دنیا کے نقشے پر دو خطے ایسے ہیں جہاں ریاستی بیانیہ کے مطابق دہشت گردی کے
خلاف جنگ جاری ہے، مگر متاثرہ عوام اسے اپنی بقا کی جنگ کہتے ہیں۔ ایک طرف
ہے مقبوضہ کشمیر، دوسری جانب غزہ کا محصور علاقہ۔ دونوں جگہوں پر مظلوموں
کے خلاف طاقت کا استعمال ہو رہا ہے، اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان
کارروائیوں میں بھارت اور اسرائیل کے کردار میں حیرت انگیز مماثلت نظر آتی
ہے۔
1992 میں بھارت اور اسرائیل نے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بھارت جو
کہ ایک عرصے تک فلسطینیوں کا حامی رہا، بدلتے عالمی حالات میں اسرائیل کی
طرف جھکنے لگا۔ آج دونوں ممالک نہ صرف دفاعی بلکہ تکنیکی، زرعی اور
انٹیلیجنس معاملات میں قریبی شراکت دار بن چکے ہیں۔
کارگل جنگ (1999) ہو یا حالیہ سرحدی کشیدگیاں، اسرائیلی ہتھیار، ڈرونز اور
نگرانی کے نظام بھارت کی افواج کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔ بھارتی
فورسز کو اسرائیلی ماہرین سے انسداد دہشت گردی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
بارڈر مینجمنٹ، سیٹلائٹ سسٹمز، اور مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی کا سامان،
سب اسرائیل سے حاصل کیا جاتا ہے۔
دونوں ممالک اپنے آپ کو اسلامی شدت پسندی کا نشانہ قرار دیتے ہیں اور "دہشت
گردی کے خلاف جنگ" کے بیانیے کو عالمی سطح پر فروغ دیتے ہیں۔ بھارت کشمیر
میں پاکستان پر الزام لگاتا ہے، جبکہ اسرائیل حماس کو جڑ سے اکھاڑنے کی
کوشش کرتا ہے۔ دونوں جگہ ریاستی بیانیہ ایک جیسا ہے: "ہم صرف اپنا دفاع کر
رہے ہیں۔"
غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں، جن میں اسکول، اسپتال اور رہائشی عمارتیں
نشانہ بنتی ہیں، عالمی برادری میں بارہا زیرِ بحث آ چکی ہیں۔ اسی طرح کشمیر
میں بھی گھروں کی تلاشی، انٹرنیٹ کی بندش، اور عام شہریوں کی ہلاکتیں معمول
بن چکی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک پر مغرب خاموشی اختیار کرتا ہے، دوسرے پر
کبھی کبھی بیانات جاری ہو جاتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارت اور اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کے پردے میں
انسانیت سوز مظالم چھپاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف اسرائیل خود کو واحد جمہوری
ملک کہتا ہے، وہیں بھارت سب سے بڑی جمہوریت کا دعوے دار ہے۔ مگر دونوں جگہ
جمہوریت صرف اکثریت کے لیے ہے، اقلیت کے لیے کریک ڈاؤن۔
نریندر مودی کے دور میں بھارت نے اسرائیل سے تعلقات مزید مضبوط کیے، حتیٰ
کہ فلسطین کے حق میں بیان دینا بھی کم کر دیا۔ دوسری جانب اسرائیل نے کبھی
کشمیر پر تنقید نہیں کی، بلکہ بھارت کے اقدامات کو "دہشت گردی کے خلاف
دفاعی ردِعمل" قرار دیا۔
یہ سوال اب زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ کیا بھارت اور اسرائیل کا یہ اشتراک صرف
دفاعی اور تکنیکی ہے؟ یا یہ ایک نیا عالمی بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش ہے جس
میں ریاستی طاقت کو ہر صورت میں جائز قرار دیا جائے؟
غزہ اور کشمیر کے مظلوموں کے لیے یہ تعاون "دہشت گردی کے خلاف جنگ" نہیں
بلکہ ایک مشترکہ جبر کی علامت بن چکا ہے۔
|