سے جلاتے سندھ کے جمہوریت پسند عوام . تاریخی ظلم و ستم سے سیاسی پارٹیاں بھی نبرد آزما رہی ہیں اور یہ کوئی دوسو سال پرانی بات نہیں کہ صرف کتابوں میں ملے بلکہ آج بھی وہ کارکنان اور رہنما حیات ہیں جن کی پیٹھ پر کوڑے برسے اور جن کے پیارے جمہوریت اور حقوق کی جدوجہد میں سولیوں پر جھول گیے-

اب مسلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے جن " مظلومین " سے ہم سب اظہار ہمدردی کرنا چاہ رہے ہیں وہ اپنے دور حکمرانی کے بدصورت رویۓ پر بلکل بھی شرمندہ نہیں اور نہ ہی انکو آج بھی احساس ہے کہ ریاستی جبر کے سامنے عوامی اتحاد ہی ٹھر سکتا ہے اور عوامی اتحاد کبھی بھی سیاسی نفرتوں ، لسانی تقسیم اور الزامات کی سیاست کو پروان چڑھانے سے حاصل نہیں ہوتا
سیاسی شعور تقاضہ کرتا ہے کہ جس شاخ پر آپ نے اپنا آشیانہ بنانا ہے اس پر کلہاڑی مت چلائیں کہ ایسا کرنا سیاسی جہالت ہے. اپنی مخالف سیاسی پارٹیوں کی حمایت پر عوام کو گالی گلوچ دینا ، انکے پسندیدہ رہنماؤں پر الزا مات کی بوچھاڑ کرنا، ہرالیکشن میں اپنی شکست کو "دھاندلی" اور دوسرے کی شکست کو "عوام کا فیصلہ " قرار دینا ، اپنے لیڈر کی بیماری کو حقیقی اور مخالفین کی بیماری کو "ڈرامہ " کہنا ، حریف جماعتو ں کے رہنماؤں کی موت کی تمنا کرنا، اپنی سیاسی جدوجہد کو تاریخی اور دوسروں کی تاریخ پر ٹھٹھے بازی کرنا ...سو مختصر یہ کہ ایسا چھوٹا پن آپکو تاریخی طور پر تنہا کر رہا ہے -

آج اگرعوام و خواص کا کوئی حصہ تحریک انصاف کے رہنماؤں ،کارکنوں یا سپورٹرز کے ساتھ دلی ہمدردی بھی رکھتا ہے تو ایسے افسوسناک رویے میں مستقل مزاجی اس پارٹی کو جلد ایسی نہج پر لے آ ئے گی کہ......" اورپھر وہ مجھے لینے آگیے ....لیکن تب تک کوئی نہیں بچا تھا جو میرے لیے کچھ بولتا " صد افسوس-
 

aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 48 Articles with 75087 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More