اپنے خون آلود چہرے اور آنکھوں
میں آئے خون کو کپکپاتے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے چالیس سال تک لیبیا کے در
و دیوار پر مطلق العنان حکومت کا دعویٰ کرنے اور ہرلیبیائی باشندے کی زندگی
اور موت کا فیصلہ کرنے والے جنونی آمر معمر قذافی کو یقینا انقلابیوں کے
ہاتھوں گرفتا ر ہونے سے لے کر مرنے تک اپنے ماضی کے کارہائے نمایاں یاد آئے
ہوں گے اور اس نے انقلابیوں سے گڑگڑا کر اسی طرح سے معافی مانگی ہوگی جس
طرح سے معصوم و بے کس لیبیائی باشندے معمر قذافی کے سامنے اپنی اور اپنے
پیاروں کی اس کے اقتدار اور بلاشرکت غیر بادشاہت کے صدقے میں زندگیوں کی
بھیک مانگا کرتے تھے ۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات جو یقینا اسے اللہ رب
العزت نے انقلابیوں کے ذریعے اسی لیے دیے کہ وہ اپنے ان آخری لمحات میں
اپنے گناہوں کو یاد کر سکے اور یہ حقیقت جان لے کہ اصل مطلق العنان بادشاہت
صرف اللہ عزوجل نے اپنے پاس رکھی ہے اور جو انسان اقتدار میں آ کر خود کو
رعایا کے جان و مال کا محافظ سمجھنے کے بجائے عوام کے روز و شب کا مالک بن
بیٹھتا ہے اللہ تعالٰی اسے دنیا میں انتہائی حقیر موت سے نوازتا ہے ۔
یقینا معمر قذافی کو بھی اپنی موت سامنے دیکھ کر اور انقلابیوں کے” اللہ
اکبر اللہ اکبر “ کے فلک شگاف نعرے سن کر رہ رہ کر یہ خیال ستا یا ہوگا کہ
کاش میں اپنے جنگی جنون پر قابو پا لیتا اورلاکھوں لیبیائی باشندوں پر
ہوائی جہازوں اور ٹنکوں سے گولہ باری نہ کی ہوتی تو آج یہی عوام میرے اور
میرے اہل خانہ کے خون کے پیاسے ہونے کے بجائے اپنے خون سے میرے اقتدار، جان
و مال اور اولاد کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ۔یہاں ہم
یہ بتاتے چلیں کہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق معمر قذافی نے اپنی
حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے افراد میں سے چھ ہزار سے زائد کو افریقی
کرائے کے قاتلوں سے قتل کروا دیا تھا اور پانچ ہزار سے زائد افراد وہ تھے
جن کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا حتی کہ ان میں سے کئی افراد کو زندہ
جلا دیا گیا ۔
معمر قذافی نے یقینا یہ سوچا ہوگا کہ کاش میں اپنی ہی دعوت پر بلائے لبنانی
عوام اور امت مسلمہ کی ہر دلعزیز شخصیت امام موسی الصدر کو چند اختلافی
امور پردنیا کی نظروں سے اوجھل نہ کرتا بلکہ اپنے سے زیادہ عز و شرف رکھنے
والے مسلم لیڈرامام موسی الصدر کی بات کو من و عن تسلیم کرتا اور امت مسلمہ
کے لیے ان کے خیر سگالی کے جذبے کی عملداری اور فروغ کے لیے ایک ادنی سپاہی
کی طرح کام کرتا نہ کہ ان کو زد وکوب کرنے اور ان کوتکالیف دینے میں مغربی
استعماری طاقتوں کا آلہ کار بنتا ۔ یاد رہے کہ امام موسی الصدر کو لاپتہ
ہوئے 33 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور تادم تحریر ان کے بارے میں
صحیح طور معلومات نہیں مل سکی ہیں کہ آیا انھیں معمر قذافی نے قتل کروا دیا
تھا یا لیبیا کے کسی دور افتادہ علاقے میںپابند سلاسل رکھا ہوا تھا۔امام
موسی صدر نے 1978 میں عرب ممالک کا دورہ کیا تھا۔ ان اس کے دورے کو میڈیا
نے غیر معمولی طور پر سنسر کیاتھا جو اس بات کا پیش خیمہ تھا کہ یقینا
مغربی استعمار اپنے ہر دلعزیز ہرکارے معمر قذافی کے ساتھ امام موسی الصدر
کے خلاف گھناؤنی سازش تیار کر چکے ہیں ۔ ہمارے خیال میں معمر قذافی کے بڑے
بڑے جنگی جرائم میں امام الصدر جیسی عالمی شہرت یافتہ شخصیت کو لاپتہ کرنے
کا جرم سرفہرست ہے۔
مرتے مرتے اس کے مفقود ذہن میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کی
جانب سے کی گئی بارہا اپیلیں گونج رہی ہوں گی کہ وہ اپنے ہی عوام کے ساتھ
خون کی ہولی نہ کھیلے ۔معمر قذافی کویورپی یونین کے ان ستائیس ممالک کی
جانب سے بھی کی گئی رحم کی اپیل ضرور یاد آئی ہو گی جو اسے انسانیت کے ناتے
یہ درخواست کر رہے تھے کہ وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اپنے ہی
عوام کی نسل کشی نہ کرے ۔ اسے برطانیہ، فن لینڈ، ترکی اور روس جیسے ممالک
کی جانب سے بھی کی گئی ہمدردی کی اپیلیں بہت یاد آئی ہوں گی جب اپنی زندگی
کے آخری لمحات میں کوئی اس کی رحم کی اپیل سننے والانہیں تھا۔
معمر قذافی کو اپنی ہی سرزمین پر قیدی بنے ہوئے یقیناًتڑپتے بلکتے فلسطینی
بھی بہت یاد آئے ہوں گے جو صہیونی درندوں سے اپنی آزادی کی تحریک لڑ رہے
ہیں ۔ان فلسطینیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے اس نے ”اسراطین “ بنانے
کی سفارش کی تھی تاکہ اپنے مغربی استعماری آقاؤں کو خوش کرسکے اور اپنی
بادشاہت کو مزید استحکام دے سکے۔ ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ اسراطین
کے شروع کے الفاظ اسرائیل سے لیے گئے ہیں اور بعد کے الفاظ فلسطین سے
مستعار کیے گئے ہیں۔
یقیناً معمر قذافی کوپکڑے جانے کے بعد سے مرنے تک بہت کم وقت ملا ہوگا اور
وہ انقلابیوں سے رو رو کر، بلک بلک کر فریاد کر رہا ہوگا کہ میں نے اپنے
چالیس سالہ دور آمریت میں ہر روز ظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی
مجھے اپنے کیے ہوئے ظلم و جبر تو یاد کر لینے دو مگر انقلابیوں نے اسے واصل
جہنم کردیا اور جب اس کے سینے میں گولیاں اتاری جارہی ہوں گی تو وہ یقیناً
چیخ چیخ کر اپنے جیسے آمروں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہو گا کہ بادشاہی صرف
اللہ عزوجل کی ہے وہ جسے چاہتا ہے بے حساب نوازتا ہے ہر پل اس کا صد شکر
کرنا چاہئے اور اپنی رعیت کے بارے جوابدہی کے لیے تیار رہنا چاہئے مگر اس
کی آواز یقینا اس کے گلے میں ہی دب گئی ہوگی اور وہ اس بے بسی میں مارا گیا
کہ وہ اپنی قبیل کے دیگر آمروں کو نصیحت نہ کر سکا کہ وہ بھی اللہ تعالٰی
کے غضب سے ڈریں اور اپنے عوام کا جینا محال نہ کریں ورنہ وہ قادر مطلق کبھی
ایک چھوٹے سے مچھر کے ذریعے سے تو کبھی چند انقلابیوں کے ذریعے سے آمروں کو
انتہائی ذلیل موت عطا کرتا ہے۔ |