اہلِ فلسطین نے ایٹم بم نہیں بنایا، پھر ان پر یہ بربریت کیوں؟ ✍️ از: افضل رضوی تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات دنیا میں ظلم اور انصاف کی پیمائش اکثر طاقت کے ترازو سے کی جاتی ہے، نہ کہ اصول اور اقدار کے میزان سے۔ فلسطین کی سرزمین پچھلی ایک صدی سے اس ناانصافی، جبر اور استعماری سازشوں کا شکار ہے، جن کا مقصد ایک بے بس قوم کو مٹا دینا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اہلِ فلسطین نے نہ ایٹم بم بنایا، نہ کوئی میزائل ٹیکنالوجی ایجاد کی، نہ عالمی دہشت گردی میں کوئی مقام حاصل کیا، پھر بھی ان پر وہ ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے جوظالم ریاستوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ 1. تاریخی تناظر: فلسطین کا قضیہ سامراجی وراثت ہے فلسطین کا مسئلہ کوئی مذہبی تصادم نہیں بلکہ ایک استعماری منصوبے کا شاخسانہ ہے۔ 1917 کے ذریعے برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین (Balfour Declaration)بالفوراعلامیہ میں میں "قومی وطن" دینے کا وعدہ کیا، جب کہ اس وقت وہاں کی غالب اکثریت عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی تھی۔ اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لاکھوں یہودیوں کو یورپ اور روس سے لا کر آباد کیا گیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر مہاجر کیمپوں میں دھکیل دیا گیا۔ ان کی زمین، گھر، تاریخ اور تشخص کو طاقت کے ذریعے مسمار کر دیا گیا۔ 2. اہلِ فلسطین کے پاس کوئی ایٹمی یا کیمیائی ہتھیار نہیں یہ بات واضح ہے کہ فلسطینیوں کے پاس: • کوئی باقاعدہ فوج نہیں • کوئی ایٹمی پروگرام نہیں • کوئی جنگی طیارے یا ٹینک نہیں • کوئی بین الاقوامی اتحادی فوج نہیں یہاں تک کہ ان کی بنیادی دفاعی ضروریات بھی عالمی پابندیوں اور اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث مفلوج ہیں۔ غزہ، جو کہ 2007 سے محاصرے میں ہے، وہاں نہ ادویات کی مناسب فراہمی ہے، نہ خوراک، نہ بجلی، نہ پینے کا صاف پانی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بے بسی کے باوجود ان پر بمبارمنٹ کیوں؟ 3. بربریت کی اصل وجوہات (الف) حقِ خود ارادیت کی سزا فلسطینی قوم اپنی زمین، اپنی شناخت اور آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان کا یہ فطری حق ہی ان کے لیے جرم بن گیا ہے۔ دنیا میں کسی قوم کو غلامی سے آزادی کی خواہش پر سزا نہیں دی جاتی، لیکن فلسطینیوں کو دی جا رہی ہے۔ (ب) سیاسی مفادات اور طاقت کا توازن اسرائیل کو مغرب کی ایک ’’چوکی‘‘ کے طور پر پروان چڑھایا گیا۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ممالک اسرائیل کو جدید ہتھیار، دفاعی شیلڈ، مالی امداد اور سفارتی پشت پناہی فراہم کرتے ہیں۔ اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کی عسکری بالادستی کو یقینی بنانا ضروری سمجھا جاتا ہے — چاہے اس کے لیے لاکھوں فلسطینیوں کی جان کیوں نہ جائے۔ (ج) میڈیا اور بیانیے کی جنگ دنیا کے بیشتر میڈیا چینلز فلسطینی مزاحمت کو "دہشت گردی" قرار دیتے ہیں، اور اسرائیلی حملوں کو "دفاعِ وطن" کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس بیانیے سے عام دنیا کو فلسطینیوں کی مظلومیت دکھائی ہی نہیں دیتی۔ 4. اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو فلسطین کے حق میں موجود ہے، مگر ان پر عمل درآمد صفر کے برابر ہے۔ جب فلسطینی بچے شہید ہوتے ہیں، ہسپتال تباہ کیے جاتے ہیں، یا مہاجر کیمپوں پر بمباری ہوتی ہے، تو عالمی ضمیر صرف ’’تشویش‘‘ کا اظہار کرتا ہے۔ سوال یہ ہے: اگر یہ سب مظالم کسی ایٹمی طاقت یا کسی مغربی ملک پر کیے جا رہے ہوتے، تو کیا دنیا یوں خاموش رہتی؟ 5. مزاحمت زندہ ہے: فلسطینی قوم شکست نہیں کھا سکی تمام تر ظلم، قتل عام، محاصرے، تباہ کاریوں اور عالمی بے حسی کے باوجود فلسطینی قوم نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ان کے بچے پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں، مائیں بیٹوں کی شہادت پر صبر کرتی ہیں، نوجوان ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ یہی مزاحمت اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے لیے سب سے بڑی پریشانی ہے۔ 6. کیا امت مسلمہ کا کوئی فرض نہیں؟ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان حکومتیں اجتماعی طور پر اس ظلم کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکیں۔ اگر مسلم دنیا متحد ہو جائے، سیاسی، اقتصادی اور سفارتی سطح پر یکجہتی دکھائے، تو ظلم کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم آپس میں ہی منقسم اور مغرب کے محتاج ہیں۔ 7. نتیجہ: فلسطینی جرمِ بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں فلسطینیوں نے ایٹم بم نہیں بنایا، انہوں نے صرف حق، انصاف اور آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ مگر اس نعرے کی گونج اتنی خوفناک ہے کہ ظلم کی قوتیں لرزنے لگتی ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ مظلوم کو ہی مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اہلِ فلسطین پر ظلم تاریخ کا بدترین باب ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ قوم قربانی، استقامت اور غیرت کی علامت بن چکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کبھی دائمی نہیں ہوتا، اور مظلوم کی آہ آخر کار عرش ہلا دیتی ہے۔ فلسطین کی آزادی ایک خواب نہیں، ایک وعدہ ہے — اور وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہوتے۔
|