ایک رخ یہ بھی ہے "قذافی" کی تصویر کا

السلام علیکم
لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ خصوصا اسلام دشمن طاقتوں اور عالم اسلام میں عدم استحکام پیدا کرنے والے سرگرم عناصر کے زیر اثر ذرائع ابلاغ نے معمر قذافی کو ایک ظالم آمر کے طور پر پیش کیا اور بطور حکمران اس کی تصویر کا ایک ہی رخ، جھوٹا یا سچا، لوگوں کو دکھایا۔ انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے مغربی ذرائع ابلاغ کسی کےبوقت مرگ یا بعد از مرگ تصاویر کی اشاعت کو غیر انسانی عمل قرار دیتے ہیں مگر معمر قذافی کے آخری لمحات اور قتل کے بعد کی تصاویر کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ ابلاغ کے تمام ذرائع پر پیش کیا تا کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو عبرت حاصل ہو کہ مغرب کو للکارنے والے مسلم حکمرانوں کا ہم یہ انجام کریں گے۔

معمر قذافی کوئی مثالی حکمران نہیں تھا۔ اگر اس کا طرزِ حکومت آمرانہ تھا اور سیاسی مخالفین اور ناقدین کے لیے اس کے ملک میں کوئی معافی اور جائے پناہ نہیں تھی،جس کے بارے میں اس ملک کے شہری ہی زیادہ بہتر معلومات رکھتے ہیں،تو دوسری طرف اس نے اپنے ملک کے عوام کے لیے مثالی کام بھی کیے اور اس کو سہولیات کے اعتبار سے کسی حد تک فلاحی مملکت بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا سیاسی طرزِ عمل قابل تنقید اور غیر اسلامی ضرور ہوگا مگر ملکی اور عوامی ترقی کے لیےاس کی کوششوں پر مبنی اس کی تصویر کا دوسرا رخ بھی سب کے سامنے رکھنا چاہیے ۔ صرف برائی کا ذکر کرنا نا انصافی ہوگی۔ بلکہ کسی مرنے والے کے بارے میں کلماتِ بد کہنا اسلامی معیارِ اخلاق کے منافی ہے۔ آئیے ذرا قذافی کی تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھتے ہیں۔

۱۔لیبیا کے شہریوں کے لیے بجلی بلا معاوضہ فراہم کی جاتی تھی۔ پاکستان کے عوام کو اس سہولت کی وجہ سے لیبیا جنت کے مصداق محسوس ہوگا۔
۲۔تمام بینک حکومت کی ملکیت تھے جو کسی بھی شخص کو بلا سود قرض فراہم کرتے تھے۔ کیا پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت میں ہم اس کا تصور کر سکتے ہیں؟
۳۔ہر خاندان کو گھر فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔قذافی کے نزدیک اس کے اپنے والدین کسی مکان کے مستحق نہیں ہیں جب تک کہ لیبیا میں ہر شخص کو مکان نہ مل جائے۔
۴۔ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو ۶۰،۰۰۰ہزار دینار یعنی ۵۰،۰۰۰ امریکی ڈالر دیے جاتے تھے تاکہ وہ ایک نئے مکان میں نئی زندگی کا آغاز کر سکیں۔
۵۔تعلیم اور علاج کی سہولتیں بلا معاوضہ ہر شہری کو فراہم کی جاتی تھیں۔ قذافی سے پہلے صرف ۲۵ فیصد شہری تعلیم یافتہ تھے جب کہ اب یہ شرح ۸۳ فیصد ہے۔
۶۔جو شہری کاشتکاری کرنا چاہتا اس کو زرعی زمین، عمارت، زرعی آلات، بیج اور مویشی بلا معاوضہ فراہم کیے جاتے۔
۷۔جو شہری لیبیا میں اپنی خواہش یا ضرورت کے مطابق ملک میں متعلقہ سہولت حاصل نہیں کرپاتا تھا اس کو حکومت بیرونِ ملک بلا معاوضہ جانے کی سہولت فراہم کرنے ساتھ ساتھ ماہانہ بنیادوں پر ۲،۳۰۰امریکی ڈالررہائش اور سواری کے لیے وظیفہ کے طور پر دیتی تھی۔
۸۔ اگر کوئی شہری لیبیا میں کار خریدنا چاہتا حکومت اس کو کار کی قیمت میں ۵۰ فیصد رعایت دیتی تھی۔
۹۔لیبیا میں پٹرول کی قیمت صرف ۱۴ سینٹ فی لٹر تھی۔
۱۰۔لیبیا پر کوئی قرض نہیں تھا جبکہ اس کے نقدمحفوظ اثاثے۱۵۰ بلین امریکی ڈالر تھے جو اب عالمی سطح پر منجمد کردیے گئے ہیں۔
۱۱۔اگر کوئی شہری تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہتا تو حکومت اس شہری کو اس کے لیے مناسب ملازمت کی نسبت سے اوسط تنخواہ کے برابر وظیفہ دیتی تھی تا وقتیکہ وہ ملازمت حاصل نہ کر لے۔
۱۲۔لیبیا اپنے تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ اپنے ہر شہری کے بینک اکاونٹ میں جمع کرواتا تھا۔
۱۳۔ہر بچے کی پیدائش پر اس کی والدہ کو ۵۰۰۰ڈالر دیے جاتے تھے۔
۱۴۔لیبیا کے۲۵ فیصد شہری جامعہ کی سطح کی سند رکھتے تھے۔
۱۵۔قذافی نے دنیا میں سب سے بڑا آبپاشی کا منصوبہ تعمیر کروایا جو عظیم مصنوعی دریا کا منصوبہ کہلاتا ہے تا کہ اس صحرائی مملکت میں پانی کی مسلسل فراہمی جاری رہے۔

موجودہ تحریک کے نتیجے میں ملک کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا ہے۔ نہ معلوم اب یہ کب واپس اپنے مقام پر آئے گا اور پھر مزید ترقی کی راستے پر چل سکے گا۔ یہ بات بھی یقینی نہیں کہ وہاں کوئی آمر آنے کی بجائے جمہوری تماشا شروع ہوگا جس میں بندوں کو تولنے کی بجائے گنا جاتا ہے اور یہ کہ کیا وہاں سیاسی استحکام آئے گا جو ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن رکھنے کے لیے ضروری ہے یا پاکستان کی طرح سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جائے اور پھر کوئی طالع آزما اس تماشے کو ختم کرنے کے لیے مسندِ اقتدار پر قابض ہو جائے گا۔ نہ جانے کب ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہدایت ملے گی اور کب شورائیت پر مبنی خلافت علی منہج النبوۃ قائم ہوگی اور پھر امتِ مسلمہ درست راستے پر گامزن ہوکر اپنی عظمتِ پارینہ کو دوبارہ حاصل کرسکے گی۔
Abeeda Syed
About the Author: Abeeda Syed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.