لاہور اور کراچی کے ترقیاتی منصوبے اور ریونیو کا موازنہ

پاکستان کے دو بڑے شہر، لاہور اور کراچی، ملک کی معیشت، سیاست، اور ثقافت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان شہروں میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ،

لاہور کے ترقیاتی منصوبے 1990-1999 (نواز شریف / ن لیگ دور) کے دور میں موٹر وے (M2) منصوبے کا آغاز، لاہور سے اسلام آباد تک،کچھ سڑکوں اور پارکوں کی بہتری کی گئی،
جب کے کراچی کے ترقیاتی منصوبے 1990-1999 (پیپلز پارٹی / ن لیگ حکومتیں) کے دور میں ،ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر، انفراسٹرکچر کی حالت خراب رہی، امن و امان کا مسئلہ نمایاں رہا ۔

لاہور کے ترقیاتی منصوبے2000-2008 (مشرف دور)کے دور میں 2004 میں، منصوبہ بندی اور سروے ، کینال روڈ کو چوڑا اور بہتر کیا گیا، انڈرپاسز کی منصوبہ بندی شروع ہوئی، 2005–2006 میں جاپانی کمپنی JICA کے ساتھ لاہور کے لیے ماس ٹرانزٹ منصوبے کی فیزیبلٹی مکمل کرائی، شعور صحت پروگرام اور بنیادی صحت یونٹس کی اپگریڈیشن، ہیلتھ و ایجوکیشن انفراسٹرکچر میں بہتری، ثقافتی و سیاحتی منصوبے، کمرشل انفراسٹرکچرمیں توسیعی منصوبوں کی منظوری۔

جب کے کراچی کے ترقیاتی منصوبے 2000-2008 (مشرف دور)کے دور میں، فلائی اوورز اور انڈرپاسز کا جال، 50 ارب روپے کا کراچی میگا سٹی ڈویلپمنٹ پلان، کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام (KMTP)، نالوں کی صفائی اور نکاسی آب کا نظام، صحت و تعلیم کے منصوبے، نئے رہائشی و کمرشل منصوبے، سیکیورٹی اور امن و امان کی بہتری الغرض مشرف دور (2000–2008) کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کا سنہری دور رہا۔

مصطفیٰ کمال کو 2010 میں دنیا کے بہترین میئرز میں شمار کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس وقت کراچی میں بنیادی، عملی اور عوامی سطح پر ترقی ہوئی۔

لاہور کے ترقیاتی منصوبے 2008 سے 2018 تک کا عرصہ لاہور کی شہری ترقی کے لحاظ سے بے مثال رہا، لاہور میٹرو بس منصوبہ، اورنج لائن میٹرو ٹرین، سگنل فری کوریڈورز اور فلائی اوورز، شہری خوبصورتی اور پارکس، صحت کے شعبے میں منصوبے، تعلیم کے منصوبے، لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی۔

جب کے 2008 سے 2018 کا دور کراچی کے ترقیاتی سفر میں غیر متوازن اور چیلنجز سے بھرپور رہا۔ اس دوران مختلف حکومتیں اور بلدیاتی نمائندے آئے، لیکن واضح حکومتی پالیسی کی کمی، سیاسی تناؤ، اور امن و امان کی خراب صورتحال نے ترقیاتی منصوبوں پر اثر ڈالا۔اس کے باوجود منصوبے شروع یا مکمل کیے گئے، چند شاہراہوں اور فلائی اوورز کی تعمیر و بحالی، چائنا کٹنگ کی روک تھام اور نالوں کی صفائی، صفائی و ویسٹ مینجمنٹ (KMC اور DMCs میں اختیارات کی تقسیم کے سبب مسائل برقرار رہے)، K-IV واٹر سپلائی منصوبہ (2018 میں نامکمل رہا،بار بار تاخیر، لاگت میں اضافہ، تکنیکی غلطیاں، اختیارات کی کشمکش)، Green Line BRT (منصوبہ تا 2018 مکمل نہ ہو سکا، لیکن 2022 میں فعال ہوا)۔

(2018–2022) اس عرصے کے دوران پاکستان تحریک انصاف (PTI) کی حکومت (صوبہ پنجاب اور مرکز) لاہور کے ترقیاتی منصوبے مالی چیلنجز اور پالیسی کی تبدیلی کے باعث بعض منصوبے سست روی یا التوا کا شکار ہوئے۔ماحولیاتی منصوبے – بلین ٹری، اربن فارسٹ، ریور راوی اربن پروجیکٹ (RRUDP)، تعلیم اور IT منصوبے، صحت کے شعبے میں ترقیاتی کام (ڈینگی وارڈز اور COVID مراکز)،

جب کے کراچی کے ترقیاتی منصوبے (2018–2022) کا دور نسبتاً فعال، مگر سیاسی و انتظامی رکاوٹوں سے بھرپور رہا، وفاقی حکومت (تحریک انصاف) اور صوبائی حکومت (پیپلز پارٹی) دونوں نے کراچی کی ترقی کے لیے منصوبے دیے، تاہم اختیارات کی کشمکش، فنڈز کی تقسیم، اور دیرینہ مسائل کے باعث بہت سے منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے یا جزوی طور پر مکمل ہو سکے۔ کراچی پیکج (1100 ارب روپے) کا اعلان ، گرین لائن بس (شروع 2016، فعال 2021)،بلدیاتی اداروں کو کمزور رکھا گیا ۔

لاہور کے ترقیاتی منصوبے 2022-2025 کے دور میں ، جدید سہولیات و اسمارٹ سٹی پروجیکٹس ، Central Business District - CBD، اورنج لائن میٹرو ٹرین (آپریشن اور توسیع)، واسا لاہور – واٹر اینڈ سیوریج منصوبے، ماحولیاتی منصوبے – میاں شہباز شریف اربن فارسٹ، سڑکوں، انڈرپاس اور فلائی اوورز کے منصوبے الغرض لاہور کو ماڈرن، سمارٹ اور ماحول دوست شہر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔

جب کے کراچی کے ترقیاتی منصوبوں (2022–2025) میں صوبائی حکومت (PPP) اور وفاقی حکومت (PDM اتحادی، بعد ازاں نگران سیٹ اپ) کے درمیان کچھ اہم انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، پانی، اور صفائی کے منصوبے شروع ہوئے،تاہم سیاسی عدم استحکام، مالی مسائل اور بلدیاتی حکومت کے فقدان کے باعث بہت سے منصوبے تاخیر یا رکاوٹ کا شکار رہے، ریڈ لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ (تکمیل:2025 میں متوقع) ، K-IV واٹر سپلائی اسکیم (تکمیل:2025 میں متوقع)، کراچی سرکلر ریلوے (KCR) (چین کے تعاون سے ابتدائی تعمیراتی کام جاری)، 2022 سے 2025 کے دوران کراچی میں کئی اہم میگا پروجیکٹس پر کام تیزی سے جاری ہےاگرچہ فنڈنگ، اختیارات، اور گورننس کے مسائل برقرار ہیں،

ریونیو کا موازنہ کیا جائے تو تاریخی طور پر کراچی پورٹ اور بڑے بزنس ہب کی بدولت وفاقی بورڈ آف ریونیو کی 70%+ ٹیکس آمدنی کا حصہ ڈالتا رہا ہے، اسی میں صرف کراچی سے 53.38% ٹیرف اور سیلز ٹیکس کی وصولی شامل ہے، اقتصادی طور پر، کراچی پاکستان کے کل GDP کا تقریباً 20–25% پیدا کرتا ہے جبکہ پورٹ کی وجہ سے تقریباً 95% غیر ملکی تجارت کراچی کے ذریعے ہوتی ہے۔

جب کے لاہور بھی ترقی یافتہ شہر ہے لیکن اس کا حصہ کراچی سے نصف سے بھی کم ہے۔لاہور کا فیڈرل ٹیکس ریکوری پر کل حصہ تقریباً 17.09% رہا، معاشی طور پر، لاہور کا GDP (PPP) تقریباً 84 ارب ڈالر ہے جو پورے ملک کے GDP کا تقریباً 11.5–12% بنتا ہے۔

لاہور کو سیاسی ترجیح حاصل رہی، جس کا فائدہ اسے بڑے منصوبوں کی صورت میں ملا۔
جب کےکراچی معاشی لحاظ سے پورے ملک کو چلاتا ہے، مگر ترقیاتی منصوبوں میں لاہور سے پیچھے ہے، کراچی کا مسئلہ اختیارات کی تقسیم، بلدیاتی اداروں کی کمزوری اور سیاسی کشیدگی ہے، جس سے ترقی سست روی کا شکار ہے ،اگر کراچی کو اس کے پیدا کردہ ریونیو کے تناسب سے ترقی دی جائے، تو یہ شہر ایشیا کے بہترین شہروں میں شامل ہو سکتا ہے۔
 

Muhammad Arslan Shaikh
About the Author: Muhammad Arslan Shaikh Read More Articles by Muhammad Arslan Shaikh: 8 Articles with 2525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.