دنیا کی دو بڑی طاقتیں — چین اور امریکہ — مشرقِ وسطیٰ کے ایک ممکنہ نئے
محاذ کی جانب دیکھ رہی ہیں، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی
جا رہی ہے۔ ایک طرف چین نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تو
دوسری طرف امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف اور مالیاتی معاون ہے۔ سوال یہ
ہے: کیا ان کے معاشی مفادات انہیں اس جنگ میں براہِ راست گھسیٹ سکتے ہیں؟
چین کی ایران میں سرمایہ کاری
چین اور ایران نے 2021 میں ایک پچیس سالہ معاشی اور تزویراتی معاہدے پر
دستخط کیے، جس کے تحت چین ایران میں توانائی، مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز،
اور دیگر انفراسٹرکچر پر مبینہ طور پر 400 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے
گا۔ ایران عالمی پابندیوں کے باعث چین کو رعایتی نرخوں پر تیل بیچتا ہے،
اور چین ایران کا سب سے بڑا تیل خریدار بن چکا ہے۔
مزید برآں، ایران چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" میں ایک مرکزی سنگ میل
ہے، جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے کی چینی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
تاہم امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنیوں کی اکثریت ایران میں محتاط رویہ
اپنائے ہوئے ہے، اور بیشتر منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں۔
امریکہ کی اسرائیل میں سرمایہ کاری
امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، جو دونوں
ممالک کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدے کا حصہ ہے۔ جدید میزائل سسٹمز جیسے
آئرن ڈوم، ڈیویڈز سلِنگ اور ایرو میزائل چین کی مدد سے تیار کیے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی، بایوٹیک
اور ڈیفنس انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک اہم مرکز بھی ہے،
جہاں مشترکہ فوجی مشقیں اور نگرانی کے نظام موجود ہیں۔
کیا مالی مفادات ان کو جنگ میں کھینچ لائیں گے؟
امریکہ
امریکہ کا اسرائیل سے عسکری و سفارتی تعلق اتنا گہرا ہے کہ کسی بڑی جنگ کی
صورت میں امریکہ کا میدان میں اترنا بعید از قیاس نہیں۔ اندرونی سیاسی دباؤ،
اسرائیل نواز لابی، اور دفاعی صنعت کے مفادات اس امکان کو مزید تقویت دیتے
ہیں۔
تاہم امریکہ کے معاشی مفادات بھی دائو پر لگ سکتے ہیں، کیونکہ اگر جنگ مشرق
وسطیٰ سے آگے بڑھ گئی تو عالمی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے
باوجود، امریکہ کے لیے اسرائیل کا تحفظ اس کے علاقائی تسلط کی علامت ہے،
اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی خطرے میں مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔
چین
اس کے برعکس چین نے اب تک خود کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگی سیاست سے دور رکھا
ہے۔ وہ ایران میں سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے، لیکن وہ ایران کا فوجی حلیف
نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ بھی
تجارتی تعلقات مضبوط کیے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔
چین کی کوشش ہو گی کہ وہ اس تنازعہ کو سفارتی طریقے سے سلجھائے، تاکہ نہ
صرف اس کے اقتصادی منصوبے محفوظ رہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے ایک امن پسند
طاقت کے طور پر بھی ابھرے۔
نتیجہ
امریکہ اور چین دونوں کی مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ کاری موجود ہے، مگر ان کا
رویہ مختلف ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ اسرائیل کی عسکری حمایت کی طرف ہے، جبکہ
چین کا مفاد اقتصادی استحکام اور سفارتی بیلنس میں ہے۔
اگر جنگ بھڑکتی ہے تو امریکہ براہ راست میدان میں آ سکتا ہے، لیکن چین پسِ
پردہ رہ کر مفادات کا تحفظ کرے گا۔
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"
|