ظالمانہ بجٹ اور متاثرہ عوام

ظالمانہ بجٹ اور متاثرہ عوام

ہمارے حکمران جس طرح آئے دن اپنی مراعات تنخواہوں میں اضافہ اور سرکاری ملازمین کی پنشن الاؤنس میں کمی، تاجران، عام عوام پر ٹیکسوں کا نہ رکنے والا بوجھ ڈال رہے ہیں، اس نے ان کی جو کچھ ساکھ بچی تھی اسے بھی ختم کر دیا ہے شریف اور زرداری فیملی اقتدار کے مزے لوٹنے اور عیاشیوں میں مصروف ہیں لیکن عوام ان کی ظالمانہ پالیسیوں، اقدامات، کرپشن کے باعث زندہ درگور ہو گئے ہیں لیکن نہ ہی آئی ایم ایف کو 25 کروڑ عوام پر رحم آتا ہے اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں عوامی نمائندوں کو، عوام حیران ہے کہ جب ججز، جرنیل، افسرشاہی، سینیٹرز، قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کی مراعات تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہوتا ہے تو خزانہ ہمارا بھر جاتا ہے لیکن جب عوام بجلی، گیس میں ریلیف اور صحت و تعلیم کی سہولیات طلب کرتی ہے تو ہمارا خزانہ خالی اور آئی ایم ایف سے اجازت درکار ہو جاتی ہے ائی ایم ایف کو ہمارے اشرافیہ کی تنخواہوں مراعات میں 500 فیصد سے زائد اضافہ نظر نہیں آتا جب بھی بجلی گیس کی ناقابل برداشت قیمتوں میں کمی اور سرکاری ملازمین پنشنرز کی تنخواہوں، پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافے کی بات کرو تو ہمیں آئی ایم ایف یاد آ جاتا ہے اس سے اجازت درکار ہو جاتی ہے، کیا غیر ملکی قرضے ہم صرف ان چند فیصد اشرافیہ حکمرانوں کی عیاشیوں کے لیے لیتے ہیں عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط ملی ہے یا نہیں وہ تو آئی ایم ایف کا نام سن کر ہی کانپ اٹھتا ہے کہ اب عوام مزید سخت فیصلوں کے لیے تیار ہو جائیں حکومت گزشتہ کئی ماہ سے کئی آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے اور نظر ثانی کرنے کے بعد بجلی کے بلوں میں کمی کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے لیکن صرف سات روپے کی کمی کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری گئی جبکہ شہباز شریف کی پی ڈی ایم اور موجودہ دور حکومت میں بجلی 16 روپے سے 70 روپے یونٹ گھریلو صارفین جبکہ کمرشل کا ریٹ 100 روپے تک پہنچ گیا ہے ہر دکاندار پر ایک ہزار روپے اور 500 روپے کا فکس ٹیکس ڈال دیا گیا ہے جبکہ 15 اقسام کے ٹیکسز پہلے ہی نافذ تھے یعنی اب تاجر گزشتہ ایک سال سے 18 ہزار روپے ٹیکسوں کے علاوہ فکس ادا کر رہا ہے لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے آخر یہ اربوں روپے کی رقم کس کھاتے میں جا رہی ہے، مبینہ طور پر کرپشن کی نظر ہو رہی ہے اسی طرح اب موٹر وے پر سفر کرنے والوں کے ٹول ٹیکسز میں بھی کئی گناہ اضافہ کر دیا گیا ہے اب 15 جون 2025 سے بغیر ایم ٹیک کے سفر کرنے والوں کے ٹول ٹیکس میں 50 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے مطابق اسلام اباد ٹو لاہور 1800 روپے لاہور ٹو عبدالحکیم 1200 روپے جبکہ پنڈی بھٹیاں ٹو ملتان 1600 روپے ہوگا ڈیرہ ٹو حکلہ کار ہزار روپے، ویگن 1650 کوسٹر 2200 روپے بس 3300 روپے ایکسل ٹرک 4200 روپے، آر ٹی کو لینڈ ٹرک 550 روپے اسی طرح تناسب سے دیگر موٹرویز پر بھی اضافہ ہوگیا جو کہ انتہائی ظالمانہ اقدام ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے حکمران موٹروے پے ایک سال میں تیسری مرتبہ دگنا اضافہ کر رہے ہیں جس سے گاڑیوں کے مالکان کے علاوہ بسوں، کوچیز میں سفر کرنے والوں کے کرایوں اور ٹرکوں کے ذریعے سامان کی ترسیل کی کاسٹ بھی بڑھ جائے گی، اب تمام تر اقدامات ٹیکسز کا بوجھ صار فین کو اٹھانا پڑتا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں کا تمام تر بوجھ غربت کی چکی میں پسی ہوئی عوام پے ڈال کر نفرتوں کا وہ بیج بویا ہے جس کا خمیازہ وہ کسی بھی غیر جانبدار الیکشن میں دیکھ لے گی اگر فارم 47 کی مداخلت نہ کی گئی تو موجودہ جو جماعتیں برسر اقتدار ہیں، ان کا نام و نشان مٹ جائے گا ،حکومت کا ہر آیا دن عوام کے لیے مایوسی ہراسمنٹ اور پریشانی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے اب اے ٹی ایم کارڈ پر بھی غنڈہ ٹیکس وصول کیا جائے گا سرکاری ملازم اور کاروباری طبقہ اسی سے مزید متاثر ہوگا لوگ بینکوں میں ٹیکس سے بچنے کے لیے رقوم رکھنا ترک کر دیں گے جس سے چوروں ،رہزنوں ڈاکوؤں کے وارے نیارے ہو جائیں گے بینکوں کا نظام پہلے بھی زبوں حالی کا شکار ہے مزید خراب ہوگا کرپشن مرکزی اور صوبائی سطح پر اپنے عروج پر ہے 90 فیصد ادارے تباہ ہو چکے ہیں لیکن لاکھوں روپے تنخواہ لینے والی بیوروکریسی ججز ،واپڈا ملازمین کے لیے بجلی مفت میسر ہے، میرے کئی دوست جوواپڈہ میں ملازم ہیں وہ اپنی تنخواہ کئی کئی ماہ تک وصول ہی نہیں کرتے کیونکہ ان کے اوپر کی کمائی اتنی ہو جاتی ہے کہ انہیں تنخواہ کئی کئی ماہ تنخواہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کیونکہ ان کی اوپر کی کمائی اتنی ہو جاتی ہے کہ اپنی تنخواہ کے استعمال کی ضرورت ہی پیش نہیں اتی وہ نہ صرف خود مفت کی بجلی استعمال کرتے ہیں بلکہ اڑوس پڑوس کو بھی دیکھ کر بھتہ وصول کرتے ہیں، موجودہ بجٹ میں سولر پینل، چھوٹی گاڑیوں پر 18 فیصد سیل ٹیکس نافذ کیا لیکن بعد ازاں اسے کم کرکے دس فیصد کر دیا ہے تاہم اس کا نفاذ ہی انتہائی ظالمانہ اقدام ہے ، اب عام انسانوں کے لیے ان کا حصول مشکل ہو جائے گا، آن لائن خریداری ایک موثر طریقہ تھا خریداری اور بے روزگار افراد کے لیے کاروبار کا لیکن اب اس پر بھی 18 فیصد سیل ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ بجٹ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خاتمے اور نوجوان نسل کو روزگار فراہم کرنے کے منصوبوں کا کوئی ذکر نہیں ہے، اب نان فائلر اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکے گا اور نہ ہی جائیداد کی خرید و فروخت اور بیرون ملک سفر خصوصاً حج و عمرہ تک پہ نہ جا سکے گا ملک میں پہلی مرتبہ زراعت پر بھی ٹیکس لگایا گیا ہے جو بڑے زمینداروں سے ضرور وصول کرنا چاہیے، دفاعی بجٹ جو کہ گزشتہ سال 2300 روپے ارب تھا میں اب بھارت کی طرف سے خطرات کو دیکھتے ہوئے 2500 اربوں کا اضافہ کیا گیا ہے لیکن جب ہر غریب و امیر پر بھاری ٹیکسز نافذ ہیں تو ہمارے دفاعی اداروں اور ان کے کاروبار کرنے والوں پر بھی ٹیکس ہونا چاہیے ، بجٹ میں نوجوانوں اور غریب کے لیے کچھ بھی نہیں ہے،جبکہ غیر رجسٹرڈ کاروبار کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور پراپرٹی کا کاروبار جو بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے کئی سالوں سے ٹھپ ہے پر ریلیف کا فیصلہ کیا گیا ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں سات فیصد اضافہ اور ایف بی ار جو کہ پہلے ہی بے لگام گھوڑا اور کرپشن کا گڑھ ہے کہ اختیارات میں اضافہ مزید کرپشن کے فروغ اور کاروباری طبقے کی ہیراسمنٹ کا سبب ہوگا آپ اگر بجٹ کا جائزہ لیں تو ٹھنڈے اے سی اور بڑے بڑے محلوں ایوانوں میں رہنے والوں کو ہماری غربت کی چکی میں پسی عوام سرکاری ملازمین ، کاروباری طبقہ ،نوجوانوں بے روزگار نسل کے مسائل کا کوئی ادراک اور ان کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آتے ، بیوہ کی دس سال کی پنشن کو ختم کر دیا گیا ہے جو کہ انتہائی زیادتی ہے اس فیصلے کو بھی واپس لیا جائے،

 

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 188 Articles with 183148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.