مجبور صابر اور تابع شاکر

اسرائیل نے صلح کےلئے شرائط پیش کی ہیں کیا وہ قابل قبول ہیں؟ ایک تجزیہ و تبصرہ
ظلم کمزور، مسکین اور مجبور سہہ لیتا ہے، دل نہیں
جیتتا بلکہ لڑنے کی قوت بڑھا دیتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو تہذیبی و ذہنی بندشیں توڑ دیتا ہے۔ جواب کا ذمے دار ظالم و بےحس معاشرہ دونوں ہوتے ہیں۔ جب قانون بےخبر و بےبس اور عوام ذاتی آزادی و عیش کی فکر میں ہو بس تو ظلم کے خلاف لگی آگ کا دھواں انہیں بھی کھانسنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ اور کبھی بڑھتی بےحسی ہمیں مکمل بھی لپیٹ لیتی ہے
جب ہم گھر میں گھستے ڈاکو
بیٹیاں کھسوٹتے لٹیروں
مال لے جاتے نام نہادوں مردوں کے خلاف ہتھیار ہی نہ رکھتے ہوں تو بعد میں آتی جاتی پولیس اور ادارے ہمارے دلی و مالی نقصان کو ہرجانوں سے پورا نہیں کرسکتیں۔ پیٹ بھر روٹی اور مزید بیٹے یعقوب علیہ السلام کو غم اور بینائی کے زیاں سے نہییں بچا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بالآخر حوصلے سے قدم بہ قدم بڑھتے عرب ظالموں کو جہاد سے روکنے کا حکم ملا۔ جہاد کے وقت مباحثے کہ اغلاط ظلم سہتے پاگلوں کی تھیں یا قصاص کےلئے لڑتے ورثاء کی۔۔ اسی نے سقوط بغداد و غرناطہ کیے، جب خلیفۂ وقت بالآخر قالینوں میں لپیٹ کر ڈنڈے مار مار کر ہلاک کردئیے گئے۔ چنگیزیوں نے خلیفہ کو وعدہ/عہد دیا تھا کہ اس کا خون نہ بہایا جاۓ گا۔ اسے ہلاکو و جانشینوں نے اسی کے دربار کے قیمتی قالینوں میں باہر نکالنے کا یقین دلایا۔ بچا کھچا لوٹا اور پھر قالینوں میں لپیٹ کر ڈنڈوں سے تواضع کرکے باہر نکال دیا۔ جس فرد نے پہلے کسی معاشرتی و اخلاقی ضابطے کو نہ مانتے معصوم و نہتے شہریوں کی جان و مال اور آبرو سے کھیل کر بھی جو بچے، اسے محض لونڈی غلام بنانے کی اجازت دے دی، ان سے رحم کی اپیل کرنے والوں کے ساتھ بھی قدرت منہ موڑ کر عمل کی اجازت دے دیتی ہے۔
قانون قدرت یکساں بےرحم و منصف ہے۔ جب تم بےحس و ظالم ہو تو دوسرے ظالم کے بڑھتے ہاتھ نہ روکے جائیں گے۔ آسمانی مدد لب کشا و درد مند اولیاء و انبیاء کےلئے آتی ہے۔

اجتماعی نقصان ہمیشہ اجتماعی بےحسی سے ہوتا ہے۔ ہر بچے اور ہر لڑکی کےلئے یکساں فکر و دلسوزی ہونی چاہیئے۔

ہاتھ باندھ کر نہ مزدوری کی جاسکتی ہے نہ غلامی۔۔ انگریز مہذب آقا تھا کہ جس نے دماغ بدل ڈالے۔
آزاد انسان کی روح خریدنا بیچنا بہرحال جرم تھا کہ ہم نے عبادت و ریاضت کےلئے ملی ذاتی زندگی بھی عداوتوں کی نذر کی۔ مجبوروں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا اور اللہ نے چنگیزیوں سے لے کر آج تک کسی ظالم کی حکومت کو بھی دوام نہ بخشا۔ روم اب اٹلی تک محدود اور کبھی عالمی طاقت نہ بنتا لگتا ہے۔ چنگیزیوں کی تو کوئی جگہ، ٹھکانہ ہی نہیں، حکومتیں اور عزتیں بالآخر منصفوں کو ہی ملتی ہیں۔

یہ سوچیں ابھریں کہ جنگ پڑھا اور چینلز پر سنا کہ
اسرائیل نے کہا ہے کہ حماس غزہ سے مکمل لاتعلقی و ہتھیار نہ رکھنے کا اعلان کرے تو جنگ بندی مستقل ہوسکتی ہے۔
اسرائیل یہ تعین کیسے کرسکے گا کہ شرائط مانی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جیسے بھارت کشمیر پر نظر رکھے ہوۓ ہے۔ اول تو حماس کے ان مضحکہ خیز شرائط پر سرجھکانا ہی ناممکن العمل نظر آتا ہے۔ پھر غزہ پر حکومت اسرائیل کے منظورِ نظر افراد کی ہو۔۔۔ یہ بھی جمہوری آزادی کے خلاف ہے۔
اسرائیل کی شرائط عالمی دباؤ کے نتیجے میں پیش کی جارہی ہیں، تاکہ کوئی اسے امریکہ کا بگڑا بیٹا یا پالتو غنڈہ نہ کہہ سکیں۔
لیکن یہاں یاد رکھنے کی بات ہے کہ ایک بوڑھی ایک ہفتے قبل مری فنکارہ ہو یا نو ماہ پہلے بدترین ظلم کے بعد قتل کی گئی کوئی خاتون ہو، اس کے کرب میں مبتلا عوام کو فلسطین و کشمیر میں آۓ روز ایسے مظالم پر ایسا درد کیوں نہیں اٹھتا؟
بےشک، گھر کے افراد سے دلی لگاؤ ہوتا ہے لیکن افغان جنگ ہو یا سرحدوں پر تعینات فوج۔۔ ان سے نفرت کرنے والی عوام کی سوچیں اتنی دو راۓ و بےحسی کیوں لئے ہوۓ ہیں؟
ہم مددگار حکومت و سپاہ نہیں بن سکتے لیکن کم ازکم حق کےلئے آواز و ساتھ ہی دے سکیں تو رب شاید ظلم کے اگلے راؤنڈ سے ہمیں نکلوا کر بہادر سرفروشوں میں لکھ کر ہماری دنیا و آخرت سنوار دے۔


 

Arshia Ahsan
About the Author: Arshia Ahsan Read More Articles by Arshia Ahsan: 6 Articles with 3558 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.