اقنال احمد کون تھے

اقبال احمد کون تھے

‏اقبال احمد انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں ان کے والد زمین کے جھگڑے میں ان کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو گئے۔ 1947 کی ہجرت م یں وہ اپنے بھائی کے ساتھ بہار سے پیدل لاہور پہنچے۔ ایف سی کالج میں داخلہ لیا، اکنامکس میں ڈگری حاصل کی اور آگے چل کر اسکالرشپ پر امریکا کے کیلی فورنیا کالج جا پہنچے۔ وہاں سیاست اور مڈل ایسٹ ہسٹری ان کے علمی سفر کا مرکز بن گئی۔ ابنِ خلدون کے فکر نے ان کی سوچ کو ایسا جکڑا کہ وہ مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کی تاریخ کے مطالعے کے لیے وقف ہو گئے۔
وقت کے ساتھ وہ نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید اور ارون دتی رائے جیسے عالمی دانشوروں کے دوست بن گئے۔ بڑے بڑے علمی دماغوں کی صحبت نے ان کی شخصیت کو نکھارا اور وہ جنگ کے مخالف اور عالمی معاشی نظام کے ناقد بن گئے۔ دنیا بھر میں لوگ ٹکٹ خرید کر ان کے لیکچر سنتے اور بڑے مفکرین ان سے متاثر ہوتے۔
1997 میں میاں نواز شریف نے انہیں پاکستان بلایا۔ ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کی سربراہی دی اور اسلام آباد میں ایک خودمختار یونیورسٹی کے لیے زمین الاٹ کی۔ اقبال احمد اس کا نام ’’خلدونیہ‘‘ رکھنا چاہتے تھے۔ حکومت نے چارٹر بھی جاری کیا مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ وہ بڑی آنت کے کینسر میں مبتلا ہوئے اور 11 مئی 1999 کو آپریشن کے دوران ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال پر امریکا میں ہیمپشائر کالج میں تعزیتی تقریب ہوئی، جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان، نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید اور ارون دتی رائے جیسے لوگ شریک ہوئے۔ یہ منظر بتاتا ہے کہ وہ کس درجے کے عالمی دانشور تھے۔
پاکستان واپسی کے بعد ایک دن ان سے پوچھا گیا کہ آپ امریکا یا یورپ کی کون سی چیز کو سب سے زیادہ مس کرتے ہیں؟ وہ مسکرا کر بولے: ’’اچھی گفتگو۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں تعلیم یافتہ لوگوں کے پاس گفتگو کے بے شمار موضوعات ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں ان پڑھ ہوں یا پڑھے لکھے، ریڑھی والے ہوں یا دفتر کے افسر، سب کی گفتگو صرف سیاست اور سکینڈلز تک محدود ہے۔ کوئی بھی موضوع چند منٹوں میں سیاست کی نذر ہو جاتا ہے، جبکہ دنیا میں لوگ شخصیات پر نہیں بلکہ آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں۔
اقبال احمد نے یہ بات 25 برس پہلے کہی تھی۔ آج جب ہر طرف سوشل میڈیا کا شور ہے تو ان کے الفاظ اور بھی سچ لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں روزانہ لاکھوں الفاظ بولے جاتے ہیں لیکن ان کا نچوڑ صرف سیاست، سکینڈلز اور غیر مصدقہ باتیں نکلتی ہیں۔ اچھی گفتگو کے لیے مطالعہ، تحقیق اور نئے آئیڈیاز ضروری ہیں۔ جب پڑھنے اور سوچنے کی عادت ہی ختم ہو جائے تو مکالمہ
بھی بانجھ ہو جاتا ہے۔ 
Rasheed Ahmed
About the Author: Rasheed Ahmed Read More Articles by Rasheed Ahmed: 42 Articles with 12815 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.