مفتی محمد اظہر الحق صاحبؒ، ایک علمی چراغ بجھ گیا
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, India)
مفتی محمد اظہر الحق صاحبؒ، ایک علمی چراغ بجھ گیا
از: خورشید عالم داؤد قاسمی
یہ ابھی گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے کی بات ہے کہ ہم اپنے چند احباب کے ہمراہ ملکی تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے چپاتا گئے تھے۔ اس سفر میں جہاں متعدد مخلص ساتھیوں سے ملاقات ہوئی، وہیں ہمارے مشفق دوست، جناب مفتی محمد اظہر الحق صاحب مظاہری قاسمیؒ (استاذ: معہد الرشید الاسلامی، چپاتا) سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس موقع پر اُن کی معیت میں معہد الرشید الاسلامی کی زیارت کا موقع ملا اور پھر اُن کے دولت کدے پر پرتکلف ناشتہ سے بھی مستفید ہونے کا موقع نصیب ہوا۔ اگلی صبح بھی ناشتہ اُنہی کی رفاقت میں ہوا۔ پھر ہم اُن سے مل کر، واپس روانہ ہوئے۔ کسے خبر تھی کہ یہ ملاقات، جو بڑی محبت، شفقت اور خلوص سے بھرپور تھی، ہماری اُن سے آخری ملاقات ثابت ہوگی اور وہ خوش گفتار، بااخلاق، علم و عمل کے پیکر ، ہمیں 26/ اگست 2025 کی صبح کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر رخصت ہوجائیں گے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
علالت کا آغاز: محب مکرم، مولانا نسیم اختر قاسمی (مقیم: چپاتا) نے 15 اگست 2025 کی شب کو ایک تشویشناک پیغام واٹس ایپ پر ارسال کیا۔ اس پیغام میں اطلاع دی گئی تھی: "مولانا مفتی اظہر الحق صاحب اس وقت الطاف میموریل اسپتال (چپاتا) میں زیر علاج ہیں۔ سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے انھیں آکسیجن پر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق انھیں بیکٹیریل انفیکشن لاحق ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ ان کی مکمل اور فوری صحت یابی کے لیے دعا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین!"
یہ پیغام پڑھتے ہی، گروپ کے تمام اراکین نے دعاؤں کے کلمات لکھنے شروع کر دیے۔ دلوں میں امید جاگی کہ اللہ تعالیٰ، جو شافی و کافی ہے، اس مرتبہ بھی حضرت مفتی صاحب ؒکو صحت عطا فرمائیں گے۔ چند سال قبل بھی وہ اسی طرح علالت کا شکار ہوئے تھے اور کچھ ہی دنوں میں شفایاب ہوکر، اپنے اہل خانہ کے درمیان واپس لوٹ گئے تھے۔ یہی امید اس بار بھی دل میں تھی کہ وہ چند دنوں میں تندرست ہوکر، دوبارہ اپنے معمولات میں مشغول ہوں گے۔ مگر افسوس! اس بار تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بیماری کا دورانیہ بڑھتا گیا، طبیعت میں بہتری کے آثار نظر نہ آئے۔ پھر کچھ دن بعد انھیں الطاف میموریل اسپتال سے منتقل کر کے چپاتا کے جنرل اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں مزید علاج کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ تمام حالات دیکھ کر دل بے اختیار دعاگو رہتا؛ مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کو کچھ اور ہی تھی، جس کی حکمت ہم جیسے کم علموں کی سمجھ سے بالا ہے۔
آخری سفر اور سانحۂ ارتحال : پھر 25/ اگست 2025 کی شام، مولانا نسیم اختر قاسمی صاحب کا ایک پیغام موصول ہوا، جس میں اطلاع دی گئی کہ حضرت مفتی محمد اظہر الحق صاحب کو ایمبولینس کے ذریعے لوساکا منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ خبر سن کر دل بے قرار ہو گیا۔ چپاتا سے لوساکا تک کے سفر میں، ان کی طبیعت مسلسل بگڑتی چلی گئی۔ قبیل فجر، تقریباً پونے پانچ بجے، میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اسکرین پر محترم مولانا منظر حسین صاحب کا نام نمودار ہوا۔ دل یک دم بیٹھ سا گیا۔ دل میں فوراً خیال آیا کہ شاید کوئی حادثاتی خبر ہے۔ فون اٹھایا، علیک سلیک کے بعد، مولانا منظر صاحب نے نہایت ہی سرعت سے غمناک خبر دی کہ مفتی محمد اظہر الحق صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ جملہ ایسا تھا کہ جیسے دل پر ایک گہرا صدمہ آپڑا ہو۔ نہ اُن میں مزید کچھ کہنے کی سکت تھی، نہ مجھ میں مزید سننے کا حوصلہ۔ ہم دونوں نے خاموشی کے ساتھ کال منقطع کر دیے۔
مولانا منظر حسین صاحب نے جہاں اس راقم کو اطلاع دی، وہیں لوساکا میں موجود دوسرے احباب کو بھی اس سانحۂ ارتحال کی خبر دی اور انھیں اپنی محترمات کے ساتھ اسپتال پہنچنے کی درخواست کی۔مولانا قاری محمد افضل، مفتی عبد القوی، مولانا محمد اکرم، مولانا ذکی الرحمن، مفتی عزیز الرحمن صاحبان اور دیگر احباب اپنی محترمات کے ساتھ مفتی صاحبؒ کی اہلیہ کی تسکین اور دلجوئی کے لیے فورا اسپتال پہنچے اور وہ سب احباب تدفین تک مفتی صاحبؒ کے اہل خانہ کے ساتھ رہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء!
بہرحال، مولانا منظر صاحب کی فون کال کے بعد، بندہ نے واٹس ایپ گروپ کھولا، تو وہاں مولانا نسیم اختر صاحب کے دو پیغامات موجود تھے۔ پہلا پیغام تقریباً صبح چار بجے ارسال کیا گیا تھا، جس میں یہ اطلاع تھی کہ مفتی صاحب "روئل ہسپتال، لوساکا" پہنچ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ جب مفتی صاحب روئل ہسپتال پہنچے؛ تو ان کے محب خاص جناب ظہیر دایا صاحب، چپاتا ان کو ریسیو کرنے کے لیے موجود تھے۔ دایا صاحب نے انھیں فورا آئی سی یو میں داخل کرایا۔پھر ظہیر صاحب وہیں موجود رہے۔ پہلے پیغام کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایک دوسرا پیغام بھیجا گیا تھا، جس میں سانحۂ ارتحال کی خبر تھی۔ وہ جن کی زبان سے ہمیشہ علم، محبت اور شفقت جھلکتی تھی، وہ خاموش ہو چکی تھی۔ پرنور چہرہ، متواضع مزاج اور سراپا مخلص شخصیت ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے جاچکی تھی۔
تدفین اور وداعِ آخری: مفتی محمد اظہر الحق صاحبؒ جس ادارے سے وابستہ تھے، وہاں کے ذمے داران، اہل خانہ اور قریبی احباب سے مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ ان کی تدفین لوساکا ہی کے قبرستان میں عمل میں لائی جائے۔ ان کی اہلیہ محترمہ، جو ایمبولینس میں اُن کے ہمراہ چپاتا سے لوساکا آئی تھیں، اس وقت لوساکا میں موجود تھیں۔ اُن کی دو بیٹیاں، جو چپاتا میں تھیں، وہ بھی لوساکا لائی گئیں۔ مولانا منظر حسین صاحب، مولانا نسیم اختر صاحب، مولانا آصف اقبال قاسمی وغیرہم بھی جنازے میں شرکت کے لیے فوراً لوساکا کے لیے روانہ ہوئے۔ اسی روز عشاء کی نماز کے بعد مفتی صاحبؒ کی تدفین عمل میں آئی۔ جنازہ کی نماز مولانا رشاد صاحب دامت برکاتہم نے پڑھائی۔ جنازے میں علما، طلبہ، احباب، متعلقین اور عوام و خواص کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جو ان کی مقبولیت، محبت اور خدمتِ خلق کا واضح ثبوت تھا۔ اللّٰھم اغفرلہ، وارحمہ، وسکنہ فِی الجنۃ!
سراپا خلوص و محبت : مفتی محمد اظہر الحق صاحب مظاہری قاسمیؒ ایک باصلاحیت، نہایت نیک، صالح، متقی اور باعمل عالم دین تھے۔ ان کی شخصیت سادگی، اخلاص اور خلوص کی آئینہ دار تھی۔ ان کا دل نہایت صاف، طبیعت نہایت نرم اور تعلقات میں بے ساختہ محبت نمایاں ہوتی تھی۔ وہ اپنے ساتھیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ کسی کو کوئی مشکل درپیش ہو، تو وہ دل سے فکر مند ہو جاتے۔ معمولی سی بات ہو یا کوئی پریشانی، وہ فون کرکے پوچھتے، دعائیں کرتے اور تسلی دیتے۔ اگر کسی کا کوئی عزیز بیمار ہو جاتا؛ تو اس کے لیے مستقل دعاگو رہتے، احوال معلوم کرتے اور خصوصی دعائیں فرماتے۔ ہم دوستوں کے لیے وہ کبھی کبھی ہدیے اور تحائف بھی بھیجتے۔ ابھی کچھ مہینے پہلے انھوں نے ایک تحفہ بھیجا تھا۔ جب ہم نے انھیں اطلاع دی کہ تحفہ موصول ہو گیا ہے؛ تو وہ بےحد خوش ہوئے۔
امت کے لیے دھڑکنے والا دل: مفتی صاحبؒ امت مسلمہ اور عالم اسلام کے حالات سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے دکھ درد سے ہمہ وقت باخبر اور دعاگو رہتے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب وہ خود اسپتال میں زیر علاج تھے، اسی دوران بھی جب کسی حادثے یا سانحے کی خبر ملتی، تو فوراً دعاؤں میں مشغول ہو جاتے۔ اکثر ان کی زبان ذکر، تسبیح اور دعا میں مشغول رہتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی امت کے لیے تڑپ، محبت اور خالص دینی جذبات کا مظہر تھی۔
اولاد کی تعلیم کے حوالے سے سنجیدگی : مفتی محمد اظہر الحق صاحبؒ نہ صرف خود علم کے قدر دان تھے؛ بلکہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں بھی حد درجہ سنجیدہ اور باخبر تھے۔ جب ان کے صاحبزادے، عزیزم حافظ احمد سلمہ اللہ، بارہویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھے؛ تو ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے تحت بارہویں جماعت کا امتحان دلوائیں، تاکہ مستقبل میں کسی ادارے میں داخلہ لینے میں آسانی ہو۔ مفتی صاحبؒ اس مشورے سے بے حد خوش ہوئے۔ انھوں نے اس سلسلے میں بھرپور دلچسپی لی، خود معلومات جمع کیں اور ہم سے بارہا مشورے کیے۔ اس امتحان کے لیے عزیزم احمد سلمہ کی رجسٹریشن، لوساکا میں قائم برطانوی سفارت خانے کے ذریعے کروائی گئی۔ پھر وہ وقت آیا کہ حافظ احمد نے برٹش سفارت خانے، لوساکا میں جا کر کیمبرج کا بارہویں جماعت کا امتحان دیا اور اللہ کے فضل سے اس میں کامیابی حاصل کی۔ یہ واقعہ مفتی صاحبؒ کی دور اندیشی، تعلیمی ذوق اور مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی روشن مثال ہے۔
ولادت اور علمی سفر: مفتی محمد اظہر الحق صاحبؒ کی ولادت 6/ جولائی 1978 کو ہندوستانی ریاست جھارکھنڈ کے ضلع چترا کے ایک گاؤں دھم دھمہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد، حافظ ابراہیم صاحب ہیں جو الحمدللہ بقیدِ حیات ہیں۔ مفتی صاحبؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے دینی مدرسے میں، اپنے پھوپھا کی نگرانی میں حاصل کی۔ شروع سے ہی مفتی صاحبؒ میں علمی سنجیدگی اور دینی مزاج نمایاں تھا۔
مظاہر علوم وقف سے فضیلت: ابتدائی تعلیم کے بعد، مفتی صاحبؒ نے جامعہ اسلامیہ، ریڑھی تاجپورہ،ضلع سہارن پور کا رخ کیا، جہاں سے انھوں نے درس نظامی کورس کا آغاز کیا۔ درس نظامی کورس کے درمیان ہی انھیں قرآن کریم حفظ کرنے کا شوق ہوا؛ چناں چہ انھوں نے حفظ کلام اللہ کے لیے مدرسہ قادریہ مسروالا، ہماچل پردیش میں داخلہ لیا۔ انھوں نے حفظ القرآن الکریم کی تکمیل جامعہ اسلامیہ بیت العلوم، پپلی مزرعہ، یمنانگر، ہریانہ سے کی۔ پھر دوبارہ علمی تشنگی اور دینی علوم میں گہرائی کی جستجونے مفتی صاحبؒ کو ہندوستان کی مشہور دینی درس گاہ مظاہر علوم وقف، سہارن پور میں داخلہ لینے پر ابھارا۔ اسی عظیم ادارے سے وہ سن 1998 میں درسِ نظامی مکمل کر کے فضیلت کی سند حاصل کی۔ درسِ نظامی کے بعد، انھوں نے فقہ و فتاویٰ کے اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ کا انتخاب کیا اور سن 1999 میں یہاں سے افتا کی تکمیل کی۔
تدریسی سفر اور شوقِ علم: رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعد، مفتی محمد اظہر الحق صاحبؒ نے تدریس و تعلیم کو ہی اپنے کیریئر کے طور پر منتخب کیا۔ ابتدا میں آپ نے جامعہ محمودیہ، چھچھرولی، یمنا نگر، ہریانہ سے تدریسی خدمات کا آغاز کیا۔ پھر کچھ دنوں بعد، آپ کی تقرری جامعہ اسلامیہ بیت العلوم، پپلی مزرعہ، یمنانگر، ہریانہ میں ہوئی، جہاں آپ نے تجوید وقرات کی تدریس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہیں مفتی صاحبؒ نے کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں۔ مگر شوقِ علم نے انھیں مزید علمی ارتقاء کی جانب راغب کیا۔ اسی جذبۂ علم نے انھیں ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی طرف کھینچا۔ چناں چہ انھوں نے دوبارہ طالب علم بننے کا فیصلہ کیا اور دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ وہاں سے سن 2006 میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔ پھر جامعہ اسلامیہ بیت العلوم، پپلی مزرعہ میں ہی تدریسی خدمات کو ترجیح دی۔
ازدواجی زندگی: جب مفتی صاحبؒ جامعہ اسلامیہ بیت العلوم میں تدریسی خدمات سے منسلک تھے؛ تو ان کی علمی صلاحیت اور حسنِ سیرت سے متاثر ہوکر، ادارے کے ناظم صاحب نے اپنی خواہر نسبتی سے نکاح کی پیش کش کی۔ مفتی صاحبؒ نے یہ پیش کش قبول فرمائی۔ پھر سن 2000ءمیں ناظم صاحب کی خواہر نسبتی اور جناب اللہ بخش حسن صاحب کی صاحبزادی سے ان کا نکاح ہوا۔ مفتی صاحب کی اہلیہ محترمہ ایک عالمہ، نہایت نیک، باحیا اور دیندار خاتون ہیں۔ انھوں نے مفتی صاحبؒ کی خدمت اور دینی مشن میں تعاون کا فريضہ نہایت اخلاص کے ساتھ نبھایا۔ اللہ تعالی ان کو صحت و عافیت کے ساتھ رکھیں!
اولاد کی تعلیم و تربیت: اللہ تعالیٰ نے مفتی محمد اظہر الحق صاحبؒ کو تین اولاد کی نعمت سے نوازا۔ اُن کی سب سے بڑی بیٹی حافظہ عائشہ ہے، جو نہایت ذہین، محنتی اور باصلاحیت لڑکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل، والدین کی دینی تربیت اور انتھک محنت سے اس بچی نے کم عمری میں حفظِ قرآن کریم مکمل کیا۔ حفظ کے بعد، اس نے اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ والدِ ماجد اور والدہ ماجدہ سے عالمیت کورس کی کتابیں بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ جب صرف ایک سال کا نصاب باقی رہ گیا؛ تو مفتی صاحبؒ نے اسے ہندوستان بھیجا؛ تاکہ وہ کسی ادارے سے باقاعدہ عالمہ کی سند حاصل کرسکے۔ چنانچہ اس نے وہاں سے عالمیت کی تکمیل کی۔ بعد ازاں، اس نے اسکول کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور بارہویں جماعت کامیابی سے مکمل کی۔ فی الوقت وہ لوساکا کی ایک یونیورسٹی کےمیڈیکل شعبے میں زیر تعلیم ہے۔ تقریبا ڈیڑھ سال بعد، ان شاء اللہ، وہ بچی ڈاکٹر بن جائے گی۔ یہ سب مفتی صاحبؒ کی علمی سوچ، تربیتی توجہ اور دین و دنیا دونوں کو یکجا رکھنے کے توازن کا ثمرہ ہے۔
مفتی صاحب کے صاحبزادے حافظ احمد سلمہ کا تعلیمی سفر: مفتی محمد اظہر الحق صاحبؒ کے بچوں میں دوسرے نمبر پر حافظ احمد سلمہ اللہ ہیں۔ مفتی صاحب نے اس ہونہار اور ذہین بچے کی تربیت میں انتھک محنت کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حافظ احمد نے بھی کم عمری میں ہی حفظ قرآنِ کریم مکمل کی۔ اسکول سے بارہویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، انھوں نے اپنے والد کی نگرانی میں، معہد الرشید الاسلامی میں درس نظامی کا کورس شروع کیا۔ مزید یہ کہ وہ اپنے والد سے خارج میں بھی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ تقریباً چار سال کی مدت میں، انھوں نے مشکوۃ شریف تک کی تعلیم مکمل کر لی۔ اس سال، مفتی صاحب نے حافظ احمد کو مزید علمی ترقی کے لیے دارالعلوم دیوبند داخلے کے لیے بھیجا۔ ما شاء اللہ، وہ دارالعلوم دیوبند کے تقابلی امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور اب دورۂ حدیث شریف میں زیرِ تعلیم ہیں۔
سب سے چھوٹی بیٹی فاطمہ سلمہا ہیں۔ وہ تقریبا دس سال کی ہے۔ اس نے اپنے مرحوم ابو کے پاس قرآن کریم ناظرہ مکمل کیا۔ ابھی وہ چھٹی جماعت میں زیر تعلیم ہے۔ وہ اپنے والد صاحب سے عربی پڑھنا بھی سیکھ رہی تھی۔ اللہ پاک اس بچی کو حافظہ، عالمہ اور نیک و صالحہ بنائیں!
تدریسی خدمات اور مسجد میں امامت: سن 2008 میں، مفتی محمد اظہر الحق صاحب مظاہری قاسمیؒ کا تقرر بحیثیت مدرس معہد الرشید الاسلامی، چپاتا، زامبیا میں ہوا۔ اس وقت سے وہ معہد کے ابتدائی درجات سے لے کر دورۂ حدیث شریف تک کی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ، وہ درجہ اطفال اور درجہ حفظ کی نگرانی بھی کرتے تھے۔ معہد میں ان کی تقرری کے بعد، معہد کے بانی و مہتمم، حضرت مولانا عبد الرحیم متالا رحمہ اللہ نے کسی موقع سے قرآن کریم کی تلاوت ان سے سنی۔ مفتی صاحب کے قرآن کریم پڑھنے کے انداز سے وہ متاثر ہوئے اور ان سے فرمائش کی کہ وہ معہد کی مسجد میں نماز پڑھائیں۔ اس فرمائش کی تکمیل کے لیے، مفتی صاحبؒ نے معہد کی مسجد میں نمازِ پنجگانہ کی امامت سنبھالی۔ کئی سالوں تک رمضان کے مہینے میں، تراویح کی نماز بھی ان کی امامت میں ادا کی جاتی رہی۔ چند سالوں سے ان کے ساتھ دو دیگر مدرسین بھی نماز پڑھانے میں ان کے ساتھ تھے۔چناں چہ ہر تیسرے ہفتے کی امامت کی ذمہ داری مفتی صاحب کی ہوتی تھی۔یہ ذمہ داری انھوں نے نہایت جذبہ، خلوص اور اہتمام کے ساتھ انجام دی۔
محنت، خدمات اور خلوصِ دل: مفتی محمد اظہر الحق صاحب مظاہری قاسمیؒ خوشخط اور منظم شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی تحریر نہایت خوبصورت اور واضح ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے معہد کے اکثر تحریری امور مثلاً نظام الاسباق کا نقشہ تیار کرنا، طلبہ کے امتحانی نمبرات مرتب کرنا اور دیگر اہم دفتر سے متعلق خط و کتابت ان کی ذمے داریاں تھیں۔ مزید برآں، وہ معہد کے کتب خانہ کی ذمہ داری بھی سنبھالتے تھے۔ وہ نہایت محنتی، جفاکش اور ذمہ دار انسان تھے۔ انھوں نے تعلیم و تربیت کے میدان میں بے لوث خدمات سر انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحبؒ کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں اور پسماندگان اور محبین کو صبر جمیل عطا فرمائے! آمین! |
|