خیبر پختونخوا میں چائلڈ لیبر کی بڑھتی ہوئی لعنت – عالمی یوم انسدادِ محنتِ شاقہ برائے اطفال پر خصوصی رپورٹ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
آج پوری دنیا میں عالمی یوم انسدادِ چائلڈ لیبر منایا جا رہا ہے، لیکن خیبر پختونخوا میں صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ اگرچہ 2022–23 کے چائلڈ لیبر سروے میں خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی، لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود نہ کوئی موثر پالیسی بنی اور نہ ہی کوئی عملی قدم اٹھایا گیا، جس کے باعث چائلڈ لیبر کی صورتحال مزید تشویشناک ہو گئی ہے۔
سال 2024 میں کئے جانیوالے ایک سروے کے مطابق 5 سے 17 سال کی عمر کے 9 لاکھ 22 ہزار سے زائد بچے صوبے میں کام کر رہے تھے، جن میں سے 7 لاکھ 45 ہزار سے زائد بچوں کو چائلڈ لیبر کے زمرے میں رکھا گیا۔ ان میں سے 4 لاکھ 65 ہزار سے زائد بچے خطرناک حالات میں کام کر رہے تھے – جنہیں یا تو خطرناک اوزاروں سے واسطہ تھا، یا وہ خطرناک جگہوں، فیکٹریوں اور گھنٹوں میں کام کر رہے تھے، حتیٰ کہ رات کی شفٹوں میں بھی۔تاہم، آج 2025 میں جب ہم گرد و پیش دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ اعداد و شمار نہ صرف کمزور پالیسیوں کا آئینہ دار تھے بلکہ ایک ایسے بحران کا پیش خیمہ بھی تھے جو اب شدت اختیار کر چکا ہے۔
ہمارے ہاں صورتحال مزید ابتر کیوں ہوئی؟گزشتہ ایک سال میںہمارے معاشرے میں معاشی بدحالی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا،دوسری طرف مہنگائی کے طوفان نے کم آمدنی والے خاندانوں کو بچوں کو اسکول کے بجائے کام پر لگانے پر مجبور کیا،حکومت نے تعلیم اور سوشل پروٹیکشن کے بجٹ میں کٹوتیاں ہوئیں،اور سب سے ہم بات یہی ہے کہ کوئی موثر حکومتی نگرانی یا ریسکیو میکانزم فعال نہیں ہو سکا۔ بازاروں، ورکشاپوں، ہوٹلوں، بھٹوں، کھیتوں، فیکٹریوں اور گھروں میں کام کرتے بچے اب معمول کی بات بن چکے ہیں۔ چھوٹے بچے بھاری اوزار اٹھاتے، خطرناک مشینوں کے ساتھ کام کرتے یا پھر گلیوں میں مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے ڈونرز کا پیسہ ہوٹلوں میں تقریبات پر خرچ ہوتا ہے چند ایک گنے چنے ادارے کام کررہے ہیں ‘جبکہ سرکار کی طرف سے جو ادارے اس کیلئے مختص ہے وہ تنخواہیں وصول کررہے ہیں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض این جی اوز جو بین الاقوامی ڈونرز سے لاکھوں روپے لیتے ہیں، وہ بچوں کی تعلیم یا تحفظ پر خرچ کرنے کے بجائے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کانفرنسیں اور ورکشاپیں منعقد کر کے تصاویر بنواتے اور رپورٹیں چھاپتے ہیں۔اگر یہی پیسہ کسی ایک ایسے خاندان پر لگایا جائے جہاں غربت بچوں کو مزدوری پر مجبور کر رہی ہے، تو شاید ایک بچہ مزدوری چھوڑ کر اسکول جا سکے۔ حتیٰ کہ ان ورکشاپوں کی ریفریشمنٹ پر اٹھنے والے اخراجات اگر کسی بچے کی یونیفارم یا کتابوں پر لگا دیے جائیں تو اس کا اثر کہیں زیادہ ہو۔
چائلڈ لیبر کے پیچھے عوامل میں غربت اور بے روزگاری سمیت والدین کی ناخواندگی اور ہمارے معاشرے میں سوشل سیفٹی نیٹ کی کمی ہے اسی طرح والدین یا کفیل کی ہجرت یا وفات کے بعد زیادہ تر بچے کم عمری میں روزگار کی طرف نکل جاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے گھروں کی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوتی ہیں.اس معاملے میں حکومت کی عدم دلچسپی اور کمزور قانون سازی کے باعث بچوں کا مستقبل داوپر لگا ہوا ہے. یہ صرف بچوں سے مشقت لینے کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کے مستقبل کا سوال ہے۔ جن بچوں کو آج تعلیم، کھیل اور صحت کے حق سے محروم کر کے مزدور بنا دیا گیا ہے، وہ کل معاشرے میں پسماندگی، جرائم، اور غربت کی نئی لہر کا ذریعہ بنیں گے۔
موجودہ حالات میں عوامی مطالبہ – ب وقت آ چکا ہے کہ اسکولوں کو مفت اور معیاری بنایا جائے،اورغریب خاندانوں کو براہ راست مالی معاونت دی جائے تاکہ وہ بچوں کو کام پر نہ بھیجیں، اسی طرح لیبر قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے،ڈونرز اور این جی اوز کے فنڈز کا باقاعدہ آڈٹ ہو اور ان کا عملی اثر ناپا جائے،سول سوسائٹی، میڈیا اور تعلیمی ادارے مشترکہ کردار ادا کریں۔چائلڈ لیبر صرف ایک معاشرتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت پر ایک دھبہ ہے۔ آج کے دن ہمیں صرف ہمدردی کے الفاظ نہیں بلکہ عملی قدم اٹھانے کا عزم کرنا ہوگا، تاکہ خیبر پختونخوا کے بچے دوبارہ قلم، کتاب اور کھیل کے میدانوں میں لوٹ آئیں – مشینوں، بھٹوں، ہوٹلوں اور ورکشاپوں سے نہیں۔
|