پاکستانی بندرگاہیں اور وسطی ایشیائی تجارت


پاکستانی بندرگاہوں، خصوصاً گوادر پورٹ کو لے کر حالیہ دنوں میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی میں سامنے آنے والا انکشاف نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ قومی سطح پر تجارتی حکمتِ عملی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی چاروں بندرگاہوں کے شپنگ چارجز پورے خطے کی بندرگاہوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس انکشاف نے اُن تمام قومی و بین الاقوامی تجارتی منصوبہ سازوں، ماہرینِ معیشت اور تجزیہ کاروں کو حیرت میں ڈال دیا ہے جو گوادر کو وسطی ایشیائی ممالک کی تجارت کے گیٹ وے کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

گوادر پورٹ کا منصوبہ 2002ء میں پاکستان اور چین کے باہمی اشتراک سے شروع ہوا تھا۔ اس بندرگاہ کو نہ صرف چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا مرکزی نکتہ سمجھا گیا بلکہ اسے مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور وسطی ایشیا تک تجارت کے ایک اہم محور کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔ توقع تھی کہ گوادر، دبئی اور سنگاپور جیسے جدید بندرگاہی شہروں کے ہم پلہ ہوگا۔ مگر افسوس کہ 2025ء تک، گوادر کی بندرگاہ کو مکمل طور پر فعال قرار نہیں دیا جا سکا۔

2009ء میں گوادر پورٹ پر ستر (70) تجارتی جہاز لنگر انداز ہوئے، جبکہ 2024ء میں یہ تعداد گھٹ کر صرف چار (4) رہ گئی۔ یہ زوال نہ صرف معاشی بدانتظامی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ حکومتی سطح پر پالیسی کی ناکامی بھی واضح کرتا ہے۔ اس کا سبب بریفنگ میں یہ بتایا گیا کہ گوادر بندرگاہ پر شپنگ چارجز، خطے کی تمام بندرگاہوں سے زیادہ ہیں — ایک ایسی حقیقت جو کہ گوادر کی مسابقتی حیثیت کو شدید متاثر کرتی ہے۔

ایران کی چاہ بہار بندرگاہ، جو گوادر کے بعد ترقیاتی مراحل میں داخل ہوئی تھی، آج فعال ہے اور ہندوستان سمیت کئی بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کر چکی ہے۔ گوادر کی تاخیر اور چاہ بہار کی ترقی اس امر کی دلیل ہے کہ سیاسی عزم، ٹیکس اور ریگولیٹری سہولتیں اور انفراسٹرکچر کی دستیابی کسی بھی بندرگاہ کی کامیابی کے لازمی عناصر ہیں۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان نے گوادر کو ٹیکس فری زون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ معاشی لحاظ سے نہایت اہم ہے کیونکہ موجودہ بلند شپنگ چارجز، کسٹمز ڈیوٹیز اور بندرگاہی محصولات گوادر کی فعالیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی بندرگاہیں ، چاہے وہ ہانگ کانگ ہو یا دبئی ،کسی نہ کسی حد تک فری زون کی سہولت سے لیس ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جولائی 2024ء میں کراچی میں ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں ایل این جی شپنگ فیس کم کرنے، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط مضبوط کرنے اور شپنگ انڈسٹری کے لئے ریگولیٹری باڈی بنانے کی ہدایت کی تھی۔ مگر کمیٹی کی بریفنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہدایات زمینی سطح پر عملی صورت اختیار نہ کر سکیں۔ یہ ناکامی نہ صرف انتظامی سُستی کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ مستقبل کی ممکنہ سرمایہ کاری پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

یہ صورتِ حال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت پاکستان، بالخصوص وزارتِ منصوبہ بندی اور بندرگاہوں کی اتھارٹیز، ایک ہنگامی بنیادوں پر نظرثانی شدہ حکمتِ عملی مرتب کریں۔ گوادر جیسے اسٹریٹیجک مقام پر واقع بندرگاہ کو متحرک نہ کر پانا معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔ یہ ایک قومی اثاثہ ہے جو صرف پاکستان ہی نہیں، پورے وسطی ایشیائی خطے کے لئے معاشی راہداری بن سکتا ہے، بشرطیکہ بروقت اقدامات کیے جائیں۔
اس سلسلے میں چند سفارشات پر عمل کیا جائے:گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دیا جائے۔ شپنگ چارجز میں علاقائی ہم آہنگی لائی جائے تاکہ گوادر بندرگاہ مسابقتی بن سکے۔ گوادر پورٹ اتھارٹی میں پیشہ ورانہ اور غیر سیاسی قیادت تعینات کی جائے۔ شپنگ انڈسٹری کی ریگولیٹری باڈی فوری قائم کی جائے اور اسے مکمل خود مختاری دی جائے۔ گوادر کو ملک گیر اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بنایا جائے۔

گوادر ایک خواب تھا ، وسطی ایشیائی تجارت، سی پیک کی کامیابی اور پاکستان کے معاشی احیاء کا خواب۔ لیکن افسوس، خواب ابھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اب بھی سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائیں تو گوادر ایک "مس ہینڈلڈ" منصوبے کی علامت بن کر رہ جائے گا۔ پاکستانی بندرگاہوں کو اگر خطے کا تجارتی مرکز بنانا ہے تو انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق سہولیات، لاگت اور انتظامی استعداد فراہم کرنا ہوگی ، ورنہ گوادر کا مقدر تاریخ کی فہرست میں ایک ناکام منصوبے کے طور پر درج ہو جائے گا۔

 

Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali
About the Author: Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali Read More Articles by Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali: 19 Articles with 7186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.