امریکہ نئے دور کا تاجر

تجارت کے فروغ سے ملک نئی روشنی پیدا ہو گی باغوں میں بہار آئے گی گھروں میں چراغ روشن ہوں گے ملکی وسائل میں اضافہ کر کے ملکی صنعت کو بھی فروغ دینا ہوگا

پاکستان اور امریکا کے درمیان باہمی ٹیرف پر باضابطہ مذاکرات کا آغاز دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پیش رفت سے پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے، اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، کھیلوں کے سامان اور زرعی مصنوعات جیسے شعبے عالمی منڈی میں مسابقتی مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ ان صنعتوں میں وسعت سے مقامی سطح پر روزگار بڑھے گا اور معیشت میں حرکت آئے گی، جس کے اثرات براہِ راست عام شہری کی زندگی پر مرتب ہوں گے۔

برآمدات میں اضافہ نہ صرف معیشت کو مستحکم کرے گا بلکہ روپے کی قدر کو سہارا دے گا، مہنگائی میں ممکنہ کمی آئے گی اور حکومت کو عوامی فلاح کے منصوبے چلانے کی گنجائش بھی میسر آئے گی۔ امریکا کی طرف سے اگر تکنیکی معاونت یا سرمایہ کاری کی راہیں کھلتی ہیں تو پاکستانی صنعتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔

دوسری طرف امریکا کے لیے یہ معاہدے محض اقتصادی نہیں بلکہ اس کی جنوبی ایشیا میں جغرافیائی و اقتصادی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ اسے پاکستانی مارکیٹ تک رسائی، کم لاگت مینوفیکچرنگ کی سہولت، اور اپنے کاروباری اثر و رسوخ کو وسعت دینے کا موقع ملے گا۔ امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے منافع میں اضافہ کر سکتی ہیں، جبکہ برآمدات میں بھی وسعت ممکن ہے۔

تاہم یہ سوال اہم ہے کہ زیادہ فائدہ کس کو ہوگا؟ عالمی تجربات یہی بتاتے ہیں کہ بڑی معیشتیں اپنے منظم نظام، سخت معیار، اور سودمند معاہداتی پوزیشن کے باعث نسبتاً زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔ پاکستان کو اس عدم توازن کا سامنا کرنے کے لیے اپنی اندرونی کمزوریوں پر قابو پانا ہو گا۔ معیاری پیداواری نظام، موثر ریگولیٹری ادارے، اور صنعتی ڈھانچے کی ترقی وہ بنیادی عناصر ہیں جن کے بغیر یہ معاہدے یک طرفہ فائدہ کا باعث بن سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ اگر ان مذاکرات میں پاکستان امریکی مصنوعات پر بھی محصولات میں کمی پر رضامند ہوتا ہے تو سستی، معیاری درآمدات سے مقامی صنعتوں پر دباؤ بڑھے گا۔ ہمیں اس خطرے کا ادراک رکھتے ہوئے اپنی مارکیٹ کو متوازن رکھنے کی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔

یہ مذاکرات پاکستان کے لیے صرف ایک تجارتی معاہدہ نہیں بلکہ ایک موقع ہیں کہ وہ عالمی اقتصادی دھارے میں خود کو مضبوطی سے شامل کرے۔ شرط یہ ہے کہ ہم سفارتی حکمت، اقتصادی بصیرت اور قومی مفاد کو مرکز میں رکھ کر فیصلے کریں، بصورت دیگر یہ معاہدے وقتی فائدہ اور دیرپا نقصان کی داستان بن سکتے ہیں۔

امریکا کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں یہ امر یقینی بنایا جائے کہ پاکستانی مارکیٹ میں امریکی مصنوعات کا سیلاب مقامی صنعتوں کو تباہ نہ کرے۔ "سینیٹیری و فائٹو سینیٹیری" (SPS) شرائط، کوالٹی کنٹرول، اور مخصوص شعبوں میں کوٹہ یا حفاظتی محصولات (Safeguard Duties) جیسی شقیں معاہدوں کا حصہ بننا ضروری ہیں تاکہ غیر متوازن مقابلہ مقامی صنعت کو نہ نگل لے۔

مزید یہ کہ بند صنعتوں کے مزدوروں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ری اسکلنگ (Re-skilling) پروگرام شروع کرنا ہو گا تاکہ وہ نئی ٹیکنالوجی اور پیداوار کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔

اگر پاکستان ان معاہدوں کو محض "کامیابی کی خبر" سمجھ کر بیٹھ گیا اور داخلی صنعتی ڈھانچے کو ٹھیک نہ کیا، تو فائدہ صرف دوسرے فریق کو پہنچے گا۔ لیکن اگر ہم اس موقع کو ایک معاشی بحالی کی سیڑھی سمجھ کر اندرونی اصلاحات کا عمل شروع کریں، تو یہی معاہدے پاکستان کی صنعتی ترقی کا نقطۂ آغاز بن سکتے ہیں۔
 

Saif Ali adeel
About the Author: Saif Ali adeel Read More Articles by Saif Ali adeel: 22 Articles with 29250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.