دنیا میں ایٹمی طاقت بننے کے لیے عموماً ایٹمی دھماکہ ایک
لازم امر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے نہ کوئی
ایٹمی تجربہ کیا، نہ ہی نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی
(NPT)
پر دستخط کیے، اور نہ ہی کبھی کھلے عام اعتراف کیا کہ وہ ایٹمی ہتھیار
رکھتا ہے — اس کے باوجود وہ ایک مکمل ایٹمی قوت ہے۔
ایٹمی ابہام کی پالیسی
اسرائیل نے ہمیشہ "ایٹمی ابہام" یا
Nuclear Ambiguity
کی پالیسی اپنائی ہے۔ نہ تصدیق، نہ تردید۔ اس سے اسے دو فوائد حاصل ہوتے
ہیں: ایک طرف خطے میں اپنی برتری کا پیغام دیتا ہے، اور دوسری طرف بین
الاقوامی دباؤ سے بچا رہتا ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا اس پالیسی کی خاموش
حمایت کرتے رہے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑے نہیں۔
ابتدا کیسے ہوئی؟
اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی۔ اس وقت کے
وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریون نے فرانس سے خفیہ معاہدہ کیا، جس کے تحت اسرائیل
کو جنوبی نیگیو کے علاقے "دیمونا" میں ایک ایٹمی ری ایکٹر بنانے میں مدد
ملی۔
یہ پلانٹ ظاہر میں "ٹیکسٹائل فیکٹری" کہلایا، لیکن دراصل یہاں پلوٹونیم
تیار کیا جاتا رہا۔ فرانس نے نہ صرف ٹیکنالوجی دی بلکہ اسرائیلی سائنسدانوں
کو تربیت بھی فراہم کی۔
امریکہ کا ردعمل
1960
کی دہائی میں جب امریکی سیٹلائٹ نے دیمونا کی مشکوک سرگرمیاں نوٹ کیں تو
امریکہ نے بازپرس کی۔ اسرائیل نے روایتی انداز میں اسے "میٹالرجیکل ریسرچ
سنٹر" قرار دیا، اور امریکہ نے مزید سوالات نہ کیے۔
وانونو کا انکشاف
1986
میں اسرائیلی ٹیکنیشن موردخائی وانونو نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو
دیمونا پلانٹ کی تصاویر اور تفصیلات دیں، جن سے واضح ہوا کہ اسرائیل نہ صرف
ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے بلکہ اس کے پاس 100 سے 200 ایٹمی وار ہیڈز کا
ذخیرہ موجود ہے۔
اس انکشاف کے بعد اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے اسے اٹلی سے اغوا کیا اور
اسرائیل لا کر 18 سال قید میں رکھا۔
چونکہ اسرائیل نے کبھی سرکاری طور پر اپنے ایٹمی ذخیرے کا اعلان نہیں کیا،
اس لیے حتمی تعداد نامعلوم ہے۔ لیکن اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ
انسٹیٹیوٹ
(SIPRI)
اور فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ
(FAS)
کے مطابق
اسرائیل کے پاس اس وقت 80 سے 90 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں
اور اس کے پاس اتنا پلوٹونیم موجود ہے کہ وہ 200 تک ہتھیار تیار کر سکتا ہے
اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے تین راستے رکھے ہیں،
بیلسٹک میزائلز (ٰٰجیرکو II اور III)
، جن کی رینج 5,000 کلومیٹر تک ہے
آبدوزوں سے داغے جانے والے میزائلزجن کا پلیٹ فارم جرمنی سے حاصل کردہ
ڈالفن کلاس آبدوزیں
ایٹمی صلاحیت والے طیارے جیسے F-15 اور F-16
بغیر تجربے کے ایٹمی طاقت؟
یہ حیرت انگیز ہے کہ اسرائیل نے آج تک کوئی کھلا ایٹمی تجربہ نہیں کیا،
لیکن پھر بھی وہ ایک ایٹمی قوت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ:
اسرائیل نے سب-کریٹیکل تجربات کیے جو مکمل دھماکہ نہیں کرتے
جدید کمپیوٹر سمیولیشنز سے ہتھیاروں کی افادیت جانچی گئی
1979
میں جنوبی بحرِ اوقیانوس میں امریکی سیٹلائٹ نے "ڈبل فلیش" نوٹ کی، جسے بہت
سے ماہرین نے اسرائیل-جنوبی افریقہ کے مشترکہ ایٹمی تجربے کا نتیجہ کہا
ایران جیسا ملک، جس نے
NPT
پر دستخط کیے ہیں اور
IAEA
کو انسپکشن کی اجازت دی ہے، ہمیشہ دباؤ میں رہتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل، جو
نہ معاہدہ مانتا ہے، نہ انسپیکشن، اس پر کوئی پابندی نہیں۔
یہ دہرا معیار مشرق وسطیٰ میں خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔
|