یہ حسنِ اتفاق ہے کہ حکومتِ ہند کو جب اپنی شبیہ سدھارنے کا خیال آیا تو
مسلمانوں کی یاد بھی آگئی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشیت ایزدی ساری دنیا میں
اس کے چہرے پر کالک پوتنے کا کام مسلمانوں کے ذریعہ لے رہی ہے ۔ اس کی وجہ
مسلمان نہیں بلکہ ان کے تئیں وزیر اعظم مودی سمیت ان کی پارٹی اور سنگھ
پریوار کے اندران کے خلاف بھری ہوئی نفرت ہے۔ زعفرانی کی سیاست کی بنیاد ہی
چونکہ مسلم دشمنی پر قائم ہے اس لیے وہ لوگ اس کو خوب ہوا دے کر اپنے
حامیوں کو خوش کرنے کی خاطر بڑی بے حیائی سے ان مظالم کی تشہیر بھی کرتے
ہیں ۔ فی الحال ملک میں نفرت و عناد کی آگ اس قدر بھڑکا دی گئی ہے کہ نہ
صرف مسلمانوں کی عبادتگاہوں پر حملے کیے جا رہے ہیں بلکہ مختلف بہانوں سے
انہیں ہجومی تشدد کا شکار کرکے انتخابی فائدہ بھی اٹھایا جاتاہے۔ سرکار اس
کا استعمال اپنی ناکامیوں مثلاً مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کو حل
کرنے میں ناکامی کو چھپانے کے لیے بھی کرتی ہے۔ لوگوں کو نفرت کے نشے میں
چور کر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔
ساری دنیا کو پاکستان کا اصلی چہرا دکھانے کی خاطرجن ۷؍ عدد وفود کو ساری
دنیا میں بھیجا گیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بی جےپی کے پاس ایک بھی رکن
پارلیمان نہیں ہے۔ اس لیے حزب اختلاف کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا۔ ایوان
پارلیمان میں جملہ مسلمانوں کی نمائندگی صرف چار فیصد ہے پھر بھی ن وفود
میں تقریباً بیس فیصد مسلمان ہیں ۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ نیکر پہننے
والا سو سالہ سنگھ پریوار کے اندر قحظ الرجال کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی
شاکھا سے نہ تو وزیر خزانہ اور نہ وزیرخارجہ دےسکا ۔ اس کو ان عہدوں کے لیے
جے این یو سے رجوع کرنا پڑا جس کو وہ دن رات گالی دیتے رہے ہیں۔ سنگھ
پریوار کے پاس اچھی انگریزی بولنے والے سترّ لوگ بھی نہیں ہیں ۔اسی لیے اسے
ششی تھرور اور منوج جھا کے ساتھ بیرسٹر اسدالدین اویسی، ایم جے اکبر و غلام
نبی آزادوغیرہ کو وفد میں شامل کرنا پڑاہے کیونکہ وزیر اعظم اور وزیر
داخلہ میں بھی انگریزی میں مدعا بیان کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
ملک کے اندرمسلمانوں پر براہِ راست حملہ کرنےکے علاوہ کبھی ان پر روہنگیا
کا لیبل لگا کر پریشان کیا جاتا ہے اور کبھی بنگلا دیشی بناکر مظالم کا
پہاڑ توڑا جاتاہے ۔ فی الحال پہلگام کے تشدد کی آڑ میں اس آگ کو بھڑکایا
جارہا ہے ۔ اس کی تازہ مثال علی گڑھ کی ماب لنچنگ ہے۔ اس سے سنگھیوں نے
اپنے ارمان تو نکالے مگر دنیا بھر میں بھیجے جانے والے وفود کی محنت پر
پانی پھیر دیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حالت آج کل اس بڑھیا کی سی ہوگئی
ہے جو رات بھر سوت کاتنے کے بعد صبح سب کچھ بگاڑ دیتی ہے۔ وطن عزیز کے اندر
کی جس خبریں نے ذرائع ابلاغ میں ان وفود کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتی ہیں ان
میں سے ایک احمد آباد کا زبردست بلڈوزر ایکشن ہے۔ اس کے تحت چنڈولا تالاب
کے قرب و جوار میں تقریباًساڑھے آٹھ ہزار گھر ڈھا دئیے گئے مگر اس کے
علاوہ اور بھی دو علاقوں پر بلڈوزر چلائے گئے اور ایک اندازے کے مطابق
تقریباً ایک لاکھ لوگوں کے سروں کی چھت چھین لی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر
دیگر ممالک میں جانے والے وفود سے اس بابت پوچھا جائے گا تو وہ کیا جواب
دیں گے ؟ کیا لوگ بشیر بدر کا یہ شعر نہیں جانتے کہ ؎
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
بیرونِ ملک جانے والے وقود سے اگرکوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ آپ خود اپنے لوگوں
کے ساتھ اتنی سفاکی سے کیوں پیش آتے ہیں تو کیا جواب دیا جائے گا ؟ یہ تو
نہیں کہاجا سکتا کہ اس پر بات نہ کی جائے ؟ یا یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے اور
قوم پرستی یعنی نیشنلزم نے ہمیں اپنے لوگوں پر ظلم ڈھانے کا لائسنس دے رکھا
ہے ۔ انسان تو خیر انسان ہے چاہے وہ اپنا ہو یا پرایا ؟ اور اپنوں کا حق ہر
حال میں غیروں سے زیادہ ہوتا ہے۔ گجرات کی راجدھانی میں کل ملا کر دس ہزار
سے زیادہ گھروں پر بلڈوزر چلا کر ان میں رہنے والوں کو بے گھر کردیا گیا۔
اس ظالمانہ کارروائی کی پردہ پوشی کے لیے پہلے بنگلا دیش کی کہانی گھڑی گئی
۔ اس سلسلے میں پہلے دن جن نو سو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان میں سے ساڑھے
آٹھ سو لوگوں کے پاس آدھار کارڈ اور دیگر دستاویزات موجود تھے اس لیے
انہیں چھوڑنا پڑا۔
اس کے بعد یہ کہانی چلائی گئی کہ ان لوگوں نے غلط طریقے سے آدھار کارڈ
حاصل کیے تھے۔ ان من گھڑت الزامات کو اگر سچ مان لیا جائے تب بھی یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے 30سالوں سے احمد آباد کی بلدیہ پر بی جے پی کا قبضہ
ہے۔ اس کے ہوتے یہ لوگ ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے احمد آباد میں
کیسے آباد ہوگئے؟ ان کو جعلی آدھار کارڈ بنانے میں کس نے مدد کی؟ ان سے
کس نے رشوت لی ۔ ان مبینہ غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مقامات کو برسوں تک
بلدیہ کی سہولیات کیونکر فراہم کی گئی؟ اس کی فراہمی کے لیے رشوت لینے والے
بی جے پی کے منظورِ نظر افسران اور رہنماوں کو کون سزا دے گا؟ اس عظیم ترین
ظلم کو جائز ٹھہرانے کی خاطر وہاں منشیات کے پکڑے جانے کا جھوٹ گھڑا گیا۔
یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ گجرات کے اندر اڈانی کے زیر اہتمام مُندرا
بندرگاہ پر ہزاروں کروڈ کی ہیروئن پکڑی گئی تھی مگر اس کے خلاف کوئی
کارروائی نہیں ہوئی؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے چہیتے سرمایہ دار
ہی ہیروئن کے در آمد میں ملوث ہیں۔ ان کا بال بیکا نہیں ہوتا مگر عام
لوگوں کے بستیاں اس بہانے سے اجاڑ دی جاتی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ان تباہ شدہ بستیوں میں زیادہ تر مسلمان رہتے تھے لیکن
ان کے ساتھ ہندو بھی اس کا شکار ہوئے ۔ ہندووں کا بے گھر ہونا چونکہ بی جے
پی کے لیے نقصان دہ ہےاس لیے ان خبروں کو دبا دیا جاتا ہے اور مسلمانوں پر
ہونے والے مظالم کو میڈیا میں اچھال انتہا پسند ہندووں کو جعلی خوشی سے
نوازہ جاتا ہے۔ اسے پاکر وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم مثلاًبے گھر ہونا
اور مہنگائی و بیروزگاری جیسے بنیادی مسائل کو بھول کرکمل زندہ باد کے نعرے
لگانے لگتا ہے۔ احمد آباد کے بلدیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ ساری کارروائی عدلیہ
کی توثیق کے بعد ہوئی ہے۔ ویسےراہل گاندھی کے معاملے میں گجرات کی عدلیہ
پوری طرح اپنااعتماد گنوا چکا ہے۔ اس معاملے میں ضلعی عدالت نے بیش از بیش
سزا دی اور ہائی کورٹ میں اس کی تو ثیق بھی ہوگئی تاکہ ایوانِ سے ان کی
رکنیت کا خاتمہ ہوجائے لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو دیوار پر دے مارا۔
اس دوران راہل کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا مگر عدلیہ کا اعتماد ملیا میٹ
ہوگیا۔ سنجیو بھٹ کے معاملے میں بھی گجرات کی عدلیہ کا رویہ مایوس کن رہا
ہے۔
میونسپل کارپوریشن نے اب یہ اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس ساڑھے آٹھ ہزار گھر
تیار ہیں جو ان بے خانما ں لوگوں کو دئیے جائیں گے۔اس معاملے میں پہلی غلطی
تو یہ ہوئی کہ نئے گھروں میں نقل مکانی کے بعد ہی بلڈوزر چلانا چاہیے تھا
مگر سرکار کی ترتیب الٹی ہے۔ اس نے پہلے تو چلچلاتی دھوپ میں بچوں، خواتین
اور بوڑھوں کو بے گھر کردیا جبکہ برسات کی آمد آمد ہے۔ اس کے بعد
دستاویزات کو جمع کرنے کی لمبی چوڑی فہرست پکڑا دی اور ان کی تصدیق کے لیے
اتنا کم وقت رکھا کہ اب کئی لوگ کاغذات کے باوجود وہ نام نہاد مکان حال
نہیں کرپائیں گے۔ یہ گاجر بظاہر لٹکتا نظر تو آئے گا مگر کوئی مستحق اسے
کھا نہیں پائے گا اس لیے سرکار کی نیت کھوٹی ہے بقول شاعر؎
امیرِ شہر کو ضد ہے کہ شامِ غُربت میں
غریبِ شہر کی کُٹیا میں چاندنی بھی نہ ہو
پچھلی بار جب مودی جی کے چہیتے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کو نمستے کرنے کےلئے احمد
آباد بلایا گیا تو ڈبل انجن سرکارنے شرم کے مارے کچی بستیوں کو پردے کے
پیچھےچھپای دیا تھا، اب انہیں مٹا یا رہاہے ۔یہ قیاس آرائی بھی کی جارہی
ہے کہ مودی جی برسوں سے اپنےشہر احمد آباد میں اولمپک کھیل منعقد کرنے کا
خواب سجا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ 2036 میں منعقد ہونے والےاولمپک کھیلوں
کا انعقاد احمد آباد میں ہو اور اس سے قبل شہر سے سارے کچے مکانات شہر سے
نکا دئیے جائیں تاکہ انہیں پوشیدہ رکھنے کی نوبت ہی نہ آئے یعنی گاندھی کے
صوبے میں دارالخلافہ کے اندر سے غریبوں کا دیس نکالا کردیاجائے۔ پاکستان کے
اندر عام لوگوں کے مکانوں پر بمباری سے گریز کرنے والی مودی سرکار خود اپنے
ملک کے غریبوں خاص طور پر مسلمانوں کی دشمن بن گئی ہے اور بلڈروں کی
خوشنودی کےلیےایسی سفاکی کاارتکاب کردیا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں
ملتی ۔ ایسی ظالم سرکار پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
|