لبنان — مذہب، مزاحمت اور مشرقِ وسطیٰ کا آئینہ

لبنان، عرب دنیا کا ایک چھوٹا مگر تاریخی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے پیچیدہ ملک ہے۔ اس کی گلیاں نہ صرف رومن اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں بلکہ فلسطینیوں کے آنسوؤں سے بھی بھیگی ہوئی ہیں۔ یہ محض ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک ایسا رنگین مگر پیچیدہ کینوس ہے جس پر تاریخ، مذہب، جنگ، سیاست، قوم پرستی اور بین الاقوامی طاقتوں کی لکیریں واضح دکھائی دیتی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کا پیرس — ماضی کی ایک جھلک
کبھی لبنان کو "مشرق وسطیٰ کا پیرس" کہا جاتا تھا۔
یہاں کی امریکی یونیورسٹی پورے خطے میں علم کی روشنی بانٹتی تھی۔
لبنانی کھانے اور ضیافتیں لمحات کو یادگار بناتی تھیں، فیشن کا انداز پورے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی ایشیا پر اثر انداز ہوتا تھا،
ادب و صحافت ٹرینڈ سیٹ کرتے تھے۔
آج وہی لبنان اجڑا ہوا ہے۔
انسان زندگی کو گھسیٹ رہے ہیں، عمارتیں خود اپنے ماضی پر نوحہ کناں ہیں، اور معاشرت اپنے ہی بکھرے ہوئے ٹکڑوں پر گریہ کناں۔
اگر مشرقِ وسطیٰ کو سمجھنا ہے تو لبنان کوسمجھنا ہوگا — کیونکہ لبنان وہ آئینہ ہے جس میں عرب دنیا کی داخلی کشمکش، مذہبی تقسیم، اور عالمی سازشوں کا عکس صاف نظر آتا ہے۔
تاریخی تناظر — سلطنتوں سے خانہ جنگی تک
تاریخ کی ابتدا: صور و صیدا کا کردار
قدیم بندرگاہی شہر صور اور صیدا تہذیب کے گہوارے تھے، جہاں سمندری تجارت نے تاریخ رقم کی۔
یہ خطہ وقت کے ساتھ رومی، بازنطینی، صلیبی اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ بنتا گیا۔
خلافت عثمانیہ سے فرانسیسی قبضے تک
لبنان صدیوں تک خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد فرانس نے اسے شام سے الگ کر کے "گریٹر لبنان" کی شکل دی۔
فرانسیسی اثر نے یہاں کی مسیحی اشرافیہ کو سیاسی طور پر مضبوط کیا — جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
سیاسی بندوبست اور خانہ جنگی
اقتدار کی مذہبی تقسیم
لبنان نے 1943 میں آزادی حاصل کی، لیکن اقتدار کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر کی گئی:
صدر: مارونی عیسائی
وزیراعظم: سنی مسلمان
پارلیمانی اسپیکر: شیعہ مسلمان
یہ نظام وقتی طور پر توازن کا ذریعہ تو بنا، مگر لمبے عرصے میں شدید اختلافات کا بیج بو گیا۔
خانۂ جنگی کا دور — خون اور سازشیں

1975
سے 1990 تک لبنان شدید خانہ جنگی کا شکار رہا۔
اس جنگ میں فلسطینی، عیسائی ملیشیاز، شیعہ گروہ، اسرائیل اور شام سب کسی نہ کسی طور پر شامل تھے۔
1982
کا اسرائیلی حملہ اور حزب اللہ کی پیدائش

1982
میں اسرائیل نے فلسطینی تنظیم
PLO
کو نکالنے کے لیے لبنان پر حملہ کیا اور بیروت تک قبضہ کر لیا۔
اسی کے ردِعمل میں حزب اللہ کی بنیاد پڑی — جو آج اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔
1976
سے 2005 تک شام لبنان پر اثر انداز رہا۔
خانہ جنگی کے دوران شام نے مداخلت کی، جس سے وقتی امن قائم ہوا۔
مگر 2005 میں وزیرِاعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد عوامی دباؤ کے نتیجے میں شام کو اپنی افواج واپس بلانی پڑیں۔
فرقہ واریت اور سیاست کا شکنجہ
لبنان کی آبادی 18 مذہبی فرقوں پر مشتمل ہے، جیسے:
مارونی، کیتھولک، آرتھوڈوکس عیسائی
سنی، شیعہ، دروز
اور دیگر اقلیتی گروہ
یہ صدیوں سے امن سے رہ رہے تھے، مگر اسرائیل نے اس سماجی تنوع کو فرقہ واریت میں بدل دیا۔
ہر فرقہ اپنی ملیشیا، میڈیا اور حتیٰ کہ اپنی خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔
نتیجتاً، لبنان ایک مکمل ریاست نہیں، بلکہ ایک "معاہداتی ملک" بن گیا — جو گروہی سمجھوتوں پر قائم ہے۔
حزب اللہ لبنان کا سب سے بااثر، منظم اور مسلح گروہ ہے۔
یہ اسرائیل کی نظر میں دہشتگرد، مگر لبنانی عوام کی نظر میں "مقدس مزاحمت" ہے۔
امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک اسے دہشتگرد قرار دے چکے ہیں،
جبکہ لبنان میں یہ عوامی حمایت رکھتا ہے۔
اسرائیل حزب اللہ کے وجود کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
اسی لیے اس نے حزب اللہ کو عالمی سطح پر "دہشتگرد تنظیم" کے طور پر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی —
اور اس کے کئی رہنما چن چن کر قتل کیے گئے۔
لبنان میں حزب اللہ کا اثر اس قدر ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے وہی واحد طاقت دکھائی دیتی ہے —
مگر اسرائیل کی دشمنی کی وجہ سے امن بھی ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔
لبنان آج — ایک قوم، کئی خواب
زخم خوردہ ریاست، جاگتی ہوئی نسل
لبنان وہ ملک ہے جو:
تہذیب کا مرکز تھا
مزاحمت کی علامت بنا
اور سیاست کا قیدی بن چکا ہے
آج یہاں حکومت کمزور، عوام منقسم اور مستقبل غیر یقینی ہے۔
مگر لبنانی نوجوان اب جنگ سے تھک چکے ہیں۔
وہ نہ بیرونی اثرات چاہتے ہیں، نہ مذہبی تقسیم — صرف امن، تعلیم، روزگار اور شناخت کی خواہش رکھتے ہیں۔
لبنان کا نچوڑ — دل میں حزب اللہ، دماغ میں مغرب، روح میں فلسطین
لبنان نہ مکمل آزاد ہے، نہ مکمل غلام۔
یہ مشرق وسطیٰ کی:
سب سے خوبصورت
سب سے زخمی
اور سب سے الجھی ہوئی ریاست ہے۔
یہ ملک خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے — اور دنیا صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔
اسرائیل نے کو کچھ اٌنے ہمسائے لبنان کے ساتھ کیا ہے وہ وہی کچھ دوسرے ہماسئیوں ہی نہیں ،شرق وسطی کے تمام ممالک کے ساتھ کرنا چاہتا ہے ۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 190 Articles with 192853 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.