ملک معراج خالد 20 ستمبر 1916 کو پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن
نہایت سادگی میں گزرا۔ تعلیم کے لیے روز ڈیڑھ میل دور پرائمری اسکول جاتے،
پھر مدل اسکول جو ان کے گاؤں سے آٹھ کلو میٹر دور تھا، پیدل طے کرتے۔ چھٹی
جماعت میں وظیفہ ملا، مدل اسکول میں بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ وظیفہ حاصل کیا
— یہ اس بات کی علامت تھی کہ محنت اور صلاحیت کبھی چھپ نہیں سکتی۔
جب لاہور کے مادل اسکول میں میٹرک کے لیے داخلہ لیا تو اخراجات اٹھانے کے
لیے گاؤں سے روزانہ دودھ لاتے، اور شہر میں بیچتے۔ ان کے گاہکوں میں مظفر
قزلباس کی حویلی بھی شامل تھی۔ 1935 میں میٹرک اور 1939 میں بی اے آنرز کیا
— تمام تعلیمی اخراجات خود اٹھائے۔ بی اے کے بعد باٹا کمپنی میں کلرک کی
نوکری کی، اور ساتھ ہی قانون کی تعلیم جاری رکھی۔ 1946 میں ایل ایل بی مکمل
کیا، اور 1950 میں وکالت شروع کی۔
1965 میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1970 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ
پر مظفر قزلباس کے بھائی کے مقابل الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وقت نے کیسا
پلٹا کھایا کہ جس حویلی میں دودھ بیچتے تھے، وہاں سیاسی برابری پر آ پہنچے۔
1971 میں وفاقی وزیر، 1972 میں پنجاب کے وزیر اعلی، 1973 میں وزیر قانون،
اور 1976 میں وزیر بلدیات و دیہی امور بنے۔ دو بار قومی اسمبلی کے اسپیکر
بنے، اور چار سال انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر کے طور پر خدمات
انجام دیں۔ اور پھر 1993 میں، وہ وقت بھی آیا جب وہ پاکستان کے عبوری وزیر
اعظم بنے۔
ان کی زندگی میں سادگی تھی، مگر اصولوں پر سمجھوتہ کبھی نہیں کیا۔ وہ بڑے
عہدوں پر بھی ایسے زندگی گزارتے جیسے عام لوگ جیتے ہیں۔ سیاست کو خدمت
سمجھا، اور اختیار کو امانت۔
یہ سرگزشت ایک ہیرو کی ہی ہے، مگر جس جانب توجہ دلانا مقصود ہے وہ یہ کہ
اُس وقت پیپلز پارٹی کے بھٹو نے صرف میرٹ کا نعرہ نہیں لگایا تھا — اس پر
عمل بھی کیا تھا۔ اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ ایک عام مگر غریب خاندان کا بیٹا
پاکستان کا وزیر اعظم بن گیا۔ دنیا کے وہی ممالک ترقی کرتے ہیں جہاں میرٹ
غالب ہو — جہاں چائے والا وزیر اعظم بن سکتا ہے یا گہرے رنگ والا صاف رنگ
والوں کا صدر۔ وہاں میرٹ فیصلہ کرتا ہے، نہ کہ حسب نسب۔
پنجاب میں آج پھر ایک وزیر اعلیٰ نے میرٹ کا ڈول ڈالا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے
کہ لاہور اور پنجاب باقی صوبوں سے آگے نکل گئے ہیں۔ اگر اگلے پانچ سال میرٹ
کی رسی نہ کاٹی گئی، تو اس ڈول سے جو کہانیاں نکلیں گی، ان میں کئی ملک
معراج خالد ہوں گے — جن کی کامیابی نہ کسی خاندان کی مرہون منت ہو گی، نہ
کسی سفارش کی، بلکہ صرف قابلیت، محنت اور اخلاص کی بنیاد پر ہو گی۔
|