چین اس وقت تیزی سے ترقی پذیر مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کی
ترقی اور نفاذ میں عالمی صفِ اول پر کھڑا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی صنعتی اپ گریڈ
کو تقویت دینے کے لیے اہم ہے اور معیاری معاشی ترقی میں نئی قوت پیدا کر
رہی ہے۔جہاں تک اس شعبے میں چین کے اہم عالمی کردار کی بات ہے تو ماہرین کے
نزدیک اگلے 18 ماہ سے 2 سال میں چین مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کے استعمال میں
زبردست پیش رفت کرے گا۔ ملک کے پاس 1.4 ارب سے زائد آبادی کی وسیع منڈی اور
صنعتی اطلاق کے لامحدود منظرنامے ہیں، جو چین کے لیے مصنوعی ذہانت میں اہم
فائدہ ہیں۔
چین کے حوالے سے یہ پیش رفت بھی اہم ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت تحقیقی مقالوں
کی تعداد میں امریکہ سے آگے نکل کر پہلے نمبر پر آگیا ہے، اور یہ مقالے اب
خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے صنعتی اطلاق پر مرکوز ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا کیا مصنوعی ذہانت روزگار کے موجودہ
منظرنامے کو بدل دے گی ؟ اس حوالے سے مصنوعی ذہانت سے جڑے ماہرین کے نزدیک
ملازمتوں کا ڈھانچہ تبدیل ہو جائے گا۔ تمام آسان اور دہرائے جانے والے کام
مصنوعی ذہانت سے بدل جائیں گے۔ تاہم ، ملازمتوں کی کل تعداد میں کمی نہیں
ہوگی، بلکہ بنیادی ڈھانچہ بدل جائے گا۔
چین کے تناظر میں ، یہاں خدمات، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں
بڑی ترقی کی گنجائش موجود ہے، اور نئے روزگار اِن ابھرتے ہوئے شعبوں میں
پیدا ہوں گے۔اس حوالے سے چین کا جدید ٹیک ایکو سسٹم انتہائی کارآمد ہے۔چین
کے پاس ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بہترین ٹیکنالوجی بنیادی
ڈھانچہ موجود ہے۔ ملک نے سالوں سے عالمی معیار کا "بی ٹو سی یا کاروبار سے
صارف" ماحول تشکیل دیا ہے، جو مزید جدت کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہے۔علاوہ
ازیں ،چینی کمپنیاں نئی چیزیں آزمانے میں کھلی ذہنیت رکھتی ہیں، جس سے وہ
تیزی سے سیکھتی ہیں، اسی باعث چینی ادارے ڈیجیٹل تجزیات اور ٹیکنالوجی کی
تبدیلی میں پیش پیش ہیں۔
آج ٹیکنالوجی کی نئی جہتوں کی بدولت لائٹ ہاؤس فیکٹریز" اور" جنریٹو اے آئی
تخلیقی مصنوعی ذہانت " مستقبل کے اہم رجحانات بن چکے ہیں۔انسان اور روبوٹس
کا باہمی تعاون جدید ترین مینوفیکچرنگ پلانٹس کی تعمیر کے لیے بنیادی اہمیت
رکھتا ہے۔ ٹیکنالوجی انسانوں کی صلاحیتوں کو مزید آگے بڑھا رہی ہے اور
انہیں بدلتے تقاضوں کی روشنی میں اپ گریڈ کر رہی ہے۔
انہی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کی حکومتی پالیسی اور صنعتی وژن قدرے
نمایاں ہے۔
چین کی حکومت نے مصنوعی ذہانت کو " نئے معیار کی پیداواری قوتوں" کو پروان
چڑھانے اور نئی ترقی کے محرکات پیدا کرنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔رواں
سال مارچ میں پیش کی جانے والی حکومتی ورک رپورٹ میں "اے آئی پلس" انیشی
ایٹو کا اعلان کیا گیا، جس کا مقصد ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو چین کی
مینوفیکچرنگ طاقت اور منڈی سے مؤثر طریقے سے جوڑنا ہے۔ان کوششوں کو مزید
آگے بڑھاتے ہوئے چین وسیع پیمانے پر مصنوعی ذہانت ماڈلز کے وسیع استعمال کی
حمایت کر رہا ہے، اور نئی نسل کے دانشورانہ ٹرمینلز اور اسمارٹ مینوفیکچرنگ
آلات کی ترقی کو فروغ دے رہا ہے۔
ٹیکنالوجی ماہرین کہتے ہیں کہ ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ میں مصنوعی ذہانت کا
استعمال صارفی مصنوعات کے مقابلے میں کہیں زیادہ قدر پیدا کرے گا۔ یہ جدید
ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی مینوفیکچرنگ کی کارکردگی اور مسابقت کو نمایاں طور
پر بڑھا دے گی۔ اس صورتحال کے بہتر ادراک سے چین نے لارج لینگویج ماڈلز میں
اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور چینی مصنوعی ذہانت اسٹارٹ اپ" ڈیپ سیک" کے
تیزی سے عروج نے چین کو مصنوعی ذہانت کے شعبے میں دنیا کے دیگر ترقی یافتہ
ممالک کے ہم پلہ لانے میں مدد دی ہے۔
وسیع تناظر میں ،چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں نہ صرف تحقیق بلکہ صنعتی
اطلاق اور روزمرہ زندگی میں انضمام کے ذریعے ایک جامع ترقیاتی ماڈل پیش کر
رہا ہے، جس سے نہ صرف معیشت کو نئی قوت مل رہی ہے بلکہ دنیا کو ٹیکنالوجی
کے ذریعے ترقی کی ایک نئی راہ بھی دکھائی جا رہی ہے۔
|