ایران کا ایٹمی پروگرام! الزامات، حقیقت یا پروپیگنڈا؟

ایران پر حملہ، امریکہ، اسرائیل گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کی منظور شدہ ایجنسی (IAEA) اور خود امریکہ کی انٹیلی جنس ادارے کی جانب سے اس حوالے ایران کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔


ایران کا ایٹمی پروگرام گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی سطح پر متنازع رہا ہے۔ مغرب، بالخصوص امریکہ اور اس کے اتحادی، بارہا یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں دو اہم عالمی اداروں کی جانب سے ایران کے حق میں جو بیانات سامنے آئے ہیں، وہ اس تمام پروپیگنڈا کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔

امریکی نیشنل انٹیلی جنس کی سربراہ تُلسی گبارڈ نے مارچ 2025 میں واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا اور اس کی انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی نے کبھی ایٹمی ہتھیاروں کی اجازت نہیں دی۔ یہ بیان امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم اور بااختیار عہدیدار کی جانب سے سامنے آیا، جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

اس کے بعد عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے سربراہ رافیل گروسی نے بھی اپنے بیان میں واضح کیا کہ "ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔" انہوں نے اعتراف کیا کہ ایران کی جانب سے 60 فیصد یورینیم کی افزودگی پر شبہات ضرور تھے، لیکن وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی مربوط کوششوں کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اس وضاحت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام توانائی اور طبی مقاصد کے لیے ہے، نہ کہ جنگی۔

تاہم اس واضح تردید کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تُلسی گبارڈ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے بہت قریب تھا۔ ٹرمپ کا یہ بیان نہ صرف زمینی حقائق کے منافی ہے بلکہ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کچھ طاقتیں ایران کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کر کے ایک نئی جنگ کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہیں۔

ایسے میں اسرائیل کی جانب سے ایران پر فضائی حملہ، جس میں متعدد بے گناہ شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے، عالمی ضمیر کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ جب کسی ملک پر اقوام متحدہ کی منظور شدہ ایجنسی (IAEA) اور خود امریکہ کی انٹیلی جنس ادارے کی جانب سے کلین چٹ دے دی گئی ہو، تو پھر ایسے حملے کا جواز کیا ہے؟ کیا یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟

اسرائیل کا یہ حملہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کو بڑھا رہا ہے بلکہ اس سے عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔ ایک ایٹمی طاقت کی جانب سے محض شک کی بنیاد پر ایک دوسرے خودمختار ملک پر حملہ، دنیا کو ایک بار پھر تباہ کن جنگ کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ ماضی میں عراق کے خلاف "ایٹمی ہتھیاروں" کا جھوٹا دعویٰ دنیا کو تباہی کی ایک بھیانک مثال دے چکا ہے۔ کیا دنیا ایک اور جھوٹے الزام کی بھینٹ چڑھنے کو تیار ہے؟

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے: اگر عالمی ادارے ایران کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک قرار دے رہے ہیں تو پھر اسرائیل اور امریکہ کو اس حد تک جانے کی کیا ضرورت پیش آ رہی ہے؟ کیا یہ ایران کو غیر مستحکم کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے؟ یا خطے میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے ایران کو مسلسل دباؤ میں رکھا جا رہا ہے؟

دنیا کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ جنگ کے حامی ہیں یا امن کے۔ عالمی برادری، باالخصوص اقوام متحدہ، او آئی سی، اور دیگر عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل جیسے ممالک کو قانون کے دائرے میں لائیں اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور انسانی المیے کو جنم لینے سے روکیں۔

ایران نے بارہا دنیا کے سامنے خود کو پرامن ملک ثابت کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف اور شفافیت کی بنیاد پر پالیسیز بنائی جائیں، نہ کہ سیاسی مفادات اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر کسی کی خودمختاری ختم کرتے ہوئے پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگایا جائے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 83 Articles with 74191 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.