سرسید احمد خان نے جھولی پھیلا کر، بازار حسن میں طوائفوں کے سامنے ناچ کراور زمینداروں، جاگیرداروں، نوابوں اور مسلمان تاجروں کی ٹھوڑی پکڑ کر چندہ جمع کیا اور 1875ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، علی گڑھ یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی تقدیر میں تبدیلی کا پہلا سنگ میل تھی، یہ پہلی حقیقت تھی، دوسری حقیقت یہ تھی، یہ یونیورسٹی بنائی سرسید نے تھی لیکن اسے چلانے کا اعزاز ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کو حاصل ہوا، ڈاکٹر صاحب 1877ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے، بارہ سال کی عمر میں علی گڑھ میں داخل ہوئے، بے انتہا ذہین انسان تھے۔ یونیورسٹی نے انھیں بی اے کے بعد ہی لیکچرار بھرتی کر لیا یوں وہ پڑھتے بھی تھے اور پڑھاتے بھی تھے، ڈاکٹر صاحب نے بعد ازاں کلکتہ یونیورسٹی اور احمد آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیے، وہ ہندوستان کی تاریخ کے پہلے دیسی باشندے بھی تھے جنھیں کیمبرج یونیورسٹی نے سر آئزک نیوٹن اسکالر شپ دیا، وہ تین مختلف ادوار میں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، انھیں طویل مدت تک علی گڑھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1945کے بعد پاکستان جب ناگزیر ہو گیا تو ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کمال نے محسوس کیا ہمارے نئے ملک کو بیورو کریٹس کی ضرورت ہو گی جب کہ مسلمانوں میں ڈگری ہولڈر بہت کم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا دلچسپ حل نکالا، انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں سپلی مینٹری امتحانات شروع کرا دیئے، پاکستان بننے سے قبل علی گڑھ یونیورسٹی نے تین سپلی مینٹری امتحانات لیے اور ان امتحانات سے ہزاروں مسلمان گریجویٹ نکلے، یہ گریجویٹ بعد ازاں پاکستان کی سول بیورو کریسی کا حصہ بنے، ڈاکٹر صاحب اگر یہ اینی شیٹو نہ لیتے تو نوزائیدہ پاکستان کو کلرک تک نہ ملتے اور یوں یہ ملک جنم لیتے ہی بیورو کریٹک کرائسس کا شکار ہو جاتا۔
یہ صرف ایک تعلیمی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ٹیلنٹ ڈسکوری کی ایک شاندار مثال تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے سمجھا کہ یہ ٹیلنٹ کو موقع دینے کا موقع ہے۔ انھوں نے ایک ایسا دروازہ کھولا جس سے چھپے ہوئے ذہن، دبے ہوئے خواب، اور محروم صلاحیتیں سامنے آئیں۔
آج اگر ہم اسی جذبے کو اپنائیں، تو ہم بھی اپنے معاشرے میں چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو دریافت کر سکتے ہیں—چاہے وہ خواتین ہوں، نوجوان ہوں، یا وہ لوگ جو صرف ایک موقع کے منتظر ہیں۔ علی گڑھ کی داستان ہمیں سکھاتی ہے کہ ٹیلنٹ صرف پیدا نہیں ہوتا—اسے پہچاننا، سنوارنا اور موقع دینا پڑتا ہے۔ اگر ایک یونیورسٹی ہزاروں ذہنوں کو جگا سکتی ہے، تو آپ کا ایک فیصلہ بھی کسی کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ اپنے اندر چھپی صلاحیت کو دریافت کریں |