دنیا دہائیوں سے جمہوریت، انسانی برابری، آزادیِ اظہار
اور سچ کی مالا جپ رہی ہے۔ بڑے بڑے عالمی فورمز، اقوامِ متحدہ کی میٹنگز،
بین الاقوامی سربراہ کانفرنسوں اور انسانی حقوق کے سیمینارز میں خوبصورت
الفاظ کی برسات ہوتی ہے۔ مگر جب زمینی حقائق، تاریخی پس منظر اور موجودہ
عالمی حالات کو کھول کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کا یہ نظام اب
کسی ایماندار میزان کی طرح نہیں، بلکہ ایسا ترازو بن چکا ہے جس میں ایک
پلڑے میں طاقت، مفادات اور منافقت کا بوجھ مسلسل ڈالا جاتا ہے، اور دوسرے
پلڑے میں آزادیِ اظہار، جمہوریت اور انسانی حقوق کے الفاظ رکھ کرترازو کے
دونوں پلڑوں کو برابر دکھایا جاتا ہے
آج اگر کوئی صحافی، کوئی لکھاری یا عام شہری اس منافقت پر سوال اٹھائے تو
اس کے حصے میں دھمکیاں، الزامات یا خاموش موت آتی ہے۔ ہم سب نے سنا کہ دنیا
کی طاقتور ترین ریاست کا سربراہ ایک صحافی کے لیے کہتا ہے کہ "اسے کتے کی
طرح رگید کر نکالو"۔ افسوس کی بات یہ نہیں کہ یہ الفاظ کہے گئے، افسوس کی
بات یہ ہے کہ دنیا نے خاموشی سے یہ الفاظ سن بھی لیے اور نگل بھی لیے۔
ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک خودمختار ملک، جس نے بارہا اعلان کیا کہ
وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنانا چاہتا، اس نے اپنے ایٹمی پروگرام کو کھول کر
دنیا کو دکھایا، معائنہ کاروں کو بلایا، رپورٹس پیش کیں، لیکن اس سب کے
باوجود، طاقتوروں نے اس کے سائنسدانوں اور قیادت کو چن چن کر قتل کیا،
پابندیاں لگائیں، اور دنیا کو باور کروایا کہ ایران عالمی امن کے لیے خطرہ
ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کھڑا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس، جس نے کبھی کسی بین
الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنا گوارا نہیں کیا۔ اُس کی بستیوں کی توسیع،
فلسطینی زمینوں پر قبضہ، معصوم بچوں کی شہادتیں، نسل کشی، سب کچھ کھلی
آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، مگر نہ کوئی سوال، نہ کوئی مذمت۔ مغربی میڈیا
اور عالمی طاقتیں صرف خاموش تماشائی نہیں، بلکہ اس ظلم کی سیاسی اور سفارتی
ڈھال بنے ہوئے ہیں۔
فلسطین کے علاوہ کشمیر کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی
رپورٹس کھلے عام کہہ چکی ہیں کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی
ہیں، مگر مغربی میڈیا کا کمال دیکھیے کہ وہ بھارت کو آج بھی "دنیا کی سب سے
بڑی جمہوریت" کہنے سے باز نہیں آتا، حالانکہ صحافت کی آزادی کا حال یہ ہے
کہ بھارت پریس فریڈم انڈیکس میں 161ویں نمبر پر کھڑا ہے۔
ایران اور اسرائیل کی حالیہ کشیدگی میں بھی دوہرے معیار کا یہ کھیل کھل کر
سامنے آ گیا۔ اسرائیل کے حملوں کو "دفاع" جبکہ ایران کی مزاحمت کو "جارحیت"
بنا کر پیش کیا گیا، حالانکہ ایران نے جنگی حالات میں بھی میڈیا پر مکمل
قدغن نہیں لگائی، عوام کو اظہارِ رائے کی محدود مگر واضح گنجائش دی، جو خود
مغربی دعووں پر سوالیہ نشان ہے۔
سچ یہ ہے کہ آزادیِ اظہار، جمہوریت اور انسانی حقوق کا کھیل صرف طاقتوروں
کے مفادات تک محدود ہو چکا ہے۔ صحافیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، سچ لکھنے
والوں کو قتل یا جیل میں ڈالا جا رہا ہے، مگر چونکہ یہ سب اُن ممالک میں ہو
رہا ہے جو مغربی اتحادی ہیں، اس لیے دنیا کو نظر نہیں آتا۔
|