سندھ طاس معاہدہ اور پانی پر جنوبی ایشیا کی ممکنہ ایٹمی کشیدگی

"سندھ طاس معاہدہ اب عملی طور پر ختم ہو چکا ہے، ہمیں نئے سرے سے پانی کی تقسیم طے کرنی ہوگی۔"
یہ الفاظ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے ہیں، جو انہوں نے حالیہ انٹرویو میں کہے۔ ان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک انتہائی سنجیدہ اور تشویشناک بیان دیتے ہوئے کہا!
"بھارت آبی تنازع پر ایٹمی جنگ کی بنیاد رکھ رہا ہے، اور جنوبی ایشیا کو پہلی ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔"بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ بیان خطے میں سفارتی اور سکیورٹی حلقوں میں گونج رہا ہے۔ انہوں نے کھل کر بھارت پر الزام لگایا کہ"پانی کا یہ تنازع صرف زراعت، معیشت یا ماحولیات کا مسئلہ نہیں رہا، یہ اب وجودی خطرہ بن چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی کوششیں دراصل جنوبی ایشیا کو ایٹمی تصادم کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہیں۔"یہ بیان اس لیے بھی زیادہ وزن رکھتا ہے کیونکہ بلاول نہ صرف ایک سیاسی رہنما ہیں بلکہ بین الاقوامی سفارت کاری میں براہِ راست خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

یہ بیان محض سیاسی بیان بازی نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے، جو پانی جیسے زندگی بخش عنصر کو تباہی کی علامت بنا سکتا ہے۔پاکستان کی نئی نسل کو اس معاہدے کے بارے میں کچھ زیادہ شائد معلوم نہ ہو اس لئے آج ہم اس معاہدے کی بنیادی تفصیلات کو جاننے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی اہمیت پر بات کریں گے کہ کیوں پاکستان اس مسئلہ کو اپنی لئے زندگی اور مو ت کی لکیر گردانتے ہوئے باربار بھارت کو متنبہ کررہا ہے کہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی سے وہ جتنا دور رہے وہ اس کیلئے بہتر ہوگا کیونکہ پاکستان اس مسئلہ پر کسی سمجھوتے کا شکا ر نہیں ہوگا بلکہ اسے ”ریڈ لائن“ قراردیتے ہوئے ہرقسم کے مسئلہ پر مصلحت اختیار کرنے کو نظر انداز کرکے جنگ سے کسی صورت دریغ نہیں کرے گا۔

سندھ طاس معاہدہ: تاریخی پس منظر اور بنیادی تفصیلات
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب پاکستان ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم ہوا، تو دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاو ¿ں کا نظام دونوں ممالک میں تقسیم ہو گیا۔ چونکہ پانی کی ترسیل بھارت کے راستے سے ہو کر پاکستان آتی تھی، اس لیے جلد ہی اس پر تنازع پیدا ہوا۔ابتدائی کشیدگی اس وقت پید ا ہوئی جب یکم اپریل 1948 کو بھارت نے پنجاب میں فیروزپور کے مقام پر دریائے ستلج کا پانی روک لیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں شدید بحران پیدا ہوا۔اس اقدام کے بعد پاکستان نے بین الاقوامی برادری سے مداخلت کی اپیل کی جس پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے ثالثی کا آغاز ہوا۔

عالمی بینک کی ثالثی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔کئی سالوں کی گفت و شنید کے بعد 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں "سندھ طاس معاہدہ" پر دستخط ہوئے، ا س معاہدہ کے فریقین پاکستان کے صدر ایوب خان،بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو،اور عالمی بینک کے صدر یوجین بلیک تھے جنہوں نے اس معاہدہ پر دستخط کیے۔

معاہدے کے مطاقب چھ دریاﺅں کے پانی کی تقسیم کچھ اس طرح سے کی گئی ،تین مشرقی دریا ”راوی، ستلج، بیاس“ بھارت کو مکمل طور پر دے دئےے گئے اورتین مغربی دریا”سندھ، جہلم، چناب“ پاکستان کے لیے مخصوص کیے گئے۔اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے، اور ڈیم یا دیگر تعمیرات سے پہلے ایک دوسرے سے مشاورت ضرور کریں گے لیکن بدقسمتی سے بھارت نے اس معاہدہ کی مکمل پاسداری کبھی بھی نہیں کی اور جب جب موقع ملاتو اس نے پانی روک کر اور یا یکلخت چھوڑ کر پاکستان کو مشکلات سے دوچار کیا۔

موجودہ صورتحال اور پاکستان و بھارت کے مابین جنگ کے بعد مودی کی حکومت نے ایک بار پھر پانی روکنے کے عمل سے پاکستان کیلئے مشکلات پیداکرنے کی کوشش کی ہے جس پر اگرچہ پاکستان نے مودی سرکار کو واضح پیغام دیا ہے کہ یہ پاکستان کی ریڈ لائن کا معاملہ ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے اور شائد یہ اسی سوچ کا رد عمل ہے کہ اب پاکستان کی جانب سے کچھ اشارے دئے جارہے ہیں کہ باز آجاو ورنہ باز آجانے کیلئے راستے اور بھی ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کیا!

خواجہ آصف کا بیان یہ ظاہر کرہا ہے کہ پاکستان معاہدے سے پیچھے ہٹ رہا ہے؟ کیونکہ خواجہ آصف کے حالیہ بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ!"بھارت کئی دہائیوں سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتا آ رہا ہے، ہم نے دنیا کو بار بار بتایا، لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ اب ہم مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔"

یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت کئی ڈیم منصوبوں پر کام کر رہا ہے، جن پر پاکستان کو اعتراضات ہیں، خصوصاًکشن گنگا ڈیم (کشمیر)،راتلے ڈیم (چناب)۔پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ تعمیرات سندھ طاس معاہدے کی روح کے خلاف ہیں۔اس عمل سے ممکنہ اثرات اور خطرات جو نظر آ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ معاہدے کی معطلی یا ختم کرنے کی کوشش۔

اگر پاکستان واقعی اسے "ختم شدہ" تصور کرتا ہے تو بھارت کو بھی کھل کر کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔دونوں ممالک میں پانی پر قانونی جنگ اور سفارتی کشمکش شدت اختیار کر سکتی ہے۔اس حوالے سے حالات کو بغور جائزہ لینے پر جو بات سامنے آتی ہے وہ پاکستان کے اندرونی اثرات کی صورت میں یوں ہے کہ پاکستان کی زرعی زمینوں کا بڑا انحصار مغربی دریاؤں پر ہے ،اگر پانی میں کسی قسم کی کمی یا رکاوٹ آتی ہے تو معاشی، زرعی اور ماحولیاتی بحران جنم لے سکتا ہے لیکن معاہدہ یکطرفہ طورپر ختم کرنے سے عالمی ردعمل اور قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں کیونکہ معاہدہ عالمی بینک کی ضمانت سے ہوا تھا، اس لیے اس کی معطلی یا نظرثانی کے لیے بین الاقوامی قانونی کارروائی ضروری ہوگی۔یکطرفہ اقدامات پاکستان کو سفارتی تنہائی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔

پاک بھارت تعلقات کے موجودہ تناظر میں حالات کا جائزہ لیں تو دونوں ملکوںکے درمیان گزشتہ چند سالوں میں تعلقات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی (2019) کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں اب پانی کا مسئلہ ایک نئے محاذ کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین کی آراءکو بھی مقدم رکھنا چاہئے ،ماہرین کا ماننا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ابھی تک جنوبی ایشیا میں امن و امان کے لیے ایک بنیادی ستون ہے۔اگر یہ معاہدہ غیر مو ¿ثر ہوتا ہے تو صرف پاکستان یا بھارت ہی نہیں، بلکہ پورا خطہ ماحولیاتی و اقتصادی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔معاہدے کی بحالی یا نظرثانی صرف سفارتی مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے، یکطرفہ بیانات یا اقدامات سے نہیں۔

اگر اس بات کا ذکر کیا جائے کہ کیا پاکستان کو معاہدے سے باہر نکلنا چاہیے؟ تو جواب نفی میں ہوگا کیونکہ اس سلسلے میں خواجہ آصف اور بلاول بھٹو کا بیان سیاسی دباؤ کا ایک ہتھیار توہو سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ اب بھی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اگر بھارت واقعی اس معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ سفارتی مہم چلائے،بین الاقوامی ثالثی پر زور دے اور قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا مقدمہ مضبوط کرے۔ورنہ پانی جیسا زندگی بخش عنصر آنے والے وقت میں دونوں ایٹمی قوتوں کے لیے جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک سنجیدگی سے مذاکرات کا آغاز کریں،عالمی بینک اور اقوام متحدہ ثالثی کے کردار کو دوبارہ فعال کریںاور پانی کو امن کا ذریعہ بنایا جائے، نہ کہ جنگ کاورنہ بلاول بھٹو زرداری کا انتباہ محض سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ آنے والے خطرے کی دستک ہو سکتا ہے۔ ��ٹث
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 75 Articles with 72601 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.