ایرانی انٹیلی جنس نظام کو دنیا میں ایک سخت گیر اور فعال
نیٹ ورک سمجھا جاتا رہا ہے، مگر حالیہ برسوں میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں
جنہوں نے اس ساکھ پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں
رہی کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور بھارتی ایجنسی را، ایران کے دل میں
گھس چکی ہیں اور بظاہر ناقابلِ رسائی سمجھے جانے والے اداروں کی دیواریں
لرز چکی ہیں۔
حالیہ انکشافات کے مطابق، اسرائیل نے ایرانی ایئر فورس کی اعلیٰ قیادت کو
ایک ہی وقت میں نشانہ بنایا، اور اس کارروائی میں سب سے خوفناک پہلو یہ تھا
کہ موساد کو ایرانی افسروں کی میٹنگ کی درست مدت اور مقام کی مکمل معلومات
حاصل تھیں۔ اس حد تک رسائی، کسی عام انٹیلی جنس کارنامے سے بڑھ کر، ایران
کے داخلی نظام میں موجود دراڑوں کی عکاسی ہے۔
یہ واحد واقعہ نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ایک
اسرائیلی خفیہ افسر کی جانب سے براہِ راست ایک ایرانی جنرل کو فون کر کے
دھمکیاں دینا اور اس گفتگو کی آڈیو کا عالمی میڈیا میں آ جانا، اس بات کا
ثبوت ہے کہ ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ذاتی رابطہ نمبرز تک موساد کی
رسائی ہے۔ حیرت اس بات پر نہیں کہ موساد ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،
بلکہ تشویش اس بات پر ہے کہ ایران کا دفاعی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک اس سب
کو روکنے میں مکمل ناکام نظر آ رہا ہے۔
اگر ہم اس تمام صورتحال کی تہہ میں جائیں تو ایک اور حقیقت بھی سامنے آتی
ہے جسے ایران کے حکام یا میڈیا زیادہ اجاگر نہیں کرتے، اور وہ ہے بھارت کی
خفیہ ایجنسی "را" کا اس ساری کہانی میں کردار۔ چاہ بہار بندرگاہ پر بھارتی
موجودگی اور اس کے خفیہ مراکز اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اطلاعات یہی ہیں
کہ را، موساد کو مکمل معلومات اور زمینی مدد فراہم کرتی ہے۔ بلوچ علیحدگی
پسند گروپ، افغان دہشتگرد عناصر اور خطے میں موجود دیگر مخالفین کو بھی اس
نیٹ ورک کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ ایران کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔
اس تمام پس منظر میں ایران کے نیوکلیئر سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ اور حساس
فوجی ٹھکانوں پر حملے، محض اتفاق نہیں، بلکہ دشمن کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی
کا حصہ ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ اس وقت ایران کے لیے سب سے بڑا
خفیہ خطرہ بن چکا ہے، جس سے صرف طاقتور بیانات، انقلابی نعروں یا بیرونی
الزامات کے ذریعے بچا نہیں جا سکتا۔
حقیقت یہی ہے کہ ایران کو اب اپنی انٹیلی جنس مشینری میں بنیادی اصلاحات،
داخلی صفائی، ٹیکنالوجیکل بہتری اور قومی سلامتی کے ڈھانچے کو جدید خطوط پر
استوار کرنے کے ساتھ ساتھ دوست نما دشمنوں سے بھی ہوشسیار رہنا ہو گا۔
|