پاکستان کی سیاسی ثقافت: نمائندے، ووٹر اور خاموش اکثریت
تعارف
پاکستان کی سیاست نہ صرف نظام حکومت کی عکاس ہے بلکہ یہ عوام کی سوچ، طرزِ
فکر، اجتماعی نفسیات اور سماجی رویوں کی بھی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔
سیاسی نمائندے جیسے کہ اراکین اسمبلی (MNAs اور MPAs)، عوام کی امیدوں کا
محور ہونے کے بجائے ایک خاص طبقہ بن چکے ہیں، جو عوام سے زیادہ طاقتور،
بالا تر اور کبھی کبھار ناقابلِ تنقید سمجھے جاتے ہیں۔ اس تحقیقی مقالے میں
پاکستان کی سیاسی ثقافت کا تجزیہ کیا گیا ہے، جہاں ٹکٹ کیسے ملتے ہیں، ووٹ
کیسے لیے جاتے ہیں، اور نمائندے ووٹرز کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔ اس کے
ساتھ ساتھ، پاکستانی ووٹرز کی خاموشی اور نفسیاتی غلامی جیسے پہلوؤں کا بھی
جائزہ لیا گیا ہے۔
ٹکٹوں کی سیاست — وفاداریاں، سرمایہ اور وراثت
پاکستان میں پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ میرٹ یا عوامی خدمت کی بنیاد
پر کم اور چاپلوسی، سرمائے اور خاندانی وراثت کی بنیاد پر زیادہ ملتے ہیں۔
ایک عام محنت کش، پڑھا لکھا استاد یا سوشل ورکر، اگر چاہے بھی تو پارٹی کا
ٹکٹ نہیں لے سکتا کیونکہ نہ اس کے پاس سیاسی برادری ہے، نہ سرمایہ، اور نہ
ہی "بڑے لوگوں" سے روابط۔
زیادہ تر ٹکٹیں ان لوگوں کو ملتی ہیں جو پارٹی قیادت کے قریب ہوں، چندہ دے
سکتے ہوں، یا پرانی سیاسی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہوں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندے کم، جاگیردار،
سرمایہ دار، اور سیاست کو پیشہ بنانے والے لوگ زیادہ بیٹھے ہوتے ہیں۔
ووٹ لینے کے طریقے — وعدے، دھوکہ اور جبر
ووٹ لینے کے وقت سیاستدان ہر ممکن طریقہ اختیار کرتے ہیں:
جھوٹے وعدے کہ "روڈ بنواؤں گا"، "نوکری دوں گا"، "ہسپتال لے آؤں گا"
برادری سسٹم کا بھرپور استعمال: برادریوں کو خرید کر یا دباؤ ڈال کر ووٹ
حاصل کیے جاتے ہیں
نوٹ برائے ووٹ: غربت سے مجبور عوام کو پیسے، راشن، یا وقتی سہولت دے کر ووٹ
لیے جاتے ہیں
بعض دیہی علاقوں میں تو دھمکیاں اور جبر کا استعمال بھی کیا جاتا ہے
اس سارے عمل میں اصل سوچ، وژن، یا اصلاحات کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا۔
انتخاب سے پہلے اور بعد کا تضاد
انتخاب سے پہلے نمائندے "خادم" بنتے ہیں:
گلیوں میں پکوڑے کھاتے ہیں
جنازوں میں شرکت کرتے ہیں
عام آدمی کے دروازے پر جا کر تصویر بنواتے ہیں
لیکن جیسے ہی وہ منتخب ہو جاتے ہیں:
ان کے پاس جانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے
سادہ درخواست پر بھی بات سننا پسند نہیں کرتے
وہ خود کو بادشاہ اور عوام کو رعایا سمجھنے لگتے ہیں
یہ رویہ اس بات کا مظہر ہے کہ ان کے نزدیک عوام صرف ووٹ دینے کے دن کے لیے
اہم ہے، باقی پانچ سال ان کی حیثیت صفر ہے۔
ووٹروں کی نفسیاتی کیفیت — خاموشی اور خوف
سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عوام ان نمائندوں کے خلاف آواز بلند نہیں
کرتے۔ وہ ان سے سوال نہیں کرتے، نہ ان کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کی
چند بنیادی وجوہات ہیں:
نفسیاتی غلامی: عوام اپنے منتخب نمائندوں کو "بڑے لوگ"، "سردار"، یا "خدا
کے سائے" کی مانند دیکھتے ہیں۔
خوف: پاکستانی تاریخ میں جو بھی طاقتور شخص یا لیڈر عوام کے ساتھ کھڑا ہوا،
اسے نشان عبرت بنایا گیا۔
فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی
نواز شریف کو جلا وطن کیا گیا
عمران خان کو قید و مقدمات کی زد میں لایا گیا
عوام سمجھ چکی ہے کہ اگر وہ کسی کے حق میں بولیں گے یا طاقتور کے خلاف اٹھ
کھڑے ہوں گے، تو وہ بھی کسی نہ کسی طرح نشانہ بنیں گے۔
تعلیم کی کمی اور سیاسی شعور کی کمی بھی عوام کو خاموش رکھتی ہے۔
کیا تبدیلی ممکن ہے؟ — مستقبل کی جھلک
اگرچہ یہ سب کچھ مایوس کن لگتا ہے، لیکن کچھ مثبت اشارے بھی ہیں:
سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو باخبر کیا ہے۔ اب ووٹر سوال کرتا ہے، ویڈیو
بناتا ہے، آواز اٹھاتا ہے۔
آزاد امیدواروں کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو بغیر پارٹیوں کے جیتنے کی کوشش
کرتے ہیں۔
تعلیم یافتہ طبقے میں بیداری آ رہی ہے، جو صرف روایتی برادری یا نعروں پر
ووٹ نہیں دے رہا۔
خواتین اور نوجوانوں کی سیاسی شرکت میں اضافہ ہو رہا ہے، جو مستقبل کی
سیاست کا چہرہ بدل سکتے ہیں۔
لیکن اس تبدیلی کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ:
تعلیمی اداروں میں سیاسی شعور پیدا کیا جائے
عوام کو سکھایا جائے کہ نمائندے خادم ہیں، حاکم نہیں
ووٹر کو حقِ سوال، حقِ تنقید اور حقِ احتساب دیا جائے
میڈیا اور سول سوسائٹی عوام کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں
نتیجہ
پاکستان کی سیاسی ثقافت میں ابھی تک بادشاہت، چاپلوسی اور خوف غالب ہیں۔
نمائندے عوام سے زیادہ پارٹی قیادت اور سرمایہ داروں کے وفادار ہوتے ہیں۔
لیکن اس جمود کو توڑنے کے لیے لازم ہے کہ عوام خاموشی توڑیں، شعور اپنائیں
اور سیاسی اختیار کو ذاتی غلامی کے بجائے قومی امانت سمجھیں۔
آنے والے وقت میں اگر نوجوان نسل شعوری طور پر فیصلے کرے، اور عوام سوال
کرنے لگے، تو یقیناً پاکستان ایک باوقار، جمہوری اور شفاف سیاسی نظام کی
طرف بڑھ سکتا ہے۔ |