ریاست کی تشکیل کے کوئی مقاصد
ہوتے ہیں اور ان میں سب سے اہم مقصد ملک میں امن و امان کا قیام اور افرادِ
معاشرہ کو بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے ۔اگر ریاست یہ چیزیں فراہم کرنے میں
ناکام ہو جائے تو عوام کے لئے اس کا وجود بے معنی ہو گا ۔اور اس وقت ریاست
میں جو بھی نظامِ حکومت رائج ہو گا اس پر سے عوام کا اعتبار اٹھ جائیگا اور
عوامی نمائندے ریاست و عوام پر حکومت کرنے کا اخلاقی جواز بھی کھو بیٹھیں
گے۔وطن عزیز اس وقت ہمہ جہت زوال کا شکار ہے ۔ہر طرف ظلم و طغیانی کا
دوردورہ ہے۔لوگ بنیادی حقوق اور ضروریات کو ترس رہے ہیں ۔معاشی سرگرمیاں
بند ہو چکیں اور بھوک سے مرتے لوگ اپنے لختِ جگر فروخت کرنے بازاروں میں
نکل پڑے ہیں ۔معاشی تفاوت اتنا کہ
اک طرف عیش میں ڈوبی ہوئی ہے زندگی
دوسری جانب پاﺅں میں جوتا تک نہیں
ملک میں لوڈ شیڈنگ ڈرامہ جاری ہے ۔جس میں ایک ہفتہ کا وقفہ آیا تھا اور اب
پھر شروع ہو چکا ہے ۔موجودہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کی بنیادی وجہ
یہ ہے کہ مشرف حکومت نے ایک میگا واٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی صدر صاحب تو اس
سے بھی زیادہ دور کی کوڑی لائے کہ اصل وجہ یہ ہے کی نواز حکومت نے بی بی
دور کے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو بند کردیا تھا۔مگر انہوں نے یہ نہیں
بتایا کہ موجودہ حکومت گزشتہ تین سالوں سے کیا منجھ دل رہی ہے ؟پنجاب حکومت
بھی بجلی بحران پر احتجاج کر رہی ہے مگر اس نے پنجاب میں کیا گل کھلائے ہیں
؟۔ اس نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے لیئے کیا سنجیدہ اقدامات کئے ہیں؟۔در حقیقت ان
سیاسی لیڈروں کی نالائقی کی وجہ سے ملک ڈرامہ گاہ کا روپ دھار چکا اور
سیاسی فنکار وں نے اپنے اپنے سٹیج سجا لئے ہیں اور اپنی کرسیوں کے تحفظ کے
لیئے ایکا کر لیا ہے اور عوام رڑے پہ کھڑی ہے ۔
اصل بات یہ ملک میں بجلی کے بحران کا سبب معاشی اور انتظامی ہے ۔ اب بھی
ملک میں بیس ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی اہلیت ہے۔ اور عوام
کی ضرورت انیس ہزار میگا واٹ ہے ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ حکومت کہ پاس پاور
جنریشن کمپنیوں کو دینے کے لیئے پیسے نہیں ہیں ایک سو تیس ارب کا سرکولر
ڈیبٹ ہے ۔بات بڑی سادہ ہے اور عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے ۔ سب ایک دوسرے
پہ الزام لگا رہے ہیں ۔پچھلے دنوں جب عوام نے زبردست احتجاج کیا تو لوڈ
شیدنگ ایک دم کیسے ختم ہو گئی؟ بجلی پیدا کرنے کی اہلیت تھی تو پیدا کی گئی
نا! حکومت نے جیسے ہی گیارہ ارب روپے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور پی
ایس او کو دیئے ، پاور جنریشن کمپنیوں نے بجلی پیدا کرنے والے یونٹ چلائے
تو لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی۔ اب وہ گیارہ ارب ختم ہونے کو ہیں اور اگر حکومت
نے متعلقہ اداروں کو مزید پیسے نہ دیئے تو لوڈ شیڈنگ پھر شروع ہو جائے
گی۔عوام تیار رہے ، لوڈ شیڈنگ کے لیئے یا احتجاج کے لیئے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے طفلانہ فیصلے
کیے ہیں ۔ دو چھٹیوں کو ہی لے لیں ۔ کیا یہ تجربہ آپ پہلے نہیں کر چکے؟ کیا
تب لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی تھی؟کیا باون اضافی چھٹیوں سے اس کا خاتمہ ممکن
ہے؟ بلکہ اس سے تو معاشی ترقی کی رفتار مزید کم ہو جائے گی ۔ تجارت کا حجم
کم ہو گا کیونکہ جمعرات اور جمعہ کو عرب ممالک میں چھٹی ہوتی ہے اور ہفتہ
اور اتوار کو یورپین ممالک میں یعنی سات دنوں میں سے چار دن ہم عالمی
مارکیٹ سے کٹ گئے! تجارت کیا خاک ہو گی؟ کابینہ میں پتہ نہیں کون جینیئس
لوگ ہیں جو اس طرح کے فیصلے کرتے ہیں ؟ اور گیلانی صاحب تو پھر ان کے شاہ
ہوئے نا!اور مزید یہ کہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے صوبوں سے مشاورت بھی نہ کی
گئی ، اور دو صوبوں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس سے ایک
وفاقی مملکت کے تصور کو ٹھیس پہنچی اور تماشہ الگ لگا ۔
حکومت کو لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر توجہ کرنی چاہیئے کہ اس کے بغیر تو اب
زندگی کا تصور ناممکن ہے ۔ یہ ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے۔ معاشی ترقی،
تعلیم کا حصول اور پر سکون انسانی زندگی اس کے بغیر اک خواب کے سوا کچھ
نہیں ۔حیرت ہے حکومت کہ پاس پاور جنریشن کمپنیوں کو دینے کے لیئے پیسے نہیں
مگر بی نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیئے بہت رقم ہے ۔ ایوان صدر، ایوان
وزیر اعظم ، ایوان وزراءاعلیٰ کے لئے تو بہت رقم ہے۔ فضول دوروں جن کا کوئی
خاطر خواہ فائدہ نہیں کہ لئے رقم ہے۔سیکرٹ فنڈز ،دیگر عیاشیوں اور ارکانِ
اسمبلی کو کروڑوں کے ترقیاتی فنڈ دینے کے لئے تو پیسے ہیں مگر عوام کو سستی
بجلی فراہم کرنے کے لئے کوئی رقم نہیں ۔ ویسے بائی دی وے ارکان ِ اسمبلی کا
ترقیاتی کاموں سے کیا تعلق ہے ؟ ان کا کام تو قانون سازی کرنا ہے۔ یہ
ترقیاتی کام تو بلدیاتی اداروں کا کام ہے ۔مگر کیا کسی پارٹی نے فنڈز نہ
لینے کی بات کبھی کی ہے ؟ کیوں ؟ کہ سب کا مقصد اور منزل شائد ایک ہی ہے ”
سب مایا ہے“!
سب باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
فرض کریں کہ حکومت کے پاس تمام پاور جنریشن کمپنیوں کو دینے کے لئے پیسے
نہیں پھر بھی اب جو بجلی پیدا ہو رہی ہے وہ چودہ ہزار میگا واٹ ہے جبکہ
عوام کی ضرورت انیس ہزار میگا واٹ ہے یعنی صرف بیس فیصد بجلی کم پیدا ہو
رہی ہے ۔اگر ہم لوڈ شیڈنگ کو پورے ملک میں یکساں طور پہ تقسیم کر دیں تو
چوبیس گھنٹوں میں سے ہر جگہ صرف چار گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو گی۔ ا ایک حل
اور بھی ہو سکتا ہے کہ بڑے شہروں کو سات حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ میں
ہفتہ وار لوڈ شیڈنگ کی جائے ، اسی طرح دیہات اور قصبوں کو بھی یونٹس میں
تبدیل کرکے ہفتہ وار لوڈ شیڈنگ کی جا سکتی اور بھارت میں یہ تجربہ کیا گیا
ہے ۔ مگر یہ تو اک شارٹ ٹرم حل ہے۔ اصل حل یہ ہے کہ سرکلر دیبٹ کو ختم کیا
جائے۔ غیر ضروری اخراجات کو ختم کرکے اس کی رقم ادھر خرچ کی جائے۔ارکان ِ
اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز جو منجمد کیا جائے اور وہ رقم بھی لوڈ شیدنگ کے
خاتمے کے کئے صرف کی جائے ۔سولر انرجی سسٹم کو رواج دیا جائے ،ہوا اور
سمندر کی لہروں سے پچا س ہزار میگا واٹ سے بھی زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی
ہے ۔ کوئلہ سے سو سال تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔نہروں پہ چھوٹے بند بنا کر
ضرورت سے کہیں زیادہ بجلی پیدا کی سکتی ہے۔
عوام کو چاہئے کہ جاگتی رہے اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرے ، صعف بجلی
نہیں بلکہ سستی بجلی کا تقاضہ کرے ۔جب ملک عزیز اپنے وسائل سے سستی بجلی
پیدا کر سکتا تھا اور ہے تو رینٹل پاور سے مہنگی بجلی کیوں لیں ۔ جن مینٹل
لوگوں نے یہ رینٹل پلانٹ لگائے یا لگوائے ہیں انہیں سخت سزا دی جائے ،
سپریم کورٹ بھی اس مسئلے کو جلدی نمٹائے اور عوام کے دکھوں کا مدوا کرے ۔
بجلی کی تانک جھانک سے تنگ آ گئی ہے جاں
ایسا نہ ہو کہ خود ہی پھونک دوں آشیاں کو میں |