وزیر اعظم نریندر مودی کی گیارہ سالہ سفارتکاری کا ماحصل مجروح سلطانپوری
کے ایک مصرع سے ادا ہوجاتا ہے’ ہم کسی کے نہ رہے ، کوئی ہمارا نہ رہا‘
حالانکہ موصوف کا شمار اپنی مدتِ کار میں سب سے زیادہ غیر ملکی دورے کرنے
والے ہندوستانی وزرائے اعظم میں ہوتا ہے ۔ان کے پیش رو منموہن سنگھ نے اپنے
دس سالوں میں جملہ 73غیر ملکی دورے کیے تھے لیکن پہلگام حملے کے وقت مودی
جی سعودی عرب کے اپنے 88؍ ویں بیرونِ ملک دورے پر تھے۔ اس کو ادھورا چھوڑ
کر تو موصوف لوٹ آئے لیکن اس کے بعد جب جنگ کی صور حال رونما ہوئی تو ان
دوروں کی قلعی کھل گئی ۔ ہوا یہ کہ دوران جنگ آئی ایم ایف کے ذریعہ
پاکستان کی امداد کا موقع آگیا ۔ہندوستان آئی ایم ایف کے 25 رکنی بورڈ کا
ایک ممبر ہے اور پاکستان وہاں موجود ہی نہیں ہے ۔ حکومت ہند نے پاکستان کو
قرض کے اجرا کی مخالفت کی میں اس کی خراب کارکردگی اور آئی ایم یف پروگرام
کے تحت لاگو کی جانے والی اصلاحات پر عملدرآمد میں ناکامی کا حوالہ دیاگیا
نیز یہ اعتراض بھی کیا گیاکہ یہ فنڈ ’ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشت
گردی‘ کے لیے استعمال ہو گا۔ اس کے باوجودکمیٹی کا ایک بھی ملک ہندوستان کے
ساتھ نہیں آیا تو پتہ چلا کہ ؎
کوئی ہمدم نہ رہا ، کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے ، کوئی ہمارا نہ رہا
پہلگام کے تناظر میں جاری کشمکش کے حوالے سے ہندوستان کی جانب سے عالمی
برادری کو عار دلاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان کو قرض دے کر آئی ایم ایف
نہ صرف اپنی بلکہ اپنےمعاونین کی ’عزت کو داؤ‘ پر لگا رہا ہےاور یہ بین
الاقوامی اقدار کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ یہ حربہ بھی ناکام رہا اورآئی
ایم ایف کے انتظامیہ نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی
دوسری قسط جاری کرتے ہوئے ہندوستانی دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہہ دیا کہ
پاکستان سختی سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کر رہا ہےاور اس کے
باعث وہ معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ عالمی ادارہ یہیں نہیں رکا
بلکہ آگے بڑھ کر مستقبل میں تقریباً 1.4 ارب ڈالرز کے مزید فنڈز کی یقین
دہانی بھی کردی۔ اس کے بعد ووٹنگ ہوئی تو ایک بھی ملک ہندوستان کے ساتھ
نہیں آیا اور خود ہندوستان بھی مخالفت کا ووٹ نہیں ڈال سکا کیونکہ وہ سری
لنکا، بنگلہ دیش اور بھوٹان پر مشتمل چار ملکی گروپ کی نمائندگی کرتا ہے
ممکن ہے ان کی حمایت نہ ملنے کے سبب ایسا کرنا پڑا ہو۔
2005میں خود ہندوستان نے زمبابوے کو لے کر اور 2016کے اندر روس نے یوکرین
کے معاملے میں مخالفت کا ووٹ دے چکے ہیں۔ حالیہ ہزیمت میں بنگلہ دیش اور
سری لنکا جیسے پڑوسی ملکوں کے عدم تعاون کا بھی حصہ ہو سکتا ہے کیونکہ ہم
جن کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی رضامندی کے بغیر تو ان کی طرف سے حمایت میں
یا خلاف ووٹ نہیں دے سکتے ۔ ایسی صورت میں ان کا اعلان سامنے آجائے گا کہ
نمائندگی غلط کی گئی۔ کاش کہ اس وقت بنگلہ دیش میں حسینہ واجد اور سر لنکا
کے اندر پریم داسا برسرِ اقتدار ہوتے تو کم از ہندوستان کم از کم ایک ووٹ
دے کر اپنا حتجاج تو درج کروا دیتا ۔ اس علامتی احتجاج سے قطع نظر سچائی تو
یہ ہے کہ دہشت گردی کی بنیاد پر آئی ایم ایف کے قرض کو روکنے کی خاطر
ایکزیکٹیو بورڈ میں اعتراض درج کرانا ایک مشقِ لاحاصل ہےکیونکہ اقوام متحدہ
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ کس
ملک کو ’گرے لسٹ‘ یا ’بلیک لسٹ‘ میں ڈالا جائے۔
مذکورہ بالا فہرستوں میں شامل ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی
مالیاتی اداروں کی مدد سے ازخود محروم ہوجاتے ہیں۔ منموہن سنگھ وغیرہ کے
زمانے میں حکومتِ ہند کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کو اس فہرست
میں ڈالادیا گیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں بلیک لسٹ ہونے کے سبب
آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے میں اسے دشواری ہوتی تھی لیکن پھر جو مودی
سرکار آئی تو وہ امورِ خارجہ میں کھیل تماشا اور اس کا قومی انتخابی سیاست
میں فائدہ اٹھانے کے اندر مصروف ہوگئی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پلوامہ کے
بعد مودی جی دوبارہ انتخاب تو جیت گئے مگر چونکہ اس کی خاطر خواہ تفتیش
کرکے پاکستان پر کوئی الزام ثابت کرنے کی سعی نہیں کی گئی تو اس کا پڑوسی
ملک کو فائدہ ملا ۔ اس نے شدت پسندی کے خلاف بہتر اقدامات کا بیانیہ کھڑا
کرکے 2022 میں اپنا نام باقاعدہ طور پر فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلوا لیا ۔ یہ
کام اگر مودی جی کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد ہوتا تو زعفرانی ٹولہ
کہتا موصوف ہوتے تو اپنی لال آنکھیں دِ کھا کر ایسا کبھی نہ ہونے دیتے
لیکن ان کے ہوتے یہ ہوگیا ۔ اس طرح پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے قرض کی
راہ ایک ایسے دور میں ہموار ہوگئی جب عوام کو یہ فریب دیا جارہا تھا کہ ہم
وشو گرو ہوگئے ہیں ۔
سوویت یونین جب ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا تو دوقطبی دور کا خاتمہ ہوا اور سارے
عالم کا واحد قبلہ و کعبہ امریکہ ہوگیا۔ امریکی استعمار کے خلاف پچھلے چند
سالوں میں ’برکس‘ نامی ایک وفاق عالمِ وجود میں آیا ۔ اس کی ابتداء کرنے
والے پانچ ممالک میں ہندوستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ برازیل ، روس، چین
اور جنوبی افریقہ بھی اس کا حصہ تھے لیکن جب یہ وفاق تعاون و خوشحالی ایک
طاقتور آواز بناتو ایران اور سعودی عرب جیسے کئی ممالک اس میں شامل ہوگئے
۔ غزہ میں اسرائیل کی بدترین جارحیت نے ان سارے ممالک کو امریکہ کے علاوہ
اسرائیل کے بھی مخالف بنادیا ۔ جنوبی افریقہ نے تو عالمی عدالتِ انصاف میں
اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ تک دائر کردیا اور نیتن یاہو سمیت
اسرائیلی وزیر دفاع کے خلاف قتل عام کےالزام کا وارنٹ نکلوا دیا ۔ ایسے میں
دنیا سے الگ تھلگ اسرائیل سے ہندوستان نے دوستی نے وقار کو نقصان پہنچایا
اور راندۂ درگاہ اسرائیل کے سوا کوئی ہمارے ساتھ نہیں آیا ۔ اسرائیل تو
پہلے ہی عالمی سطح پر اچھوت بنا ہوا ہے۔ایسے میں مودی اور نیتن یاہو کی رام
ملائی جوڑی پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
فی الحال امریکہ بھی اسرائیل سے دامن جھٹکتا دکھائی دے رہا ہے اورہمارے
پرانے دوست روس نے ہندوستان سے منہ موڑ رکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ روس کے
بجائے فرانس جیسے ممالک سے اسلحہ خریدنا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہند پاک
تنازع کے دوران پوتن پاکستان کےحامی ژی جن پنگ کے ساتھ چائے پیتے دکھائی
دئیے ۔ٹرمپ بجا طور پر برکس کو امریکہ کے لیے مصیبت سمجھتے ہیں ۔ مودی کی
موجودگی میں انہوں نے برکس کی موت کااعلان کیا تو موصوف تردید کرنےکے بجائے
مسکرا دئیےاور پھر امریکہ کی خوشنودی کے لیے ڈالر کےمتبادل برکس کی کرنسی
استعمال کرنے سے انکار کرکے اعتماد گنوا بیٹھے ۔ ہندوستان کے کمزور موقف نے
روس ، چین برازیل اور جنوبی افریقہ سمیت دیگر امریکی استعمار کے مخالفین کو
ہم سے دور کردیا ۔
برکس میں ہندوستان کو کمزور کرنے کے بعد امریکہ گوناگوں وجوہات کی بناء پر
اپنے قدیم ساتھی پاکستان کی حمایت میں چلاگیا ۔ چین پہلے ہی اس کے ساتھ تھا
اور روس بھی چین کی رفاقت میں اعتدال پسندی کی راہ پر چل پڑا۔ فرانس نے
رافیل طیارے کے گرنے کی خبر نے اس کو پریشان ہوکر اپنی کمزوری تسلیم کرنے
کے بجائے الٹا ہندوستانی ہوا بازوں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ اس طرح
ہندوستان کی ’نہ خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم ‘ جیسی حالت ہوگئی۔ اب اسرائیل
کے بعد ہندوستان کا نیم ہمنوا طالبان ہے ۔ وہی طالبان جس کے دورِ اقتدار
میں اٹل جی کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے مولانا مسعود اظہر کے ہاتھوں میں
ہاتھ ڈال کر اجیت ڈوول کے ساتھ کابل کا سفر کیا تھا ۔ مولانا مسعود اظہر کے
پورے خاندان کو ہلاک کر کے بغلیں بجانے والوں کو طالبان سے دوستی کیوں کرنی
پڑی ؟ پہلگام حملے کے بعد ہندوستان آنے والوں غیر ملکیوں میں صرف ایران کے
وزیر خارجہ ۰۰۰اور افغانستان کے نائب وزیر خارجہ ۰۰۰صدر کا دہلی دورہ کیوں
کیا ؟ نیپال، برما اور سری لنکا تک ہماری حمایت میں کیوں نہیں آئے؟ چین
اور بنگلا دیش کا تو خیر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو ہمارا ملک خود
اپنے خطے میں اتنا اجنبی کیوں ہوگیا ۔ اس سوال کا جواب مودی سرکار کو دینا
پڑے گا۔ حکومتِ ہند کی خارجہ پالیسی کامیاب ہوئی ہوتی تو اسے حزب اختلاف کو
ساتھ لے کر مشترکہ وفود بیرونِ ملک بھیجنے کی ضرورت نہیں پیش آتی مگر یہ
آگ بجھانے کا کام اس وقت کیا جارہا ہے جب آشیانہ خاک میں مل چکا ہے اور
مودی جی پر وہ مشہور فلمی نغمہ صادق آرہا ہے؎
سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا ؟
سن میں اگر چراغ جلائے تو کیا کیا؟
|