فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ڈاکٹرائن

پاکستان اوربھارت دونوں جوہری طاقت اورجوشیلی ریاست ہیں لہٰذاء ان دونوں میں سے کوئی دوسرے کے ساتھ تصادم کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ اب تصادم کی صورت میں جدید ٹیکنالوجی کے مقابل فوج کابڑا حجم کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔جوبروقت ٹریگر دبائے،دشمن کے فوجی اہداف پر درست نشانہ اورکاری ضرب لگائے گااس کی کامیابی یقینی ہے ۔ زیرک اورسنجیدہ حکمران تصادم سے گریز اورمکالمے سے متنازعہ معاملے حل کرتے ہیں لیکن مودی نے بھارت کی نابودی کیلئے اپنے ملک کوخطرناک جنگ میں جھونک دیالہٰذاء اس کی حماقت اورجسارت کانتیجہ دنیا نے دیکھ لیا ،مودی جہل کی طرف سے پہل کاافواج پاکستان کے سپہ سالارفیلڈمارشل جنرل سیّدعاصم منیر کی ڈاکٹرائن اوران کی قیادت میں حالیہ آپریشن بنیان المرصوص کے شہرہ آفاق ڈیزائن کی روسے بھرپورجواب دیا گیا ۔پاکستان اوربھارت کے درمیان کشمیر سمیت متعدد تنازعات طلب ہیں ۔ان دونوں ملکوں کیلئے 1965ء ،1971ء اورکارگل کے معرکوں کے اثرات سے باہرنکلنا آسان نہیں،ہمسایہ ہوتے ہوئے ان کے درمیان تعلقات کی نوعیت انتہائی پیچیدہ ہے۔1947ء کی تقسیم ہند کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کبھی سفارتی پیشرفت ہوئی تو کبھی شدید کشیدگی کے ماحول نے انہیں جنگ کے دہانے تک پہنچا دیا۔آج جب عالمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور علاقائی اتحاد نئی شکلیں اختیار کر رہے ہیں، تو بھارت پاکستان تعلقات کے ماضی اور حال کو سمجھنا مستقبل کی پیش گوئی کیلئے ناگزیر ہے۔1947 ء میں ہندوؤں نے دشمنی اورنفرت کے بیج بو دیے تھے ۔ کشمیر سمیت متعددتنازعات متعددبار فسادات کے ساتھ ساتھ1965ء میں پاک بھارت جنگ کا سبب بنے ۔اقوامِ متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی تو ہو گئی تھی لیکن کئی دہائیوں بعد بھی تنازعہ کشمیر جوں کاتوں ہے ۔1965ء اور 1971 ء کی جنگوں نے دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کو مزید گہرا کردیا تھا۔1971 ء کی جنگ، جس کا نتیجہ فال آف ڈھاکہ کی صورت میں برآمدہوا، پاکستان کیلئے ایک گہراگھاؤ بلکہ ناسور جبکہ بھارت کیلئے ایک وردان تھاتاہم پاک فوج نے دس مئی کواس کاانتقام لے لیا۔ 1999 ء کی کارگل جنگ نے جنوبی ایشیاء کی دو جوہری طاقتوں کو پہلی بار براہِ راست ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کیا اور ظاہر کر دیا کہ معمولی سفارتی ناکامی یا فوجی مہم جوئی بڑے تصادم کاسبب بن سکتی ہے۔جنگوں کے بعد عارضی اورسطحی امن کی کوشش کی گئی ۔اعتماد سازی کے اقدامات، سرحد پار تجارت، اور ثقافتی تبادلے کیے گئے، لیکن 2001 ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ، 2008 ء کے ممبئی حملے اور 2019 ء کا پلوامہ ڈرامہ بات چیت کی عمارت کوبلڈوز کرنے کیلئے کافی تھے۔ہر واقعہ کے بعد سرحدی نگرانی میں اضافہ، سفارتی سطح پر سختی، اور عوامی رائے کو عسکری انداز میں متاثر کیا گیا۔آج دونوں ممالک سخت حفاظتی پالیسیوں کے تحت کام کر رہے ہیں، جس سے سفارتی لچک کی گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایل اوسی پر مسلسل فوج کی موجودگی اور معمولی خلاف ورزی بھی کسی بڑے واقعہ کو جنم دے سکتی ہے۔2003ء کے فائر بندی معاہدے کی 2021ء میں تجدید ضرور ہوئی لیکن بامقصد مذاکرات شروع نہ ہو سکے۔دونوں ملکوں کے عوام کی اجتماعی رائے بھی منقسم ہے۔بھارت میں ہندوتوا سمیت قوم پرستی کا بیانیہ پاکستان مخالف جذبات سے منسوب ہے، خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے دوراقتدارمیں دوسری طرف پاکستان میں تنازعہ کشمیر کو مرکزیت اوراہمیت حاصل ہے اور پاکستان کاہرطبقہ کشمیریوں کی سیاسی و اخلاقی حمایت کو اپنا قومی فرض سمجھتا ہے۔

مودی سرکار نے مئی کے آغاز میں جومہم جوئی کی تھی اس دوران سائبر حملے، غلط معلومات کی مہمات، اور میڈیا کی اشتعال انگیزی نے امن کی فضا مزید بگاڑدی ہے۔بھارتی میڈیا اس کشیدہ صورتحال کو مزید بھڑکانے میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا ۔ہر بڑے واقعہ کے بعد بھارتی نیوز چینلز بغیر کسی تصدیق کے پاکستان کیخلاف بیانیہ بناتے بلکہ زہرافشانی کرتے ہیں۔ جنگی جنون کو ہوا جبکہ متعصب مودی سرکاری کے بیانیہ کو تقویت دیتے ہیں۔پاکستان کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کرنے کی یہ منظم مہم اکثر سیاسی مقاصد کے حصول یا داخلی حمایت بڑھانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔اس کے برعکس پاکستانی میڈیا نے عمومی طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، جذبات کو مشتعل کرنے کی بجائے ریاستی مؤقف کو اعتدال سے پیش کیا ہے اور عوامی جذبات کو اشتعال سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔چاہے وہ بھارتی پائلٹ کی رہائی ہو یاپہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں انڈین پروپیگنڈا ہو، پاکستان کے قومی میڈیا نے امن کے فروغ اور سچائی کے تقاضوں کو مدنظر رکھا ہے۔یہ تقابلی رویہ ظاہر کرتا ہے کہ میڈیا کس طرح کسی تنازع میں شدت یا نرمی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

اقتصادی طور پر دونوں ممالک باہمی تعاون سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔پاکستان مہنگائی، سیاسی غیر یقینی صورتحال، اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار جیسے مسائل سے دوچار ہے، جبکہ بھارت معاشی ترقی کے باوجود اندرونی بے چینی اور طبقاتی فرق کا سامنا کر رہا ہے۔علاقائی تجارت اور رابطے کی کمی سیاسی بداعتمادی کا نتیجہ ہے۔عالمی قوتیں جیسے چین، امریکہ، اور خلیجی ممالک جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک مفادات رکھتی ہیں، لیکن وہ بھارت پاکستان تعلقات میں مؤثر ثالثی سے گریز کرتی آئی ہیں۔دنیا کی توجہ دیگر جغرافیائی تنازعات پر ہے، اور جب تک کوئی بحران نہ پیدا ہو، عالمی برادری ان دو ہمسایوں کے درمیان مستقل امن کی کوششوں میں دلچسپی نہیں لیتی۔اسی دوران کشمیری عوام کی قسمت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔وہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان پس رہے ہیں، اور ان کی آوازیں اعلیٰ سطحی مذاکرات میں سننے کو نہیں ملتیں۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، انٹرنیٹ کی بندشیں، اور سیاسی دباؤ کی خبریں کبھی کبھار عالمی توجہ حاصل کرتی ہیں، لیکن ان سے پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی۔میرے مشاہدے میں بھارت کی طرف سے فالس فلیگ آپریشنز کا ایک تسلسل موجود ہے، جو اکثر پاکستان کے خلاف جارحیت کے بہانے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ہمسایہ ملک میں پاکستان کیخلاف اس وقت تناؤپیداہوتایاپیداکیاجاتا ہے جب وہاں چناؤکاموسم ہو ، ہندومودی سرکار سے اظہاربیزاری کریں یا جب کوئی عالمی رہنماء بھارت کے دورہ پر ہو۔ان کارروائیوں کا مقصد داخلی سطح پر قوم پرستی کو ہوا دینا اور عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے،مودی سرکارکی یہ منافقانہ اورمجرمانہ روش پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں سے انکار کرنے کی ناکام کوشش ہے۔پاکستان ہمیشہ اشتعال انگیزی کے باوجود ضبط اورصبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا آرہا ہے۔

2019 ء میں پلوامہ ڈرامہ کے بعد جب پاکستان نے نہ صرف اپنی فضائی حدود کا دفاع کیا بلکہ بھارت کے اسیر پائلٹ ابھی نندن کو انسانی بنیادوں پررہا اوربحفاظت بھارت کوواپس کیا ۔اس وقت بھی مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے ثالثی کی درخواست کی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تناؤ بڑھتا ہے تو بھارت کو بھی اپنے جارحانہ رویے کی حد کا احساس ہو جاتا ہے۔ کشمیر کی آزادی تک پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ تنازعہ نہ صرف اقوامِ متحدہ کے فورم پر موجود ہے بلکہ لاکھوں کشمیریوں کی زندگی اور مستقبل کا سوال بھی ہے۔بھارت کی 2019 ء میں آرٹیکل 370 کی منسوخی، کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا، نہ صرف بھارتی آئین کے وفاقی ڈھانچے کیخلاف تھا بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی تھی۔اس کے بعد سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، سیاسی گرفتاریوں، اور مواصلاتی ناکہ بندیوں کی ایک لہر دیکھی گئی ہے ۔ نریندر مودی نے اپنی ہٹ دھرمی سے صورتحال مزید بگاڑدی ہے۔آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیموں نے بھارتی پالیسیوں پر اثر انداز ہو کر نہ صرف کشمیر میں ظلم بڑھایا بلکہ بھارت کے اندر اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں،سکھوں اور عیسائیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد غیر کشمیری ہندوؤں کی آباد کاری کا عمل بھی ایک نیا تنازع بن چکا ہے ۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے تاکہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔جب تک مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نہیں نکلتا، بھارت اور پاکستان کے درمیان پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔پاکستان ہمیشہ مذاکرات اور پرامن بقائے باہمی کی بات کرتا رہا ہے۔ دنیا تسلیم کرے امن صرف انصاف کی بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے بندوق کی نوک پر ہرگز نہیں۔

پاک فضائیہ نے بھی ہر دورمیں اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور دفاعی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ خاص طور پر 2019 ء کے واقعہ کے دوران نہ صرف دشمن کے حملے کو ناکام بنایا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی دفاعی تیاری اور تدبر کا پیغام بھی دیا۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی قیادت میں پاکستان ایئر فورس مزید جدید خطوط پر استوار ہو رہی ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ بصیرت، ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ وژن، اور قومی سلامتی سے وابستگی نے فضائیہ کو ایک ناقابلِ تسخیر قوت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہماری فضائیہ کونہ صرف فضائی سرحدوں کی حفاظت کرنے میں مہارت حاصل ہے بلکہ ہمارے شاہین خطرات سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔


 

Muhammad Kamran
About the Author: Muhammad Kamran Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.