قرآن اور اہلِ عرب part#1

بسم الله الرحمن الرحيم

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي – وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي – وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي

قرآن کا سب سے چھوٹا unit آیت ہے آیت کو انگلش میں verse کہتے ہیں۔
ورس کے انگریزی میں دو معنی ہیں یعنی بائیل کے بارے میں بات ہورہی ہو تو ورس استعمال ہوتا ہے اور یہ قرآن کے خلاف الزام بھی تھا کہ اسکا بائیل سے تعلق ہے تو ایسا کوئی بھی لفظ استعمال کرنا جس کا بائیل سے تعلق ہو یا ہنٹ بھی ہو کہ یہ بائبل سے ہے یہ مناسب نہیں ہے ۔
اور دوسرا ورس شاعری گانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اور قرآن میں بہت سٹرونگ نیگیشن ہے کہ نہ ہم نے انھیں شاعری سکھائی نا یہ انکے شایانِ شان ہے نہ لائق ہے۔

تو پھر آیت کے لیے کیا لفظ استعمال کیا جائے کیا آیت کے لیے سینٹینس استعمال کیا جائے۔

تو سورة فاتحہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾

ایک ہی ٹینس ہے پر تین آیات میں Divided ہے۔

اور سورۃ النساء کی وراثت پر آیت ہے۔ ایک آیت ہے پر بہت سارے جملے ہیں یعنی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے آیت ایک جملہ بہت سارے اور کبھی جملہ ایک ہی پر آیات بہت ساری اور کبھی صرف ایک لفظ ایک آیت ہوتا ہے جیسے" الرحمن " اور کبھی صرف حرف جیسے الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ یعنی آیت کو کسی اور لفظ سے تعمبیر کرنا غلط ہے ۔ یہ مخلتف ہے اسکی نیچر کو آپ کبھی بھی کسی سے نہیں ملا سکتے۔

ہم نے پوری زندگی کتابیں پڑھی ہوتی ہیں ان سب کتابوں میں بہت سی باتیں کومن ہوتی ہیں جیسے ابتداء تعارف پھر کچھ چیپٹر یعنی چند ایک اصول ہوتے ہیں جن پر دنیاوی کتابیں انحصار کرتی ہیں پر قرآن ان جیسی کتاب نہیں ہے اس میں کچھ بھی ان جیسا نہیں ہے جیسے قرآن پاک میں چیپٹر نہیں ہیں سورت ہے اس میں ورس یا سینٹینس نہیں ہے آیت ہے
سورت کا اپنا الگ ہی سٹائل ہے جسے کتاب میں ایک ترتیب کے ساتھ چیپٹر ہوتے ہیں۔ قرآن میں پھر کبھی کبھار ٹرانسلیشن میں سورت کو چیپٹر کہہ دیتے ہیں پر یہ نا انصافی ہے کیونکہ چیپٹر ایک دوسرے پر ڈیپینڈنٹ ہوتے ہیں یا پہلا چیپٹر اگلے سے جڑا ہوتا ہے جیسے جو ایک چیپٹر میں بات ہو رہی ہے اسی بات کو اگلے ، چیپٹر میں کونٹینیو کیا جائے گا وہ پچھلی بات کو ریپیٹ نہیں کرے گا اسی لیے آپ کوئی بھی کتاب درمیان سے اٹھا کر نہیں پڑھ سکتے بات سمجھ ہی نہیں آئیگی لکھاری نے اپنی بات آسان انداز میں قارئین کو سمجھانے کے لیے ہی اپنی کتاب کو حصّوں میں تقسیم کیا اور پھر انہیں انکی مناسب جگہ پر رکھا اس ترتیب سے رکھا کہ پڑھنے والے کو بات ابتداء سے اختتام تک اچھی طرح سمجھ آجائے اب اگر ایسے میں کوئ قاری اسے درمیان سے پڑھنا شروع بھی کر دے تو عین ممکن ہے اسے بات سمجھ ہی نہ آئے اور چلیں اگر سمجھ آ بھی جائے تو ہو سکتا ہے اسکے کونٹیکس میں سمجھ نہ آئے وہ مِس گائڈ ہو جائے اس لئے اگر کتاب کو سمجھنا ہے تو اسے اسکے تعارف سے پڑھو اسکی ترتیب کے مطابق تاکہ اس کتاب کو سمجھا جاسکے ۔
پر قرآن میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوں ؟
قرآن سب سے پہلے مکہ میں نازل ہوا اور ان سورتوں کو مکی سورتیں کہا جاتا ہے انھیں سب سے پہلے ہو نا چاہے پر زیادہ تر مکی سورتیں قرآن میں سب سے آخر میں ہے اگر آپ آخر میں جا کر سورہ اخلاص پڑھیں تو اسکے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ پچھلی 110 سورتیں پڑھیں وہ اکیلی بھی پڑھ لیں تو سمجھ آجائیگی ہاں ان سب کا آپس میں ایک تعلق ہے پر وه انڈیپنڈنٹ ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورت چیپٹر نہیں ہے اور آیت Verse نہیں ہے۔۔جاری ہے

استاد نعمان علی خان کے لیکچر سے ماخوذ
 

Anam Misbah
About the Author: Anam Misbah Read More Articles by Anam Misbah: 10 Articles with 5075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.