مفادات کی سیاست کب تک ؟

سیاسی جماعتیں خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں ہمیشہ عوام کو سنہری خواب دکھا کر بیوقوف بناتی ہیں ہر سیاسی جماعت انتخابات کے دنوں میں گھر گھر جا کر عوام کیساتھ وعدے کرتی ہے اس بار خدا کیلئے ووٹ ہمیں دیں ہم الیکشن جیت کر آپ کے سارے مسائل آپ کی دہلیز پر حل کریں گے انتخابی مہم کے دوران حلقوں کے چکر پہ چکر لگائے جاتے ہیں اور انتخابات کے بعد جو جیت جاتے ہیں وہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر عوام کو بھول جاتے ہیں کیونکہ ان کو کرسی ہی عزیز ہے عوام تو ملتی رہے گی اگلے انتخابات میں شاید کرسی نہ ملے اس لیے کرسی سے چمٹ جاتے ہیں اور جو جماعت ہار جاتی اس کا نمائندہ امید وار برائے ایم این اے یا ایم پی اے حلقے میں واویلا کرتا رہتا ہے یا عوام سے منہ چھپائے پھرتا ہے کیونکہ اس کے پاس سوائے واویلے کے کچھ نہیں رہ جاتا ہاں ہارے ہوئے عوام کو تسلیاں ضرور دیتے ہیں کہ اگر پھر ہم جیتے تو موجودہ حکومت مسائل حل نہیں کر رہی ہم اسے حل کریں گے اور اگر وہ بھی ایوانوں تک پہنچ جائیں تو ان کی حالت بھی وہی ہو جاتی ہے کرسی کے ساتھ چمٹ کر سب کی ہوتی ہے ۔

خوشحال گڑھ تلہ گنگ ضلع چکوال میں واقع ہے ایک ایسا گاﺅں جس کے بارے میں معروف ہے کہ ( نعوذ باللہ ) خدا سے چھپا ہوا ہے ہاں خدا سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی مگر کم از کم سیاستدانوں سے ضرور چھپا ہوا ہے خوشحال گڑھ کی آبادی 10ہزار کے لگ بھگ ہے 2000کے قریب رجسٹرڈ ووٹ ہیں اور ہر الیکشن میںخواہ وہ بلدیاتی ہو یا وفاقی و صوبائی یونین کونسل کوٹ گلہ میں سب سے زیادہ ووٹ خوشحال گڑھ میں پول ہوتے ہیں اور پولنگ سٹیشن کبھی کبھار جنگ کا منظر بھی پیش کرنے لگ جاتے ہیں آپس میں رشتہ دار مگر سیاست نے اپنوں کو اپنوں سے دور کر دیا ووٹ لینے کیلئے آتے ہیں سرداران ٹمن مگر لڑتے خوشحال گڑھ کے آپس میں رشتے دار ہیں حالانکہ ان امید واروں کیساتھ کسی کا کوئی خون کا رشتہ نہیں اتنی زیادہ دوستی بھی نہیں اور وہ سرداران ٹمن ان کو اتنا قابل اعتماد بھی نہیں سمجھتے کہ چلو انکا کوئی مسئلہ حل کر دیں اس کے باوجود ضد اور انا بنا کر ان کی خاطر ایک ہی گاﺅں کے لوگ لڑائیاں مول لیتے ہیں۔

خوشحال گڑھ ایک ایسا گاﺅں ہے جہاں کے باسی آج بھی لوڈ شیڈنگ کے چکر سے آزاد ہیں کیونکہ جہاں بجلی ہو ہی نہ وہاں لوڈ شیڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میرے کوئی دوست جب مجھ سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا رونا روتے ہیں تو میں انہیں مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ خوشحال گڑھ چلے جائیں وہاں نہ بجلی نہ لوڈ شیڈنگ سخت گرمی میں اپنی انرجی استعمال کرتے ہوئے ہاتھ والے پنکھے استعمال کرو اور مزے کرو ، میرے کئی دوست سوال کرتے ہیں کہ ایسی کونسی جگہ ہے جہاں بجلی نہیں تو میں جواب دیتا ہوں یقین نہ آئے تو کبھی خوشحال گڑھ جا کر دیکھ لو پتہ چل جائے گا ، خیر خوشحال گڑھ آج بھی بجلی سے محرو م ہے اور محرومی کی وجہ کچھ اپنے اور کچھ پرائے بھی ہیں اپنوں میں مقامی سیاسی لیڈر جو الیکشن کے دنوں میں سب سے آگے ہوتے ہیں ہر کسی کے دروازے پر جا کر دستک دیتے ہیں اور الیکشن کی آخری دو راتیں تو کئی لوگوں کو سونے نہیں دیتے صرف ایک پرچی کی خاطر ان لیڈروں سے خوشحال گڑھ کی عوام سوال کرتی ہے کہ ہمارے مسائل کس نے حل کرنے ہیں؟مقامی لوگوں کی پہنچ انہی مقامی لیڈروں تک ہے ا ب دو چار سال قبل علاقے میں نوجوان نسل میں کچھ شعور آیا ہے کہ خوشحال گڑھ کے مقامی لیڈر ان سلطان مفادات کی سیاست میں عوام کو بیوقوف بناتے ہیں چھوٹے چھوٹے مسائل کیلئے عوام ان کے دروازوں پر جاتی اور وہ آگے ان کے مسئلے حل کرواتے حتیٰ کہ تھانے کچہری میں بھی عوام ان کے بغیر نہ جاتے مگر اب حالات بدل چکے ہیں اپنی محرومیوں کا تصور ذہن میں لا کر نوجوان نسل جس نے پہلے بیدار ہونا تھا اب بیدار ہو چکی ہے مگر ابھی تک جس طرح انہیں کام کرنا تھا جس منزل پر پہنچنا تھا نہیں پہنچی ۔ مقامی لیڈران سلطان جو اپنے علاقے کی عوام کے ساتھ زیادتیاں کررہے تھے ان کی باری ختم ہونے والی ہے دوسرے اس علاقے کی محرومیوں کے ذمہ دار وہ لوگ ہیںجو الیکشن لڑتے ہیں اور اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں یا پھر وہ گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اسمبلیوں میں پہنچنے والے مہینے میں چار دن اپنی رہائشگاہ پر آتے ہیں باقی 26دن لاہور یا اسلام آباد گزارتے ہیں ان چار دنوں میں انہوں نے پورے حلقے کے مسائل سننے اور احکامات جاری کرنے ہوتے ہیں اتنے بڑے حلقے کیلئے ان کے صرف چار دن ، ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ کرسی ملنے کے بعد حلقے کی فکر اور وہ وعدے جو عوام سے کیے تھے وہ سارے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

سابق آمر مشرف کے مارشل لاءکے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں سردارفیض ٹمن جو آج کل حلقہ سے غائب ہیں اور سوشل ویب سائٹ فیس بک پر انہوں نے میسج چھوڑ ا ہے عوام سے رائے لینے کیلئے کہ تحریک انصاف میں شمولیت کیسی رہے گی عوام اپنی رائے ان کو دے رہے ہیں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خوشحال گڑھ کو تمام سہولیات فراہم کریں گے پچھلے پانچ سالوں میں انہوں نے ایک روپیہ بھی اس گاﺅں پر خرچ نہیں کیا اب ایسا نہیں ہوگا ابھی انکا وعدہ پورہ ہی نہیں ہوا تھا کہ موصو ف اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے بیٹھے ان کے بعد جناب کے ماموں جان آگئے جنہوں نے الیکشن مہم میں بابا لعل خا ن طورے خیل خیل کے گھر انتخابی جلسہ میں شرکت اپنی توہین سمجھی ذرائع بتلاتے ہیں کہ ان کے ایم این اے بننے کے بعد جب خوشحال گڑھ کے کچھ لوگ کسی کام کے سلسلے میں (ن) میں سودا کر کے سیٹ لینے والے ایم این اے سردار ٹمن کے پاس گئے تو انہوں نے صاف جواب دیا کہ تم لوگ کس منہ سے میری پاس آتے ہو تم سے ووٹ مانگنے نہیں گیا بلکہ تمہارے جلسے میں بھی نہیں گیا اب جناب سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ خوشحال گڑھ میں بجلی کا ایک کھمبا لگوا دیں البتہ اپنے بھانجے کی طرح شکار کھیلنے وہ خوشحال گڑھ ضرورجاتے ہیں مگر اہلیان خوشحال گڑھ کی محرومیاں دور کرنا ان کے بس کی بات نہیں ۔

خوشحال گڑھ کی محرومیوں کا ذکر کیا جائے تو تمام سیاستدانوں خواہ وہ فیض ٹمن ہوں یا منصور ٹمن، ممتاز ٹمن ہوں یا کرنل (ر)سرخرو، ملک ظہور انور ہوں یا ملک سلیم اقبال ، سردار غلام عباس ہوں یا امجد الیاس ، ملک اسد کوٹ گلہ ہوں یا ملک عظمت کوٹ گلہ کس کس کے نام گنواﺅں ؟ کالم صرف ناموں سے بھر جائے گا سب نے ایک سے بڑھ کر ایک اہلیان خوشحال گڑھ کے ساتھ زیادتی کی آخر کیوں ؟ کوٹ گلہ شہر میں پکی گلیوں کو توڑ کر دوبارہ سے گلیوں کو پختہ کیا گیا مگر ان ناظمین کو خوشحال گڑھ کی گلیاں پختہ کروانا یاد نہیں آئیں خوشحال گڑھ میں قائم سرکاری ہسپتال جس کی بلڈنگ خستہ ہال ہو چکی ہے صرف ایک ڈاکٹر ڈیوٹی دے رہا ہے باقی کوئی عملہ نہیں، گرلز سکول کی عمارت منہدم ہو چکی ہے ، بوائز سکول ہے تو وہاں تعلیم کا معیار یہ ہے کہ سکول کے انچارج کو پہلی کلاس کی انگلش نہیں آتی ایسے استاد کیا بچوں کو پڑھائیں گے؟ حکومت پنجاب تعلیم کے محکمے میں دعوے تو بہت کر رہی ہے مگر عملاً کچھ نہیں اور اسکی واضح مثال اس پسماندہ علاقے کا سکول ہے جہاں سردی گرمی میں بچے زمین پر بیٹھ کر اب پڑھتے ہیں اگر سکول میں کوئی مہمان آجائیں تو گاﺅں سے کرسیاں ادھار مانگنی پڑتی ہیں خوشحال گڑھ سے شاہ محمد والی ، ملتان خورو، صادق آباد جانے والی تمام سڑکیں کچی ہیں کسی لیڈر کو بھی پختہ کروانے کی زحمت نہیں ہوئی یہاں میں کس کس چیز کا رونا اور کس کس کس کے سامنے روﺅں یہاں سارے مفادات کیلئے آتے ہیں اور عوام کو الو بنا کر چل پڑتے ہیں آج تک کوئی لیڈر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے خوشحال گڑھ میں ایک روپے کا بھی ترقیاتی کام کروایا ہے یا اس نے ان کی محرومیاں دور کرنے کی کوشش کی ہے ہاں قاضی ظہور انور نے بوائز پرائمری سکول کو اپ گریڈ کروا کر مڈل کروایا مگر ابھی تک کلاسوں کا آغاز نہیں ہوا ان کا یہ عظیم احسان خوشحال گڑھ کے لوگوں کی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی اور ان کا یہ کارنامہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا ان کے علاوہ کوئی بھی لیڈر خواہ وہ مقامی ہوں یا غیر مثالی خوشحال گڑھ میں کسی نے بھی کچھ نہیں کروایا صرف وعدے کیے اور زرداری کی طرح مکرتے گئے ۔

خوشحال گڑھ کا نوجوان طبقہ احساس محرومی کی وجہ سے اب بیدار ہوچکا ہے اب خوشحال گڑھ میں کسی مفاد پر ست ، ڈاکو ، لٹیرے کیلئے کوئی جگہ نہیں ، اب آئندہ انتخابات میں سیاستدانوں کو بھی ان کا گریبانی دکھایا جائے گا کہ پہلے اپنا گریبان دیکھ پھر خوشحال گڑھ کی عوام کی طرف نظر کرنا جنہوں نے اس علاقے کیلئے کچھ نہیں کیا اب خوشحال گڑھ کی نوجوان نسل سے استدعا ہے کہ خدا کیلئے ایسے مفاد پرستوں کو مسترد کریں اپنے علاقے میں نہ گھسنے دیںتا وقتیکہ مسائل حل نہیں کرتے اب خوشحال گڑھ کے نوجوانوں کا دوست وہ ہے جو ان کا احسا س محرومی دور کرے گا اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر آئندہ الیکشن میں فرشتے آکر ووٹ پول کریں گے سیاسی امید وار وہاں سے جیتیں گے شرم کا مقام ہے ان مقامی لیڈروں کیلئے بھی جو ہر اتوار ان کے دروازوں پر دستک بجانا عبادت سمجھتے ہیں مگر علاقے کیلئے کچھ نہ کیا ۔
Mumtaz Haider
About the Author: Mumtaz Haider Read More Articles by Mumtaz Haider: 88 Articles with 63850 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.