بوڑھے پنشنر نے پنشن نہ ملنے
کیخلاف احتجاجاً جان دے دی تو حکمرانوں کو پنشن دینے کاخیال آیا۔ وہ مفلوک
الحال جو گلے میں پھندے اور منہ میں خشک روٹیاں لٹکائے ماتم کر رہے تھے اور
ان کی کہیں شنوائی نہ تھی انہیں بینکوں کے باہر کرسیوں پر بٹھا کر پنشن کی
رقم فراہم کردی گئی۔احتجاج کرنے والوں کو سبق ملا کہ اس نظام حکومت میں موت
سے ہمکنار ہو کر ہی کوئی آواز ایوان اقتدار تک پہنچائی جاسکتی ہے۔
سندھ کے 32سالہ نوجوان راجا خان رند نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے خودسوزی
کی۔تنگدستی کیخلاف اس کا احتجاج خودسوزی پر ختم ہوا۔ لاش اٹھی توحکمرانوں
کو خیال آیا کہ سیاسی مخالفین اس جنازے کو استعمال کریں گے لہٰذا اسی وقت
حکومتی حکمت عملی حرکت میں آئی۔ سید خورشید شاہ نے سوختہ شخص کے بھائی اور
باپ کو ایئر ٹکٹ فراہم کئے۔تجہیز وتکفین کا خرچہ دیا اور بیوہ اور بچوں کی
داد رسی کا اعلان کر ڈالا۔ سندھ کے ہر نوجوان کو یہ پیغام ملا کہ اپنے بچوں
کو دو وقت کی روٹی دینے کے لئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے خودسوزی ہی موثر
راستہ ہے۔
یہ کیسا سیاسی اور عوامی کلچر ہے کہ انتہائی جائز مطالبہ منوانے کے لئے بھی
مینار پاکستان سے چھلانگ لگانی پڑتی ہے‘واپڈا کے دفاتر توڑنے پڑتے
ہیں‘ایجوکیشنل بورڈ کا ریکارڈ جلانا پڑتا ہے۔ اپنی جان لینی پڑتی ہے۔ گھیراﺅ
اور جلاﺅ اب اس سماج کا عمومی رویہ بن گیا ہے۔ احتجاج احتجاج۔ احتجاجی
طریقہ کار اس قدر معروف اور مقبول ہوا ہے کہ ہر شخص ‘ہر کمیونٹی ‘ ہر ادارہ
سال کے بارہ ماہ احتجاجی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔ آج کا پاکستانی چاہے اس
کا تعلق کسی مسلک‘صوبے‘زبان ‘پیشہ اور کاروبار سے ہو وہ ہر وقت اور ہرلمحہ
احتجاج پر تیار ہے بلکہ مجبور ہے۔
حکمران طبقہ بھی جان بوجھ کر سویا رہتا ہے اور معاملات کو اس وقت تک ٹالتا
رہتا ہے جب تک بات چیت تہذیب اور دلیل کے دائرے سے نکل کر احتجاج اور
انتقام تک نہیں پہنچ جاتی۔اگرکوئی ٹی وی چینل دکھا سکے تو دیکھا جاسکتا ہے
کہ پاکستان میں کوئی ایک روز شائد عید کا روز بھی ایسا نہ ہو جس دن پاکستان
کے کسی نہ کسی حصے میں احتجاج نہ ہورہا ہو۔
لوگوں کو سڑکوں پر لانا شائد اب سب سے آسان کام رہ گیا ہے۔حکمران طبقہ کے
کرتوتوں میں ایک کرتوت یہ بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے
عوام کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دیتے ہیں اور چونکہ عوام کے پاس کرنے کو کچھ
ہے ہی نہیں‘وہ بھی وقت گزاری اور تماش بینی کے لئے ان کے جلسے جلوسوں کو
رونق بخشتے ہیں۔ جلسوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بے روزگاروں کی عزت اور
توقیر بڑھ جاتی ہے۔مختلف لیڈر اور پارٹیاں بے روزگاروں تک پہنچتی ہیں اور
انہیں اپنا ”کارکن“ بننے پر آمادہ کرتی ہیں۔ کسی بے روزگار سے پوچھ لیں وہ
کسی نہ کسی سیاسی جتھے کا کارکن ضرور ہوگا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ احتجاجی
سیاست نے اس ملک کے کروڑوں بے روزگاروں اور بھوکوں کو جز وقتی مصروفیت ضرور
دے دی ہے۔ نفری پوری کرنے کے لئے سروں کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان میں
انسانوں کی کمی نہیں۔ ماشاءاللہ ہر روز ہزاروں نہیں لاکھوں پیدا ہوتے
ہیں۔خدا خیرے کرے!
تحریک انصاف نے گوجرانوالہ میں بے روزگار نوجوانوں کا جم غفیر اکٹھا کیا تو
ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔ ن لیگ کو اپنے گڑھ میں گڑبڑ دکھائی دی اور اب
(ن) لیگ ”گو زرداری گو“ کی تحریک شروع کرچکی ہے جو کہ بہرحال احتجاجی
ہے۔میاں نوازشریف نے ٹرکوں پر امدادی سامان سجایا اور سندھ کے ڈبکیاں کھاتے
ہاری ان کے استقبال کو ٹوٹ پڑے۔ پیپلزپارٹی کو فکر لاحق ہوئی۔ موت اور
زندگی اللہ کے ہاتھ میں لیکن ”مادرجمہوریت“ کی موت نے جناب زرداری اور ان
کی پارٹی کو بہرحال سکھ کے چند دن عطا کردیئے۔کسی نے سچ کہا کہ”ماواں
ٹھنڈیاں چھاواں“۔(ق) لیگ والوں نے عدالت سے بری ہونے والے اپنے نوجوان
رہنما کا اتنا بڑا استقبال کیا کہ جلسہ پنجاب حکومت کیخلاف احتجاج کا بہت
بڑا مظاہرہ ہوگیا۔
احتجاج‘جلسہ‘ جلوس‘ریلی‘ دھرنا اور مارچ کے لئے پاکستان کی زمین انتہائی
زرخیز ہے۔چلچلاتی دھوپ ہو یا جاڑے کی ٹھنڈ۔ کوئی موسمی رکاوٹ احتجاج کا
راستہ روک نہیں سکتی۔ دلوں میں نفرت‘اکتاہٹ اور انتقام کی سلگتی آگ پر
حکمرانوں کی کرپشن‘نااہلی اور بدعنوانی تیل انڈیلتی رہتی ہے۔آج کل تو موسم
ویسے ہی مہربان ہے۔ خوبصورت دھوپ میں جسم گرمانے کو خواہ مخواہ جی چاہ رہا
ہوتا ہے۔اب بھی اگر میاں برادران لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر نہ لا سکیں تواس
کا مطلب ہوگا کہ عوام کوئی نیا تماشا دیکھناچاہتے ہیں ویسے جناب زرداری نے
تو ہر وہ اقدام اٹھا دیا جس نے لوگوں کو اس نظام سے متنفر کردیا ہے۔ |