دنیا میں کئی جنگیں تلوار سے نہیں جیتی جاتیں، بلکہ دماغ
سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ بعض اوقات خاموشی، سادگی اور معمولی حرکتیں اتنی
گہری چالیں ہوتی ہیں کہ مخالف کی آنکھ کھلی ہونے کے باوجود کچھ نہیں دیکھ
پاتی۔
بلجیئم کا ایک عام سا شخص دیستان (Déstin) بھی شاید ایسا ہی ایک کردار تھا،
جسے آج دنیا سب سے ذہین سمگلر کہتی ہے۔ مگر اس کی چالاکی کا ہدف نہ بارود
تھا، نہ زر، بلکہ "سائیکل" جی ہاں، وہی سائیکل جو آج معمول کی سواری ہے مگر
تب جرمنی میں ایک نایاب چیز سمجھی جاتی تھی۔
دیستان روزانہ اپنی سائیکل پر سوار بلجیئم سے جرمنی جاتا۔ سرحدی اہلکار اس
کی باقاعدہ تلاشی لیتے، اس کے پاس ہمیشہ ایک شاپر ہوتا جس میں مٹی بھری
ہوتی۔ فورسز اُس مٹی کو کھنگال کر اُسے جانے دیتیں۔ دیستان کبھی واپسی پر
اسی راستے سے نہیں آتا، اور یہی باتیں بظاہر مشکوک تھیں، مگر شاپر میں مٹی
کے سوا کچھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہر بار بچ نکلتا۔
یہ سلسلہ ایک دن، ایک مہینہ، ایک سال نہیں بلکہ بیس سال تک چلا۔ اور اس
پورے عرصے میں دیستان روزانہ ایک نئی سائیکل جرمنی لے جاتا رہا۔
اس کی موت کے بعد، جب اس کی ڈائری کھولی گئی تو ایک صفحے پر صرف ایک جملہ
درج تھا:
> "میری بیوی بھی یہ بات نہیں جانتی کہ میں بیس سال تک سائیکلیں اسمگل کرتا
رہا ہوں۔"
یہ وہ لمحہ تھا جب حقیقت سب پر آشکار ہوئی، اور ان اہلکاروں کے چہروں پر
شرمندگی چھلک اٹھی جنہوں نے روزانہ اس کی “مٹی” کو کھنگالا، مگر اصل
"سائیکل" کو نظر انداز کر بیٹھے۔
دیستان کا مشہور قول شاید اسی فلسفے کی عکاسی کرتا ہے:
"اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنے دشمن کے آگے ایسا ہدف شو کریں جو آپ
کا ہدف نہیں ہے، اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے ہدف کا تعاقب کریں۔"
دیستان کی کہانی محض اسمگلنگ کی نہیں، بلکہ اس میں کئی گہرے سبق چھپے ہیں:
طاقتور کو شکست دینا ہمیشہ ہتھیار سے ممکن نہیں ہوتا۔
اصل چیز کبھی ظاہر نہیں کی جاتی، وہ نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔اور کبھی کبھی
دھوکہ دینے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار "سادگی" ہوتی ہے۔
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ دیکھنے اور سمجھنے میں فرق ہوتا ہے۔ آنکھیں
کھلی ہوں تو ضروری نہیں کہ حقیقت بھی دیکھی جا رہی ہو۔
|