ابھی حال ہی میں دنیا بھر میں "اقوام متحدہ چارٹر ڈے"
منایا گیا۔ دیکھا جائے تو دنیا کو درپیش مختلف چیلنجز کے تناظر میں اس وقت
اقوام متحدہ چارٹر کے مقاصد اور اصولوں میں پنہاں بین الاقوامی تعلقات کے
بنیادی اصولوں کی دوبارہ توثیق کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔
آج سے 80 سال قبل، دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی برادری نے متحد ہو
کر اقوام متحدہ کے چارٹر کو اپنایا، جس کے ذریعے ایک ایسے ادارے کی بنیاد
رکھی گئی جو "بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے"، "بین الاقوامی
تعاون کے حصول" اور "بین الاقوامی تنازعات کا پرامن حل نکالنے" کے لیے وقف
ہے۔ یہ اصول بعد از جنگ عالمی نظام کی بنیاد بنے اور عالمی سطح پر تسلیم
کیے گئے۔
آج کی دنیا تبدیلی اور انتشار کے دور سے گزر رہی ہے، اور صدی میں نہ دیکھی
جانے والی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ روس۔یوکرین تنازع ،غزہ میں
انسانی بحران ،حالیہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی سے دنیا میں امن
کو خطرات لاحق ہیں اور دیگر کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے
اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کی ہے ۔
تاہم ،دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے تنازعات اقوام متحدہ چارٹر کے فرسودہ ہونے
کی علامت نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ چارٹر کے اصولوں کو نظر انداز
کیا جا رہا ہے۔ چارٹر کو برقرار رکھنے کے بجائے، بعض بااثر طاقتیں
استعماریت اور یکطرفہ پسندی پر مزید زور دے رہی ہیں، جس سے اس کے اختیار
اور اثر پذیری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس تناظر میں، چارٹر کے اصولوں کا دفاع پہلے سے کہیں زیادہ فوری ہے۔ فروری
میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی سلامتی کونسل کو دی گئی
تنبیہ آج بھی گونج رہی ہے کہ "عالمی یکجہتی اور مسائل کے حل کی ضرورت پہلے
سے کہیں زیادہ ہے۔"
اقوام متحدہ چارٹر کو سراہنے کا مطلب امن کے لیے کثیرالجہتی کے پیچھے متحد
ہونا ہے۔ بین الاقوامی برادری کے لیے لازم ہے وہ اس کی روح کو زندہ رکھے،
دھونس جمانے کی پالیسی کو مسترد کرے اور معروضی، منصفانہ اور معقول آوازوں
کو تقویت دے۔
چارٹر کو برقرار رکھنے کا مطلب ایک زیادہ منصفانہ عالمی نظام ہے۔ دوسری
عالمی جنگ کے بعد کے دور میں، نئے وجود میں آنے والے گلوبل ساوتھ ممالک نے
اقوام متحدہ میں شمولیت اختیار کر کے بین الاقوامی جمہوریت کو نئی زندگی
بخشی۔ آج، بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے تناظر میں، دنیا کو اقوام متحدہ کے
حقیقی مشن پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔اس ضمن میں بین الاقوامی نظام
کو مزید انصاف اور مساوات کی جانب موڑنا، اور ایک ایسا منصفانہ نظام تعمیر
کرنا جو حقیقی معنوں میں ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو پورا کرے ، ناگزیر
ہے۔
ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے حالیہ برسوں میں عالمی گورننس کے حوالے
سے سلسلہ وار انقلابی تجاویز پیش کی ہیں جو دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہی
ہیں۔ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی مشترکہ تعمیر کی وکالت سے لے کر
گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو،گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن
انیشی ایٹو تک ،یہ سب چین کی عالمی فکر اور دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے
لیے چینی دانش کا مظہر ہیں۔
چین کے اہم تصورات جیسے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ، جامع مشاورت، مشترکہ
تعمیر اور مشترکہ فوائد کے اصول، اور اہدافی انسداد غربت کے طریقہ کار کو
اقوام متحدہ کے دستاویزات میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ تجاویز اقوام متحدہ کے
چارٹر کے بنیادی مقصد "بین الاقوامی تعاون کے حصول" سے قریبی ہم آہنگ ہیں،
خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے تقاضوں سے یکسر ہم آہنگ ہیں۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین نے تقریباً تمام بڑی بین الحکومتی تنظیموں
میں شمولیت اختیار کی ہے اور 600 سے زائد بین الاقوامی معاہدوں اور ان میں
ترمیم پر دستخط کیے ہیں، اور ہمیشہ اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کی حمایت کی
ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے چین کو تنظیم کا ایک اہم شراکت دار اور
کثیرالجہتی کو برقرار رکھنے اور عالمی پائیدار ترقی کو فروغ دینے کا ایک
اہم ستون قرار دیا ہے۔
عہد حاضر میں درپیش مسائل کے تناظر میں، بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ
وہ زیادہ عزم کے ساتھ متحد ہو کر چارٹر کے امن، مساوات اور انصاف کے اصولوں
کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کام کرے۔ تاریخی انتشار اور تبدیلیوں کے اس
دور میں،اقوام متحدہ چارٹر انسانی ترقی ،امن و استحکام اور مادی ترقی کے
لیے رہنما اصول بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
|