وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے سپریم کورٹ میں سالیسیٹر
جنرل تشار مہتا کے اوٹ پٹانگ دلائل کو سننے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ سرکار
ہٹ دھرمی پر اتارو ہے اور وہ اس ہانڈی کو ابلتا رکھ کر اپنے سیاسی رس گلےّ
تلنا چاہتی ہے۔ ویسے تشار مہتا کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے کیونکہ
وہ بیچارے تو مودی حکومت کے پنجرے کا طوطا ہیں ۔ اپنے آقا کے اشارے پر دم
ہلانا ان کی مجبوری ہے ۔ وہ جب کہے گا کہ میسور پاک کو میسور شری بولو تو
کہنے لگیں گے کیونکہ انہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ میسور شہرکے کرناٹک صوبے میں
میٹھے کو پاک کہتے ہیں ۔ ویسے اردو اور ہندی میں بھی پکوان کا لفظ رائج ہے
بعید نہیں کہ آگے چل کر ان جیسے لوگ اسے شری وان یا شریمان کہنے لگیں
کیونکہ انہوں نے عقل کا استعمال بند کردیا ہے۔ یہ تمہید کے تشار مہتا کے اس
بیان کو سمجھانے کے لیے بیان کی گئی کہ ’’اوقاف اسلام کے لازمی امور میں
شامل نہیں ہے‘‘۔ دین اسلام کی ابجد سے واقف بچہ بھی ایسی احمقانہ بات نہیں
کرسکتا ۔ اس لیےآگے چل کر جب مورخ اندھے بھگتوں کی فہرست بنائے گا توموصوف
کا شمار ضرور کرےگا ۔
اسلام میں کیا لازمی ہے اور کیا نہیں ہے؟ یہ جاننے کے لیے دینِ حنیف کا
مطالعہ ضروری ہے۔ وقف کا تصور سمجھنے کے لیے انفاق کا فلسفہ سمجھنا چاہیے
کیونکہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں بلکہ وقف انفاق ہی کا ایک حصہ ہے۔ دین
اسلام میں ایمان اورانفاق یا نمازو زکوٰۃ میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور
قرآن وحدیث میں دونوں پر یکساں زور دیا گیا ہے۔ نماز سب سے بنیادی عبادت
ہے اور روزقیامت سب سے پہلے اسی کا حساب ہوگا لیکن اس کے ثواب کا سلسلہ بھی
موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہےجبکہ انفاق یا اوقاف کےثوابِ جاریہ کا اجر بعد
از وفات بھی ملتا رہتا ہے۔ وطن عزیز اوقاف کو انفاق سے کاٹ کر صرف جائیداد
تک محدود کردیا گیا ہے۔ انفاق کی ایک شکل عارضی اور دوسری مستقل ہوتی ہے
مثلاً کسی بھوکے کو کھانا کھلانا خیرات ہےمگر لنگر لگوادینا اوقاف ہے۔ اسی
طرح کسی بچے کی فیس ادا کردینا عارضی اعانت ہے مگر تعلیم گاہ تعمیر کردینا
اسے مستقل نوعیت کی شئے بنادیتا ہے۔ کسی مستحق کے علاج کی مدد تو صحت یابی
کے ساتھ پوری ہوجاتی ہے مگر اسپتال بنا دینے سے آگے بھی لوگ فیضیاب ہوتے
رہتے ہیں۔ اسی طرح اوقاف میں مساجد ، مدارس ، قبرستان ، درگاہ اور دیگر
دینی ادارے بھی شامل ہیں ۔
تشار مہتا منطق یہ ہے چونکہ سچر ّ گاندھی کے مطابق اکثر مسلمان غریب ہیں
اور اوقاف نہیں کرسکتے اس لیے یہ اسلام کا حصہ نہیں ہے ۔ اس منطق کو آگے
بڑھا کے کہا جائے کہ ہندوستان چونکہ غریب ملک ہے ۔ اس میں 80کروڈ لوگ
سرکاری اناج پر گزارہ کرتے ہیں ۔ ہنگر انڈیکس میں اس کا مقام بہت اونچا ہے
اس لیے انکم ٹیکس ہندوستان کے معاشی نظام کا لازمی حصہ نہیں ہے تو کیسا لگے
گا؟ یہ ساری غلط فہمی اوقاف کو بڑی بڑی جائیداد تک محدود کردینے سے پیدا
ہوتی ہے۔ ویسے اگر تشار مہتاکو کسی مسجد میں جانے کی توفیق ملتی تو انہیں
پتہ چلتا کہ وہاں جب مسجد یا مدرسے کی تعمیر کا اعلان ہو تا ہے تو غریب و
مسکین لوگ بھی اپنا پیٹ کاٹ کر چندہ دیتے ہیں اور سبھی کے تعاون سے کام
آگے بڑھتا ہے۔ انفرادی انفاق کا موقع تو سب سے زیادہ غریبوں کو ہی ملتا
ہے۔ اڈانی وامبانی کے قریب تو کوئی مستحق پھٹک ہی نہیں پاتا ۔ وہ لوگ تو
مجبوری میں خرچ کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں بھی عظیم پریم جی کا سب پر
سبقت لے جانا دین اسلام کے اندر انفاق کی ترغیب پر دلالت کرتا ہے ۔
تشار مہتا کی پیروی کا سب سے خطرناک پہلو ’پھوڑو اور راج کرو‘ والی حکمت
عملی کا کھل کر سامنے آجانا ہے۔ پہلے تو ان لوگوں یہ بیانیہ چلایا کہ
اوقاف پر صرف اور صرف اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ مسلمانوں کےپسماندہ طبقات کو
پوری طرح نظر انداز کیا گیا اور وہ استفادے سے محروم ہیں ۔ یہ الزام لگانے
والے نہیں جانتے کہ وقف بورڈ میں سارے تقررات سرکار کی جانب سے ہوتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی مختلف صوبوں میں برسوں سے برسرِ اقتدار ہے۔ مرکزی حکومت
پر وہ 17؍ سال سے قابض ہے۔ اتنے دنوں تک اسے پسماندہ مسلمانوں کا خیال نہیں
آیا مگر اب اچانک وہ یاد آگئے کیونکہ پہلے تو یہ گمان تھا کہ وہ 80 فیصد
ہندووں کا اعتماد حاصل کرکے قیامت تک حکومت کریں گے لیکن اب احساس ہونے لگا
ہے کہ ہندو عوام ان کے چنگل سے نکلنے لگے ہیں اس لیے مسلمانوں پر ڈورے
ڈالنے کی نوبت آرہی ہے۔ اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے تشار مہتا نے کہا
کہ قبائلی مسلمانوں کے رسوم و رواج خاصے مختلف ہیں۔ اس پر جسٹس مسیح نے
پھٹکار لگائی کہ مسلمان تو مسلمان ہوتا ہے۔
بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم خود اپنی قوم سے کہتے ہیں ’ایک رہیں
گے تو سیف رہیں گے‘۔ ان کےمجازی ولیعہد یوگی جی اعلان کرتے ہیں ۔ ’بٹیں گے
تو کٹیں گے‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کو تو ایک کرکے سیف کریں گے
مگر دوسروں کو بانٹ کر کاٹیں گے۔ بی جے پی والے خود کو عقلِ کُل کا حامل
اور دوسروں کو نرا بیوقوف جانتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل متضاد ہے اور
خوش قسمتی سے مسلمان تو دور ہندو بھی اس کا کھیل سمجھ چکے ہیں اور آپریشن
سیندور بھی انہیں بیوقوف بنانے میں ناکام ہوگیا ہے۔ تشار مہتا کے بحث کی سب
سے بڑی حماقت یہ کہنا تھا کہ 1923 وقف قانون کے بعد سرکار نے یہ حق دیا اور
جوکچھ دیا گیا وہ واپس بھی ہو سکتا ہے۔ اس ایک دلیل میں تشار مہتا سے
دوغلطیاں ہوگئیں۔ اول تو انہوں نے یہ اعتراف کرلیا کہ مودی سرکار انگریزوں
کےبیرونی استعمار سے بھی بدتر ہے کہ جس نے حق کو تسلیم کیا تھا اور ان کے
یہ کالےغلام اس کابھی اعتراف نہیں کرتے ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ بنیادی حقوق دئیے یا لیے نہیں جاتے۔ ان کو تسلیم یا
ان کاا نکار کیا جاتا ہے۔ مثلا! جینے کا حق یا مذہب کے مطابق زندگی گزارنے
و اس کی تبلیغ کاحق یا اظہار رائے کی آزادی وغیرہ انسان ہونے کی حیثیت سے
ہر کسی کو حاصل ہیں ۔ ظالم و جابر حکمراں اس کا انکار کرکے سلب کرنے کی
ناقابل معافی جرم کا ارتکاب تو کرسکتے ہیں لیکن اس سے یہ حق ختم نہیں
ہوجاتا۔ جو سالیسیٹر جنرل انسانی حقوق کے حوالے اس بنیادی بات سے واقف نہ
ہو اس سے بھلا کیا توقع کی جائے؟ تشار مہتا کی سب سے بڑی مشکل ’وقف بائی
’یوزر‘ کی مخالفت تھی۔ اس کے لیے انہوں نے کہا کہ وقف اگر سرکاری زمین پر
ہو تو اسے واپس کرنا ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہےجیسے کوئی کہے کہ رات میں اگر دن
ہے تو بتی بند کرنا ہوگی۔ ارے بھائی جس طرح رات میں دن نہیں ہوسکتا اسی طرح
سرکاری زمین پر وقف نہیں ہوسکتا۔ وقف کا اطلاق تو حلال کی کمائی کے خیرات
کرنے پر ہی ہوتا ہے۔ کوئی سرکاری زمین پر قبضہ کرلےتو وہ غاصبانہ قبضہ ہوگا
وقف نہیں ہوگا اس لیے ایسے مقام کو وقف کہہ کر بدنام کرنا درست نہیں ہے۔
گودی میڈیا نے اس بیانیہ کو مضبوط کرنے کی خاطر یہ جھوٹ گھڑا کہ پچھلے چند
سالوں کے اندر وقف کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوگیا ۔ اس کی حقیقت یہ ہے
کہ پہلے اگر کسی ایک وقف کے تحت مسجد، مدرسہ اورقبرستان ہوتا تھا تو اب الگ
الگ تین رجسٹریشن سے تعدادتین گنا بڑھ گئی لیکن اگر یہ درست بھی ہو تو اس
میں برا کیا ہے؟ اڈانی و امبانی کے لوٹ کا مال بڑھے تو اس پر فخر کیا جائے
اور کسی قوم کی وقف جائیداد جائز طریقے سے بڑھے تو اس پر رنج کی کیا بات
ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ خوشی کی بات ہونی چاہیے مگر برا ہو عصبیت کا جس
نےایک اچھی شئے سے حسد کا شکار کردیا۔ عدالت پر اگر سرکار اس طرح دباو
ڈالنے لگے تو اسے کم کرنے کے لیے عوامی مزاحمت ضروری ہوجاتی ہے۔ اس تناظر
میں مسلم پرسنل بورڈ کے تحت وقف ترمیمی قانون کے خلاف چلائی جانے والی
تحریک کو دیکھنا چاہیے۔ اس کا اپنی مزاحمت کو ایوانِ پارلیمان سے نکال کر
تال کٹورہ اسٹیڈیم تک پہنچانا قا بل ستائش ہے ۔امت کے حق میں یہ فالِ نیک
ہے۔ اس سلسلے میں بتی گل تحریک کو بھی غیر معمولی کامیابی ملی۔ پہلگام
حادثے کے بعد یہ تحریک عارضی طور پر روک دی گئی تھی مگر اب زور و شور سے
شروع ہوچکی ہے۔ وقف تحریک جب بفضل تعالیٰ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو
جائےگی تو وہ امت کوبیداری، اتحاد اور مزاحمت کی فیوض و برکات سے بھی
فیضیاب کرے گی۔ ایسے میں حفیظ میرٹھی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
ہر انقلاب کی تاریخ یہ بتاتی ہے
وہ منزلوں پہ نہ پایا جو رہ گزر سے ملا
|