دنیا میں جب جنگ چھڑتی ہے تو اصول، اخلاقیات اور عالمی
قوانین سب خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اس وقت اسی صورتحال کا شکار
ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ خطے میں جاری کشیدگی نئے سنگین حقائق کو جنم دے
رہی ہے۔ تازہ ترین اور حیران کن انکشاف اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز
نے کیا ہے، جنہوں نے اعتراف کیا کہ حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران
اسرائیل نے ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا
منصوبہ بنایا تھا۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع کے مطابق، 13 جون سے 25 جون 2025 کے دوران جاری بارہ
روزہ جنگ میں اسرائیل کی اولین ترجیح ایرانی قیادت کو کمزور کرنا اور فیصلہ
کن وار کرنا تھا۔ کاتز نے کھلے الفاظ میں کہا کہ "اگر خامنہ ای ہمارے نشانے
پر آ جاتے، تو ہم انہیں ختم کر دیتے۔" لیکن اسرائیلی انٹیلی جنس اور فوج اس
وقت حیران رہ گئی جب خامنہ ای زیرِ زمین چلے گئے اور اپنے تمام اہم کمانڈرز
اور مشیروں سے رابطے مکمل طور پر منقطع کر دیے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل کی اعلیٰ قیادت نے کھلے عام تسلیم کیا کہ جنگ
کے دوران ایران کے سپریم لیڈر کو قتل کرنا ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ مغربی
دنیا اور اسرائیل بظاہر "ریاستی قتل" کو مسترد کرتے ہیں، لیکن جب ان کے
اپنے مفادات خطرے میں پڑتے ہیں تو تمام عالمی اصول اور اخلاقیات کو
نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
کاتز نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کو ایسی کارروائیوں کے لیے امریکہ یا
کسی اور سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایران
اپنے جوہری پروگرام میں پیش رفت کرتا ہے تو اسرائیل کو "گرین سگنل" حاصل ہے
کہ وہ دوبارہ کارروائی کرے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں کہا جا رہا ہے جب امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی
جنگ بندی کو محض چند دن گزرے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل خود کو مظلوم ظاہر کرتا
ہے، دوسری جانب اس کے وزیرِ دفاع کھلے عام دوسرے ملک کے سربراہ کو قتل کرنے
کا اعتراف کرتے ہیں۔
کاتز نے طنزیہ انداز میں خبردار کیا کہ خامنہ ای کو زیرِ زمین رہنے میں ہی
بہتری ہے، جیسا کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ برسوں سے چھپ کر زندگی
گزار رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ محض
میزائلوں اور ڈرونز تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب قیادت کی سطح تک جا پہنچی
ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آئندہ ایسی کوئی کارروائی کامیاب ہو جاتی ہے تو خطے
میں طاقت کا توازن مکمل طور پر بگڑ جائے گا اور دنیا کو اس کے خوفناک نتائج
بھگتنا پڑیں گے۔
ایران نے اس اعتراف پر باضابطہ ردِعمل نہیں دیا، لیکن بظاہر تہران خاموش رہ
کر اس سازش کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر مشرقِ
وسطیٰ کے دن مزید خطرناک اور غیر یقینی دکھائی دے رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ، امریکہ اور یورپی طاقتیں اس کھلے اعتراف
پر کیا ردِعمل دیتی ہیں یا ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ لیکن
اتنا طے ہے کہ جب ایک ریاست خود دوسرے ملک کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کی
منصوبہ بندی کرے اور اس کا کھلے عام اعتراف بھی کرے تو عالمی امن صرف ایک
دکھاوا بن کر رہ جاتا ہے
|