حکیم لقمان ؒ سے منسوب ایک حکایت
میں تحریر ہے کہ ایک آدمی کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی بیٹی بہت عقل مند
اور ذہین تھی اس آدمی نے ایک دن سب کو جمع کر کے مشورہ کیا ہم سب ایک ایک
درخت لے لیں اور اس کی دیکھ بھال کریں پہلے لڑکے نے بلوط دوسرے نے آس تیسرے
نے تیز پات چوتھے نے صنوبر اور پانچویں نے چنار کا درخت لیا اس آدمی کی
بیٹی بھی اس وقت وہاں موجود تھی وہ شوخی سے بولی تم نے بہت اچھا کام کیا کہ
بے پھل درختوں کا انتخاب کیا ہے بھائیوں نے اس پر کہا کہ اپنی عنایت اور
محبت بانٹتے ہیں اور کسی پھل کی توقع نہیں رکھتے اس پر بہن بولی تم جو چاہے
کرو لیکن میں تو زیتون کا درخت ہی لوں گی جس سے بہت سا پھل پیدا ہوتا ہے
اور ہر ایک کے کام آتا ہے اس پر باپ نے خوشی سے کہا کہ اے بیٹی میں تجھے جو
عقل مند کہتا ہوں وہ بے جا نہیں ہے اس لیے کہ جس چیز میں کوئی فائدہ نہیں
اس کا اختیار کرنا بھی غیر مفید ہے-
قارئین آج کے کالم کا عنوان دیکھ کر آپ یقینا اندازہ لگاچکے ہوں گے کہ ہم
کس شخصیت کے بارے میں آج بات کرنے والے ہیں 1941ءمیں ضلع میرپور کے ایک
گاﺅں کلیال چکسواری میں جنم لینے والا محمد صابر جن کے والد ایک مزدور
انسان تھے کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتاتھا کہ 13سال کی عمر میں سواروپے دیہاڑی
سے مزدوری کا آغاز کرنے والے اس نوجوان کو ملکہ برطانیہ الزبتھ بکنگھم پیلس
لندن میں مدعو کرکے اسے ”ممبر برٹش ایمپائر“کا اعزاز اپنے ہاتھوں سے دیں گی
حاجی محمد صابر کے والد ایک نیک ،شریف النفس اور اللہ پر توکل کرنے والے
انسان تھے محنت مزدوری کرکے اپنے اہل خانہ کو رزق حلال کھلاتے تھے 13سال کی
عمر میں حاجی محمد صابر مغل اور ان کے بھائی ٹھیکیدار اختر مرحوم ساتویں
جماعت میں پڑھتے تھے اس وقت کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے حکم دیا کہ ہر بچہ سکول
کا فرنیچر خریدنے کے لیے ساڑھے آٹھ روپے اضافی چندہ دے حاجی محمدصابر اور
ان کے بھائی کو پیسے ادانہ کرنے کی پاداش میں کلاس سے نکال دیاگیا حاجی
صابر اپنے گھر گئے اور اپنی والدہ محترمہ کو معاملہ سے آگاہ کیا غریب ماں
نے اپنے کانوں کی بالیاں اتارکردے دیں جن کے ساڑھے بارہ روپے ملے غریب اور
معصوم ماں نے روتے ہوئے صابر کو بتایا کہ اب گھرمیں ایک پائی بھی نہیں ہے
اس لیے مزید تقاضہ نہ کرنا پیسے لے کر سکول پہنچے تو ماسٹر صاحب نے کہا کہ
چونکہ ساڑھے چار روپے ابھی بھی کم ہیں اس لیے صرف ایک بھائی کلاس میں بیٹھ
سکتاہے محمد صابر مغل نے بہتے ہوئے آنسوﺅں کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی اختر
کو کلاس میں چھوڑا اور عملی سفر کا آغاز کرنے کے لیے سکول چھوڑدیا ۔
محمد صابر نے اپنے آبائی پیشہ کاری گری اور عمارتوں کی تعمیر کا کام سیکھا
اور کچھ عرصے بعد ایک ہنر مند کاری گر کی شکل اختیار کرگیا حاجی محمد صابر
محنت مزدوری کرتارہا اس دوران میرپور سے لوگ انگلینڈ جاتے تھے حاجی صابر کے
دل میں اس خواہش نے انگڑائی لی کہ وہ بھی برطانیہ جاکر مزدوری کرے تاکہ اس
کے گھر کے حالات بھی بدلیں قصہ مختصر کچھ مہربانوں نے مددکی اور حاجی محمد
صابر انگلینڈ جاپہنچے وہاں جاکر فیکٹریوں میں مزدوری کی ،بس کنڈکٹری کی
،ڈرائیونگ کی اور کرتے کرتے اپنے معصوم معذور بیٹے محمد ساجد کے کہنے پر
ایک ریسٹورنٹ کھولا اس ریسٹورنٹ میں انہوںنے تازہ سبزیاں مہیا کرنے کی
روایت کا آغاز کیا ایک طویل جدوجہد کے بعد یہ ریسٹورنٹ ”آگرہ “کے نام سے چل
نکلا آج حاجی محمد صابر مغل کے ”آگرہ گروپ آف ریسٹورنٹس “کی چین برطانیہ کی
کسی بھی ایشین کی سب سے بڑی فوڈ چین قراردی جاچکی ہے آج سے تیس سال قبل
اپنے معصوم معذور بیٹے محمد ساجد کے لیے حاجی محمد صابر مغل نے برطانیہ میں
چیریٹی ڈنر کا آغاز کیا اور اس کے تحت اب تک ایک ارب روپے سے زائد کی رقم
وہ برطانیہ کے فلاح وبہبود کے اداروں اور پاکستان میں ”الشفاءٹرسٹ آئی
ہسپتال “کو دے چکے ہیں جنرل جہانداد خان مرحوم برطانیہ میں پہلی مرتبہ جب
حاجی محمد صابر سے ملے تو ان کی جہاندیدہ نگاہوں نے حاجی محمد صابر مغل کے
اندر چھپے ایک مخلص اور انسانیت کی تڑپ رکھنے والے انسان کو بھانپ لیا فوجی
جرنیل نے بڑی حکمت کے ساتھ حاجی محمد صابر مغل کو رفائے عامہ کی طرف مائل
کرلیا ۔
2005ءمیں جب پاکستان اور آزادکشمیر میں زلزلے کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد
انسان شہید ہوگئے اس وقت حاجی محمد صابر مغل نے راقم سے رابطہ کیا راقم اس
وقت راولپنڈی اسلام آباد میں اپنے کاروبار کے سلسلہ میں مقیم تھا حاجی محمد
صابر مغل نے اپنی نیک والدہ محترمہ کے نام پر قائم بین الاقوامی ٹرسٹ
”الجنت ویلفیئر ٹرسٹ برطانیہ وپاکستان “کے تحت کروڑوں روپے زلزلہ متاثرین
بانٹ دیئے ۔
قارئین حاجی محمد صابر مغل برطانیہ بریڈفورڈ میں دل کی بیماریوں کے علاج کے
ادارے اور ہسپتال کو کروڑوں روپے کی امداد دے رہاہے ،کینسر کے علاج اور
ریسرچ کے لیے مصروف عمل مختلف اداروں کی مددکررہاہے ،شہزادہ چارلس کی
چیریٹی کی امداد کررہاہے اور پوری دنیا بشمول پاکستان وآزادکشمیر کے درجنوں
ویلفیئر پراجیکٹس کی مددکررہاہے حاجی محمد صابر مغل ساری زندگی غیر سیاسی
لیکن فلاحی سرگرمیوں میں مصروف رہے ان کے تعلقات جنرل ضیاءالحق ،بینظیر
بھٹو شہید ،میاں محمد نواز شریف ،جنرل پرویز مشرف سے لے کر تمام حکمرانوں
سے انتہائی خوشگوار رہے ہیں آزادکشمیر کے موجودہ وزیر اعظم چوہدری
عبدالمجید ان کے بچپن کے دوستوں میں شامل ہیں جبکہ صدر آزادکشمیر سردار
یعقوب خان سے ان کی انتہائی گہری دوستی ہے اسی طرح وزیر صحت سردار قمر
الزمان سے لے کر موجودہ وسابق درجنوں وزراءان کے دوستوں میں شامل ہیں
2006ءمیں وہ تاریخی لمحہ آیا کہ جب ایک روپے چار آنے سے زندگی کا سفر کرنے
والے حاجی محمد صابر مغل کو کوئین الزبتھ میں بکنگھم پیلس میں مدعو کر کے
انہیں ممبر برٹش ایمپائر کا اعزاز دیا اسی سال 2011ءمیں لیڈز یونیورسٹی نے
حاجی محمد صابر مغل کو ان کی بہترین کاروباری سرگرمیوں کے اعتراف میں پی
ایچ ڈی یعنی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی اس طرح حاجی محمد صابر مغل
پاکستان اور آزادکشمیر کی وہ واحد شخصیت بن چکے ہیں کہ جنہیں حکومت برطانیہ
کی طرف سے بیک وقت دو اعزاز حاصل ہیں سواروپے سے دیہاڑی کا آغاز کرنے والے
محمد صابر مغل کے لیے یہ کسی خواب سے کم نہیں ہے آج حاجی محمد صابر مغل
پوری دنیا میں اربوں روپے کے اثاثہ جات کا مالک ہے حکمرانوں سے لے کر بڑے
بڑے لوگ ان سے ملنے کے لیے ترستے ہیں لیکن حاجی محمد صابر مغل غریبوں کی
مددامداد اور ان کے درمیان وقت گزارنے کے لیے ہر وقت تیاربھی رہتے ہیں اور
دکھائی بھی دیتے ہیں ۔
قارئین گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے مظفرآباد کا
دورہ کرتے ہوئے وہاں الشفاءآئی ٹرسٹ ہسپتال مظفرآباد کا افتتاح کیاجو
50کروڑ روپے کی لاگت سے حاجی محمد صابر مغل ہی کی کوششوں سے تعمیر ہوا اور
جنرل جہاندادخان نے انہی کے کہنے پر کشمیری قوم کویہ تحفہ دیا آج
الشفاءٹرسٹ آئی ہسپتال کے انچارج جنرل حامد نے جنرل جہانداد کی وفات کے بعد
ادارے کا انتظام وانصرام سنبھالا ہے اور حاجی محمد صابر کایہ کہنا ہے کہ
جنرل حامد سوفیصد جنرل جہانداد کے جانشین ہیں اور ان سے ہماری بہت امیدیں
وابستہ ہیں جنرل جہانداد خان کی وفات سے پندرہ روز قبل راقم حاجی محمد صابر
مغل کے ہمراہ راولپنڈی میں جنرل جہانداد خان سے انکے دفتر میں ملا چہرے پر
مسکراہٹ اور انداز میں شگفتگی لیے جنرل جہانداد خان نے بتایا کہ انہوںنے
اپنے جانشین کے طور پر موجودہ آرمی چیف جنرل اشفا ق پرویز کیانی کا انتخاب
کرکے انہیں رضا مند بھی کرلیا ہے کہ وہ اس ادارے کی باگ دوڑ سنبھالیں لیکن
پاکستانی حکومت نے انکی مدت ملازمت میں توسیع کرکے ہمارا کام مشکل کردیاہے
۔
قارئین حاجی محمد صابر مغل آج بھی یہ چاہتاہے کہ وہ کشمیر میں فلاح عامہ کے
منصوبے بناکر دکھی انسانیت کی خدمت کرے لیکن کیا کہیے کہ بیورو کریسی کی
سازشیں یا سیاسی کھلاڑیوں کی الٹ بازیاں حاجی محمد صابر بڑے منصوبوں کے لیے
جو جگہ بھی خریدتاہے اس پر کیس کردیا جاتاہے اس پر وہ بددل ہوچکے ہیں اور
اگر کشمیری حکمرانو ںنے ان کی مدد نہ کی تو وہ یہ وطن چھوڑجائیں گے ۔
حاجی محمد صابر مغل نے زندگی کے اس سفر میں جو کچھ حاصل کیا وہ ناقابل یقین
ہے اور ان کی سب سے بڑی کامیابی غریبوں کی دعائیں اور دکھی انسانیت کی خدمت
ہے بقول اقبال
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتداکیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتاہوں ،میری انتہاکیا ہے !
خود ی کو کربلند اتنا کہ ہرتقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتاتیری رضاکیا ہے
حاجی محمد صابر مغل پوری کشمیری اور پاکستانی قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
مریض نے ڈاکٹر سے کہا
ڈاکٹر صاحب بہت غریب ہوں میں آپ کی فیس نہیں دے سکتا لیکن ساری زندگی آپ کے
پورے خاندان کا کام مفت کیاکروں گا
ڈاکٹر نے دلچسپی سے پوچھا
تم کیا کام کرتے ہو
مریض نے جواب دیا
”جی میں گورکن ہوں قبریں کھودتاہوں “
قارئین حاجی محمد صابر مغل جیسے لوگوں کی ناقدری کرکے ہمارے حکمران
اورسیاستدان ہماری قبریں ہی کھود رہے ہیں ۔۔۔ |