گودی میڈیا کا واشنگٹن پوسٹ کے ذریعہ پوسٹ مارٹم

وزیر اعظم نریندر مودی نےہندوستان میں بھی بی بی سی، گارجین ،سی این این ، واشنگٹن پوسٹ اور الجزیرہ جیسے مقبول عام اورمعتبر میڈیا ہاوس کا خواب دیکھا تھا مگر اس کوشرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے انہوں نے ارنب گوسوامی کا انتخاب کیا ۔ دنیا بھر کے وسائل فراہم کرکے ریپبلک چینل بنوایا مگر اس احمق نے قومی میڈیا میں ایسی وباء پھیلائی کہ جس کا شکار ہوکر تمام بڑے چینلز اپنی اعتباریت کھو بیٹھے اور ملک شرمندہ ہوگیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے حالیہ پوسٹ مارٹم نے اس حقیقت کو پوری طرح اجاگرکردیا۔ اس کی رپورٹ نہایت واضح انداز میں ثابت کردیا کہ ٹی آر پی(مقبولیت) بڑھانے کی چوہا دوڑ میں شامل گودی میڈیا کے نام نہاد صحافی جوش سے مغلوب ہوکر ہوش کھو بیٹھے اور خود کو رسوا کرلیا ۔ ایسی حماقت کاارتکاب کرنے والوں نے کسی اور کا نہیں بلکہ خود اپنا ہی نقصان کرلیا نیز بین الاقوامی سطح پر اپنی ذات کے ساتھ اپنے ملک کی شرمندگی کا سامان بھی کردیا۔ اس کی بڑی مثال ٹائمز ناؤ کے سشانت سنہاہیں جواپنی حماقت کا دفاع کرتے ہوئے کہتےہیں کہ ’’ہر چینل سے غلطی ہوئی، مگر ہماری کوئی غلطی ملک کے خلاف نہیں تھی‘‘۔توکیا اس حرکت سے چار دانگِ عالم میں ملک کا وقار بڑھا یا نام روشن ہوا؟ یہی بات تھی تو آج تک نے کھلے عام معافی کیوں مانگی؟ فی الحال گودی میڈیا کے لقب سے یاد کیے جانے والے قومی ذرائع ابلاغ پر علامہ اقبال کا یہ شعر(مع ترمیم) صادق آتا ہے؎
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
میڈیا کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں اس طوفانِ بدتمیزی پیچھے بی جے پی حکومت کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے یعنی پاکستان کے تمام بڑے شہروں پر بمباری، قبضے اور فتح کے جھوٹے دعوے سرکار کی ایماء پر کیے گئے ۔ اس کذب گوئی کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے جنگ کی فرضی ویڈیوز، تصاویراور من گھڑت خبریں بنا کر عوام میں پھیلائی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا مؤقر اخبار اسے صحافت کے بجائے ریاستی سرپرستی میں تیار کردہ فکشن کا نام دیتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس مہم کا غلیظ مقصد ملک کی عوام اور عالمی برادری کو گمراہ کرکے خطے میں کشیدگی کا سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔اس مذموم کوشش میں جھوٹی جنگی خبریں پھیلانے کے لیے فلاڈیلفیا میں طیارہ حادثہ اور ویڈیو گیمز کے مناظرتک کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ زی نیوز، این ڈی ٹی وی، آج تک اور ٹائمز ناؤ جیسے ملک کے بڑے چینلز نے دھڑلے سے غزہ اور سوڈان کی ویڈیوز کو پاکستان پر حملے کی ویڈیوز کے طور پر پیش کیا اور پاکستانی وزیراعظم کےسپر ڈال دینے خبر بھی اڑادی ۔

سوال یہ ہے کہ جب ہندوستانی بحریہ اور فضائیہ نے کسی حملے کی تصدیق نہیں کی تو نیوز چینلز کو جنگی جنون سوار کرنے کے لیے یہ موا د کہاں سے ملا ؟ ان کے حوصلے اس قدر بلند کیسے ہوگئے کہ وہ جنگ جیسے نازک معاملے میں بے دریغ جھوٹ بولنے لگے ؟؟ المختصر ہندوستانی میڈیا کے نیوز رومز میں جھوٹی معلومات کا غلبہ کیونکر ممکن ہوسکا؟؟؟ ان سوالات کا تشفی بخش جواب حاصل کرنے کی خاطر واشنگٹن پوسٹ کے نمائندوں نے محض قیاس آرائی پر اکتفاء کرنے کے بجائے دو درجن سے زائدمعمر صحافیوں اور چند موجودہ و سابق سرکاری افسران سےگفتگو کرکے جڑ تک پہنچنے کی سعی کی کیونکہ جھوٹ کے اس پلندے میں سےسچائی کو الگ کرلینا کوئی آسان ہدف نہیں تھا ۔۔ اس کوشش کے دوران مختلف برسرِ کار صحافیوں اور سرکاری افسران سے رابطہ کرکے گفتگو کی گئی تو ان میں سے بیشتر لوگوں نے اپنے پیشہ ورانہ نقصان سے خائف ہوکر معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر چونکانے والے انکشافات کیے ۔ واشنگٹن پوسٹ نے ان حقائق کو اپنی رپورٹ میں شامل کرلیا ۔

اخبار کے مطابق 9؍ مئی کو نصف شب میں سرکاری نشر و اشاعت کے ادارے پرسار بھارتی سے ایک صحافی کو واٹس ایپ پر پاکستان کے آرمی چیف کی گرفتاری اور ملک میں بغاوت کا پیغام ملا۔ موصوف نے اس خبر کو ایکس پر پوسٹ کیا تو دیگر لوگوں نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہ افواہ وائرل ہوگئی۔ اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنرل عاصم منیر کے گرفتاری کی خبر اس وقت اڑائی جارہی تھی جب انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی تیاری چل رہی تھی ۔ ہمارے چینلز سرخی لگا رہے تھے ’ایک گجراتی (جناح) نے پاکستان بنایا اور دوسرا گجراتی( مودی) اس کو مٹا رہا ہے‘۔ اس گڑ بڑ کے لیے سابق خارجہ سیکریٹری نروپما راؤ حکومت کو ذمہ دار مانتی ہیں کیونکہ لڑائی کے دوران حکومت کی جانب سے کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آرہا تھا۔ معلومات کے خلا کو ٹی وی نشریات نے "انتہا پسند قوم پرستی" اور "غیر معمولی فتح کے دعووں" سے ایک "متوازی حقیقت" گھڑ کے پُر کیا ۔

سرکار کی بغیر صابن کے دھلائی کرنے والے پورٹل نیوزلانڈری کی سربراہ منیشا پانڈے نے اسے ماضی کا تسلسل قرار دیا ۔ ان کے مطابق "یہ پچھلے دس سالوں سے بغیر کسی روک ٹوک کےجھوٹ پھیلانے والے ٹی وی چینلز کی سب سے خطرناک شکل ہے‘‘ ۔ ان کے خیال میں ’’ پوری طرح بے قابو (میڈیا) اب دیوہیکل آسیب بن چکاہے ۔" دنیا میں کوئی عمل بے وجہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر اسے ذرائع ابلاغ میں زعفرانیت کے غلبہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے مگر پانڈے کی نظر میں اس کے پسِ پشت ابن لوقتی کارفرما ہے۔ ان کے مطابق "بیشتر اینکرز اپنا مستقبل سنوارنے کی خاطر اقتدار سے قربت کی سوچی سمجھی حکمت عملی پر کام کرتے ہیں ۔" ایک اور صحافی نےتصدیقِ حقائق کے فقدان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ "اب صحافت وہی ہے جو واٹس ایپ پر آ جائے، چاہے کوئی بھی بھیجے۔ آپ کو ایسے وقت پر اس کی قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔"لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جب جھوٹ بولنا لازمی ہوجائے تو انسان اس کی تصدیق کے چکر میں کیوں پڑے؟

واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں ایک مثال کے ذریعہ یہ بتایا کہ گودی میڈیا کے اندر رائی کا پہاڑ کیسے بنایا جاتا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے 8؍ مئی کی رات ایک معروف ہندی چینل کے واٹس ایپ گروپ میں یہ پیغام آیا کہ’’ ہندوستانی بحریہ کسی بھی لمحے حملہ کر سکتی ہے۔‘‘ اس کے جواب میں کسی صارف نے بغیر حوالے کے صرف "کراچی" کا اضافہ کیا ۔ بس پھر کیا تھا، منٹوں میں اس چینل نے کراچی کی بندرگاہ پر حملہ کا جھوٹا دعویٰ کر دیا ۔ اس کے بعد کچھ نیوز رومز نے نیوی یا ایئر فورس سے تصدیق کے ملنےکی خبر اڑائی ۔ اس وقت گودی میڈیا نے حکومت کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ( مثلاً بی جے پی آئی ٹی سیل ) یا اوپن سورس انٹیلی جنس پوسٹس کا حوالہ دے کر جھوٹ پھیلایا ۔ انڈیا ٹوڈے جیسے معروف چینل کی اینکر سویتا سنگھ نے دعویٰ کردیا کہ "کراچی 1971 کے بعد اپنے بدترین خواب کا سامنا کر رہا ہے۔" اور یہ نوید سنادی کہ "یہ پاکستان کا خاتمہ ہے۔" 9؍مئی کی صبح 8 بجے کراچی پورٹ ٹرسٹ نے ایکس پر حملے کی تردید کی مگر اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔ یہ جھوٹی خبر کئی ہندی اخبارات کے صفحۂ اول کی زینت بن چکی تھی اس لیے پلٹ کر جانا ممکن نہیں تھا ۔

گودی میڈیا نے جھوٹی خبروں کو سچائی پر مبنی قرار دینے کے لیےسبکدوش فوجی افسران کے شور شرابے کو جنگ سے متعلق بطور ترجمان استعمال کیا۔ یہ دونوں کے لیے فائدے کا سودہ تھا کیونکہ ایسا کرکے چینلز اپنی ٹی آر پی بڑھا رہے تھے اور سابق فوجی شہرت اور دولت سے مالامال ہو رہے تھے ۔ تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ بی جے پی حکومت کے واٹس ایپ گروپس نے اینکرز کو جھوٹی خبریں فراہم کیں تو انہوںنے اپنے آقاوں کی خوشنودی کے لیے انہیں من و عن بلا تصدیق نشر کردیا۔ ایک سکیورٹی عہدیدار نے جھوٹی معلومات کے عوام تک پہنچانے کو ایک جنگی حکمت عملی حصہ بتا دیا۔ اس کے مطابق جب پروپیگنڈا حقائق پر غالب آ گیا اور سچائی کی جگہ سیاسی وفاداری نے لے لی تو اس کا نقصان ہندوستان کو ہی اٹھانا پڑا ۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت واشنگٹن پوسٹ کی مذکورہ رپورٹ سے ہاتھ آنے والی عالمی بدنامی ہے۔

اپنی دروغ گوئی کو قومی مفاد کا غلاف پہنا کر جائز ٹھہرانے کا رجحان بہت خطرناک ہے۔ بی جے پی کا یہ شعار ہے کہ جب اس سے کسی غلطی کا احتساب لینے کے لیے سوال کیا جاتا ہے تو وہ اسے قومی مفاد خلاف کہہ کر استفسار کرنے والے کو قوم دشمن قرار دے دیتے ہیں ۔ تعجب کی بات ہے قوم کی خاطر سوال پوچھنے کی ذمہ داری جس ذرائع ابلاغ پر وہ بھی اپنی غلطیوں کی پردہ داری کے لیے قوم پرستی کی نقاب اوڑھ لیتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی تفتیش کے دوران ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے جھوٹی معلومات کو ملک کے حق میں مفید بتاتے ہوئے کہا کہ "اگر نچلی سطح کے ذرائع نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا تو اس کا مقصد دشمن کو الجھانا تھا کیونکہ وہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مگر" اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ "کبھی کبھار اس کا نقصان اپنی عوام کو ہوتا ہے، لیکن جنگ اب ایسی ہی ہو چکی ہے‘‘۔ میڈیا میں کذب گوئی اور دھوکہ دھڑی کےسامنے اس طرح ہتھیار ڈال دینا اصلاح کے سارے دروازے بند کر دینے کے مترادف مایوس کن صورتحال ہے۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2151 Articles with 1688557 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.