13 جون 2025 کو ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع
ہوئی جب اسرائیل نے ایران کے جواہری اور فوجی اہداف پر غیرمتوقع فضائی حملے
کیے، جس کے جواب میں ایران نے “سچا وعدہ 3” کے تحت میزائل داغے۔ اس جنگ نے
خطے کو ہلا کر رکھ دیا، اسرائیل نے نطنز اور آراک جیسے جوہری مراکز کو
نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا، جبکہ ایران نے 657 اموات اور اسرائیل نے 27
اموات رپورٹ کیں، جن میں سوروکا میڈیکل سینٹر پر حملے شامل ہیں۔ کیا یہ جنگ
ختم ہو سکتی ہے؟ امریکی صدر ٹرمپ کی دو ہفتوں کی ڈیڈ لائن اور جی سیون کی
ڈپلومیسی کی اپیل امید کی کرن ہے۔ یہ مضمون حالیہ پیش رفت، امن کے چیلنجز،
اور پاکستان کے لیے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔,
حالیہ پیش رفت
اسرائیل نے “آپریشن رائزنگ لائین” کے تحت ایران کے جواہری مراکز، میزائل
لانچرز، اور فوجی قیادت کو نشانہ بنایا، دعویٰ کیا کہ تہران پر “مکمل فضائی
برتری” حاصل ہے۔ ایران نے تل ابیب اور حیفا پر بیلسٹک میزائل داغے، انقلابی
گارڈز نے ایک ایف-35 طیارہ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا، مگر اسرائیل نے آئرن
ڈوم سے کم نقصان کی تصدیق کی۔ ڈپلومیسی میں، ٹرمپ نے ایران سے “غیر مشروط
ہتھیار ڈالنے” کا مطالبہ کیا، روس نے مشترکہ ثالثی کی پیشکش کی، اور ایرانی
وزیر خارجہ عباس عراقچی نے حملے رکنے پر جوہری مذاکرات کی بات کی۔ آئی اے
ای اے نے ایران کی جوہری ذمہ داریوں کی عدم تعمیل رپورٹ کی، جس نے تناؤ
بڑھایا۔ ایران میں 657 اور اسرائیل میں 240 افراد زخمی ہوئے۔,,
امن کے لیے چیلنجز
اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے، جبکہ ایران ہتھیار
ڈالنے سے انکار کرتا ہے۔ سپریم لیڈر خامنہ ای نے امریکی مداخلت پر “ناقابل
تلافی نقصان” کی دھمکی دی۔ ایران نے امریکا، برطانیہ، اور فرانس کے اڈوں کو
نشانہ بنانے کی بات کی، جبکہ غزہ میں طویل جنگ سے انسانی بحران پر توجہ
ہٹنے کا خدشہ ہے۔ ایران میں شہری تحفظ کے خلاف احتجاجات اور اسرائیلی وزیر
دفاع اسرائیل کاٹز کے رجیم چینج کے مطالبے نے پیچیدگی بڑھائی۔ ایران کے
میزائل ذخیرے (700 فائر، 300–1,300 باقی) کی کمی اور اسرائیل کی امریکی
“بنکر بسٹر” بموں پر انحصار چیلنجز ہیں۔,
پاکستان اور خطے کے لیے اثرات
پاکستان، ایک مسلم اکثریتی ملک، ایران اور اسرائیل سے غیرجانبدار تعلقات
رکھتا ہے اور علاقائی استحکام چاہتا ہے تاکہ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور
مہاجرین کے بہاؤ سے بچا جا سکے۔ خلیج فارس سے تیل کی سپلائی میں خلل
پاکستان کی توانائی درآمدات کو متاثر کر سکتا ہے۔ پاکستان او آئی سی جیسے
فورمز کے ذریعے ثالثی کی حمایت کر سکتا ہے، جیسا کہ ایران کے قطر اور عمان
سے رابطوں سے ظاہر ہے۔ یہ جنگ مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ تناؤ اور غزہ کے
بحران کو بڑھا سکتی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ڈپلومیسی کے
لیے ایران سے رابطے کی تصدیق کی۔
ایران اسرائیل جنگ ایک نازک موڑ پر ہے، جہاں ڈپلومیسی امید دیتی ہے مگر
تناؤ برقرار ہے۔ عالمی تعاون سے وسیع جنگ روکی جا سکتی ہے، جس کے لیے دونوں
فریقین سے تحمل ضروری ہے۔ پاکستانی قارئین سے اپیل ہے کہ وہ باخبر رہیں اور
مذاکرات کے ذریعے امن کی حمایت کریں۔ یہ جنگ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے
لیے ایک امتحان ہے، اور اس کا حل صرف گفت و شنید میں ہے
|