مادر جمہوریت رخصت ہوئیں

ایک دھائی سے زائد عرصے سے دنیا و ما فیا سے بے خبر رہنے والی پا کستا ن کی سا بق خا تون اول بیگم نصرت بھٹو دنیا سے رخصت ہو گئیں بھٹو خا ندان کے پو رے عہد زندگی پر منیر نیاز ی کا یہ شعر صاد ق آتا ہے کہ
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

اس خاندان نے جمہوریت کی سر بلندی کے لیے نا قابل بیاں ذہنی اور جسما نی صدمے سہے ،کو ئی پھا نسی چڑھا تو کسی نے سینے پر گو لیاں کھا ئیں ان کے سا تھی اورعقدیت مند انہی را ہوں پر چلنے والے سر پھرے لوگ جنھوں نے جمہوریت کے لیے اپنی جوانی عقو بت خا نوں میں گزاری تو کوئی جلا وطن ہو ا اور کسی کی پیٹھ کو ڑوں سے ادھیڑی گئی ۔پا کستانی سیا ست کے اسٹیج پر کھیلے جا نے والے ڈارموں میں ملکیت ہمیشہ غا صبوں کے ہا تھ رہی جنھوں نے اس ملک میں جمہو ریت کو کبھی پھلنے پھو لنے کا مو قع نہیں دیا ہما رے ملک کی سیا سی تاریخ میں پیپلز پا رٹی کی جمہو ری اقدار ان غا صبوں کے سینے میں پھا نس بن کر چھبتے رہے لیکن ذالفقار علی بھٹو نے سچا ئی، جمہوریت اور سولی کا انتخاب کیا جس کی سزا آنے والے دنوں میں ان کے خاندان کو بھی بھگتنی پڑی یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کسی خا ندان پر کو ئی افتا د پڑ تی ہے تو اس کا اثرسب سے زیا دہ ما ں پر پڑتا ہے خا ص کر ان حالات میں جب معاملہ حاکم وقت کے زیر عتا ب ہو اور با پ کا سایہ بھی سر پر نہ ہو انہی حا لات میں بیگم نصرت بھٹو نے اپنے فرائض و کردار بڑی بہادری سے اداکیا۔

1929ءایران کے شہر اصفہا ن میں ایک ما لدار خا ندان الحریری میں نصرت صبو نچی پیدا ہو ئیں انکا خاندان کا روبار کے سلسلے میں بمبئی منتقل ہوا والد ایک متمو ل ایرانی تا جر تھے جو بعد میں کر اچی رہا ئش پذیر ہو ئے نصرت صبو نچی ایک شعیہ گھرانے کی دلیر لڑکی تھیں انھوں نے اس زما نے میں پا کستان آرمی کے نیشنل گا رڈ میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں کیپٹن کے عہدے پر فا ئزہوئیں نصرت صبو نچی کی ملا قات ذوالفقار علی بھٹو سے کرا چی میں ہو ئی خاندان کے کئی لو گوں کی مخالفت کے با وجود انھوں نے 8 ستمبر1 195ءمیں ذوا لفقار علی بھٹو سے شادی کر لی وہ شا دی کے بعد اپنے شوہر کے شا نہ بشا نہ سیاسی سرگر میوں میں ان کے ساتھ رہیں ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد خا تون اول کہلائیں اور مختلف ممالک کے دوروں میں شریک سفر رہیں ان کے چار بچے ہوئے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ، جن میں ان کی واحد نشانی صنم بھٹو کی صورت میں زندہ ہیں ۔

5جولا ئی 1977ءمیں جب جنرل ضیا ءالحق نے ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کو بر طرف کر کے ما ر شل لا ءکا نفا ذ کیا اور بھٹو صا حب کو نواب محمداحمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتا ر کیا تو نصرت بھٹو نے عوامی جدوجہد کا آغاز کیا شوہر کی گر فتا ری کے خلا ف جلسے جلو سوں کا انعقادکیا بیگم بھٹو کے عوامی جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد میں شر کت نے جنرل ضیا ءالحق کو بو کھلا دیا انھوں نے انتخابا ت ملتوی کر ادیے اور بیگم نصرت بھٹو نے شوہر کی پھا نسی کے بعد پیپلز پا رٹی کو سنبھا لا ،کہا جا تا ہے کہ اگر نصرت بھٹو 1977ءمیں پا رٹی کو یکجا نہ کر تیں تو پیلپز پا رٹی کب کی بکھر چکی ہو تی پارٹی کا رکنوں نے انھیں اپنا چیر مین نا مزد کیا بیگم نصرت بھٹو نے پا رٹی لیڈر کی بیوی کی حیثیت سے تو اپنی ذمہ داری نبھائی اور بحثیت ماں بھی انھوں نے مثا لی کردار اداکیا جب انھو ں نے بے نظیر بھٹو کو اس قابل سمجھا کہ وہ پا رٹی قیا دت سنبھا ل سکیں تو پارٹی قیا دت ان کے حوالے کر دی اور خود بیٹی کا دست با زو بن کر ہر قدم پر ان کی رہنما ئی کی انھیں مخلصانہ مشورے دیے یہا ں یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت میں ایک کا میاب لیڈر کی خو بیاں پیدا کر نے کا سہرا بھی نصرت بھٹو کو جا تا ہے جنھوں نے بیٹی کے اندر یہ ہمت و طا قت پیداکی کہ وہ ایک آمر سے ٹکر لے سکیں فو جی ڈکٹیٹرز کے خلا ف میدان عمل میں آئیں خود نصرت بھٹوپرقذافی اسٹیڈیم میں جلسے کے دوران لا ٹھیا ں بر سائی گئی جس کے زخم کبھی مند مل نہ ہو سکے اس چو ٹ سے ان کے اعصاب اور یا داشت بہت متا ثر ہوئے وہ عمر کے آخری حصے میں الزائمر کی مریض بن گئی تھیں ۔

ان تما م مشکلات کے با وجود انھوں نے مثا لی کردار اداکیا انہی کی رہنمائی میں بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خا تون وزیر اعظم بنیں لیکن دوسری مر تبہ وزیر بننے کے بعد پارٹی قیادت کے لیے بے نظیر بھٹو اور ان کے بھا ئی مر تضی بھٹو میں اختلا فا ت ہو ئے ماں نے بیٹے کا ساتھ دیا توکچھ وقتی دوریاں پیدا ہو ئیں لیکن! اسی دوران ایک افسوس نا ک واقعہ پیش آیا20 ستمبر 1996ءکو انکے گھر ستر کلفٹن سے چند قدم کے فا صلے پر پو لیس مقا بلے میں میر مرتضیٰ بھٹو کو گولیوں کا نشا نہ بنایا گیا اپنے سامنے یہ سب دیکھنے کے بعد وہ اس دکھ سے پھر کبھی نہ نکل سکیں ،شو ہر کی پھا نسی، چھوٹے بیٹے کی پراسرار موت اور پھر بڑے بیٹے کے اچا نک قتل نے ان کے ذہن پر گہرا اثر ڈا لا وہ دنیا و ما فیا سے بے خبر ہو کر مفلوج حالت میں جی رہی تھیں وہ اپنی پیا ری بیٹی بے نظیر بھٹو کی موت سے بھی لا علم تھیں ۔ نصر ت بھٹو کا خاندان اگر چا ہتا تو ایک آسودہ زندگی گزار سکتا تھا کہ انکے پا س دولت وآسائش کی کمی نہ تھی پھرشا ئد ان کے اپنے اتنی جلدی نہ بچھڑتے لیکن! ذوالفقار علی بھٹو نے پا کستا ن میں جمہوریت کے فروغ کے لیے قر با نیاں دیں ۔ ایک جلسے کے دوران شوہر کے نظریے کو اپنی آواز دیتے ہو ئے نصرت بھٹو نے فر مایا ” بھٹو صاحب کاایک مطمع نظر تھا کہ اپنے عوام کو شخصی آزادی دلا ئی جا ئے انھیں سما جی ، اقتصادی شکنجوں سے آزادی مل جا ئے انھیں آمریت کے غاصبا نہ اقتدار سے نجات دلا ئی جا ئے سیاسی طور پر بھی اظہار کی ا ٓزادی ہو وہ سب ا نھیں فراہم کیا جائے جوآزاد ملک کے عوام کا حق ہے وہ صرف اپنے ہم وطنوں کی ترقی کے خواہاںنہ تھے بلکہ اس ترقی میں تیسری دنیا کے غریب عوام کو بھی شریک کر نا چا ہتے تھے “ نصرت بھٹو آگے فرما تی ہیں کہ” میں چا ہتی ہوں کہ بو لتی چلی جا ﺅں اور ان کی زندگی کے گوں نا گوں رخ سامنے لا ﺅں “ لیکن افسوس کہ پے در پے صدما ت کے بعدوہ ایک دھا ئی سے خاموش تھیں اور موت نے انھیں تما م دکھوں اور غموں سے نجا ت دلادی ، جمہوریت کے جس پودے کی آبیاری میں ان کے خا ندان نے صعوبتیں ، تکلیفیں برداشت کیں موت کو گلے لگا یا ان کے جا نے کے بعدوہ شجر مفا د پرست ٹولوں کے نر غے میں ہے اور منیر نیا ز ی کے شعر کی صداقت کا ثبوت دے رہا کہ
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نا م پر اس نے کیا
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 161301 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.