علامہ اقبالؒ کی مخالفت کی وجوہات طارق محمود مرزا۔ آسٹریلیا
شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ اپنی حیات میں ہی جہاں برصغیر کی عوام کی آنکھوں کا تارا بنے رہے اور پوری دنیا میں نام اور شہرت کمائی وہاں دنیا کے دیگر عظیم لوگوں کی طرح ان کی بھی مخالفت ہوئی اور الزام تراشیوں کاسامنا کرنا پڑا بلکہ کفر کا فتویٰ بھی سہنا پڑا۔مخالفت کایہ سلسلہ ان کی حیات میں ہی شروع ہو گیا تھا اور آج تک جاری ہے۔ آج جب ایک جانب کلامِ اقبال کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، دوسری جانب خود اقبال کے آبائی وطن پاکستان میں ایک مخصوص حلقہ ان کے خلاف ہے۔بعض تو انھیں شاعر ماننے سے ہی گریزاں ہیں۔ اقبال کی مخالفت کرنے والے مختلف گروہ ہیں۔ ہم بھی ان کا الگ الگ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ اقبال کو جو شہرت اور ناموری ملی ان کی مخالفت کی بھی سب سے بڑی وجہ وہی بنی۔ان کی مخالفت کرنے والوں میں ایک گروہ ان کے ہم عصر شعرا اور ادیبوں میں سے تھا۔ اقبال کے دور میں ہی لکھنوٗ اور دلّی کے کچھ اہل زبان شعرا ان کے مخالف بن گئے۔ انھیں یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ اُردو نے جس خطے میں جنم لیا اور جن کی مادری زبان ہے وہاں سے کوسوں دور پنجاب کے ایک غیر معروف اور شعر و ادب سے ناآشنا خاندان میں جنم لینے والے شاعر کی شہرت چار دانگِ عالم میں پھیل جائے۔ ہر جگہ سے واہ واہ کی صدا بلند ہو رہی ہو۔ شعرا میں یہ عصبیت ویسے بھی عام ہے اور ہم عصر شعرا کو ہم پلہ ماننا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ لیکن عوام الناس اقبال کی شیدائی تھے اور یہیں سے حسد اور مخالفت کا آوازہ بلند ہوتا تھا۔ آج بھی شعرا کا ایک مخصوص گروہ اقبال کامخالف ہے۔ شکر ہے کہ ان کوتاہ بین حاسدین کی تعداد زیادہ نہیں ہے اور عوام الناس اس تعصب سے بالاتر ہو کر اقبال کا کلام جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں اور اسے سراہتے ہیں۔ اقبال خود تو اس توصیف و تنقید سے بے نیاز اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے مگر قرآنی پیام سے مزین، عشقِ رسولؐ سے عبارت اور عظمتِ انسانیت سے سجا ان کا کلام قیامت تک نسلِ انسانی کے قلب و ذہن کی آبیاری کرتا رہے گا۔ ایسی مخالفت سے اقبال کا تو کچھ نہیں بگڑتا مگر مخالفین کے دل کا کورا کاغذنفرت و عداوت سے داغدار ہونے کی وجہ سے اس پر کلام اقبال جیسے رُوح پرور پیام کا اثر نہیں ہوتا اور انسان ایک عظیم رُوحانی تحفے سے محروم رہ جاتا ہے۔انھی کا شعر کا ہے۔ اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ نفرت اور محبت دونوں کی کوئی حد نہیں ہے۔ اقبال کے بعض مخالفین اس حد تک بڑھ گئے کہ بغیر کسی ثبوت اور شہادت کے انھیں ایک طوائف کا قاتل تک قرار دے دیا۔ ان پر بادہ نوشی کا الزام لگایا۔ کفر کے فتوے لگائے۔ انگریز سرکار کی طرف سے”سر“ کا خطاب ملا تو اس پر بھی انھیں ہدفِ ملامت بنایا گیا اور انگریز کا پٹھو قرار دیا گیا۔ اقبال کی مخالفت کی ایک وجہ کا تو اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اقبال کے کچھ عم عصر روایتی شعرا اقبال کے اسلوب بیان میں کیڑے نکالتے رہتے تھے جو ظاہر ہے روایت سے ہٹ کر جدید اسلوب تھا۔ یہ جدید اسلوب روایتی شاعروں کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ جو گل و بلبل، گیسو و کا کل اور عارض و رُخسار سے ہٹ کر کسی اور موضوع پر شاعری روایت کے خلاف سمجھتے تھے۔ جس طرح اقبال نے فلسفہ، دینیات، رُوحانیات، قرآن و حدیث، قومیت اور نفسیات کو شاعری کا موضوع بنایا اور شاعری کو صرف دل بہلانے کا ذریعہ بنانے کے دائرے سے نکال کر اسے تکمیلذات اور تکمیل انسانیت کا موضوع بنایا جس کی مثال پہلے اردو شاعری میں نہیں تھی۔ اگرچہ اقبال سے چند دہائیاں قبل الطاف حسین حالی نے بھی روایت سے ہٹ کر دینی اور قومی شاعری کی تھی اور انھیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ غالب اور اقبال دونوں عظیم شاعر تھے مگر اقبال شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کے علم بردار بھی تھے۔ وہ مسلمان کو مردِ مومن بنا کر اور اس کے اندر عشق و خودی کی جوت جگا کر قوم کے تنِ مُردہ میں جان ڈالنے کے مشن میں منہمک تھے۔ ان کا کلام یاسیت، پژمردگی اور نااُمیدی کی تاریکی سے نکال کر آس و اُمید کی روشن راہوں پر ڈال دیتا ہے۔ سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا عوام الناس، اہل علم اور دیگر لوگوں نے تو اقبال کی اس جدید روش کو پسند کیا اور انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا مگر ہم عصر شعرا کا رویہ اس کے متضاد تھا۔ مثلاً اقبال کے عہد کے مشہور شاعر جوش ملیح آبادی تھے جو بلا شبہ بہت اچھے شاعر تھے۔ جوشؔ لکھنؤ کے ادبی اور رئیس خاندان سے تعلق رکھنے کے با وصف ہم عصر شعرا میں سے کسی کو اپنے ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ دوسرے شعرا کے بارے میں ان کے خیالات اکثر توہین آمیز ہوتے تھے۔ ان میں اقبال جیسے عظیم شاعر بھی شامل تھے۔ جوش اور ان کے حواریوں کی مخالفت ادبی سے بڑھ کر گروہی اور ذاتی سطح پر آگئی تھی۔ انھوں نے اقبال کے خلاف بے پناہ پروپیگنڈا کیا حتیٰ کہ اقبال کو لکھنؤ میں مدعو کیا گیا تو اس کی بھی مخالفت کی گئی۔ جوش کی اقبال دشمنی کی جھلک ان کی آپ بیتی ”یادوں کی بارات“ میں واضح نظر آتی ہے اس میں انھوں نے اقبال کے عہد آفرین نظریہ’خودی‘ کامضحکہ اُڑایا ہے اور اسے جرمن فلسفی کا چربہ قرار دیا ہے۔ اقبال پر تنقید کرنے والے کچھ لوگ انھیں احمدیوں کے زیر اثر سمجھتے ہیں۔بعض ظالم تو انھیں ختم نبوت کا قائل بھی نہیں سمجھتے جو بیہودہ،بے جواز اور سراسر بہتان ہے۔بغض میں اندھے یہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ عشقِ رسولؐ اقبال کے خون میں سرایت تھا جو ان کے قول و فعل سے عیاں ہے۔ان کا کلام عشقِ نبیؐ سے لبریز ہے۔ یہ اقبال ہیں جو رُندھے لہجے میں کہتے ہیں کہ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی کہے کہ تمھارے نبی ؐنے ایک دن میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی صاحبزادی کا رشتہ آیا۔ لڑکے والے ختمِ نبوّت کے قائل نہیں تھے۔ علامہ اقبال کو علم ہوا تو اس رشتے کی سختی سے مخالفت کی اور یہ نہیں ہونے دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کی مخالفت کرنے والوں میں احمدی بھی بہت متحرک تھے۔ دراصل اقبال اپنے عہد میں جتنے معروف و مقبول تھے احمدیوں کی کوشش تھی کہ کسی طرح انھیں شیشے میں اُتارا جائے۔ لہٰذا اقبال سے باقاعدہ رابطہ کر کے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اقبال کے ایک شناسا احمدی نے انھیں اپنے بڑے کے سامنے بیعت ہونے کے لیے کہا۔ اقبال نے اس کا منظوم انکار کیا۔ یہ حربہ کامیاب نہیں ہوا تو مشہور کردیا گیا کہ اقبال نے ایک احمدی خاندان میں شادی کر لی ہے۔ اقبال نے باقاعدہ پریس میں بیان بھجوا کر اس کی تردید کی۔ جب احمدیوں کو اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی تو وہ اقبال کے خلاف ہو گئے اور پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ ادھر اقبال نے نہ صرف احمدی تحریک سے بیزاری کا اظہار کیا بلکہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ انھیں اقلیت قرار دیا جائے لہٰذا وہ علامہ اقبال کے دشمن ہو گئے اور ان پر مختلف الزام تراشی کرنے لگے۔ اقبال کا سب سے مخالف گروہ تنگ نظر علما اور کم عقل ملّا تھے۔ اقبال نے جس طرح اسلام کی تشریح و توضیح کی اور اپنے شعر و فکر سے اسلام کا وہ تصور پیش کیا، روایتی ملاؤں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اکثر کو اقبال کا پیام ہی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ سُنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے۔ اقبال کی مسجع و دقیق اُردو اور فارسی زبان بھی آڑے آئی۔ جو باتیں ان تک پہنچتیں وہ سیاق و سباق اور اصل نفسِ مضمون سے ہٹ کر فروعی ہوتیں۔ اس لیے اقبال کو بار بار لیکچر اور وضاحتی بیان دینے پڑتے۔ جبکہ بعض تنگ نظر علما دوسروں کے کہنے سننے پر بھی اس بھیڑ چال میں شامل ہو جاتے۔ اگر ہمارے علما وسعتِ نظر کے حامل ہوتے، علم دوست اور سخن شناسا ہوتے تو اقبال کے اس پیغام کو حرزِ جان بنا تے۔ اسے عام کرتے تو انقلاب برپا ہو سکتا تھا۔ماضی قریب میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے قرآن کی تشریح و توضیح اور اسلام کا پیغام عام کرنے کے لیے جس طرح اقبال کے کلام اور پیام سے استفادہ کیا یہ اس کی روشن مثال ہے۔ ہمارے قدامت پسند علما ہر دور میں افکارِ تازہ کے مخالف رہے ہیں۔ انھوں نے سید احمد شہید، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، قائداعظم اور مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد سمیت ہر اس شخص کی مخالفت کی جس نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کر اور ان کے دلوں میں ایمانِ راسخ اور ذوقِ یقین پیدا کر کے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی راہ دکھلائی۔ ان ملاؤں نے مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی راہ میں ہمیشہ روڑے اٹکائے۔ انھیں علم و ہنر سیکھنے سے باز رکھا۔ دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے پر قدغنیں لگا ئیں۔ اور جس نے ایسا کرنے کی جرأت کی اسے کافر، مرتد اور پتا نہیں کن کن القابات سے نوازا۔ ذرا تصور کریں جب ریاضی، سائنس اور انگریزی سیکھنے پر فتوے لگے۔ انگریزی بولنے والے کو کافر اور انگریزی لباس پہننے والے کو مسجد میں آنے سے روکا۔ لاؤڈ اسپیکر کو شیطانی آلہ قرار دیا۔ قائداعظم کو کافراعظم اور اقبال کو گمراہ قرار دیا۔ مولانا مودودی جیسے نابغہ روزگار عالم اور شارح دین کو فتنہ قرار دیا اور ان کے ماننے والوں کو مودودیہ اور وہابی کہہ کر اُن کا مضحکہ اڑایا۔اقبال نے ان نیم حکیم ملاؤں اور کوتاہ نظر علما کو نشانہ تضحیک بنایا۔ صوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال مُلّا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار اقبال سمجھتے ہیں کہ مُلّا نے دانستہ اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہند کے مُلّاکو خود فریبی لاحق ہے۔ذیل کے شعر سے اقبال اورملّا کی جدا سوچ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے:۔ مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد درج ذیل شعر میں اقبال نے مُلّا کو غیرتِ دین کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ بلاشبہ اس کا حوالہ افغانی قوم ہے مگر اقبال کے ہاں مُلّا کا کردار عالم اسلام کے حوالے سے ہے۔ کیونکہ مُلّاصرف افغانیوں کے لیے نہیں تمام مسلمانوں کے لیے اہم ہے۔ افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو غرضیکہ اقبال نے مُلّا کی بے عملی، بے حمیتی اور بے رُوح امامت کی وجہ سے اس کو ہدفِ تنقید بنایا۔ جس پر یہ اقبال کے مخالف ہو گئے اور ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دے دیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سعودی حکمران خاندان نے حجاز کی تطہیر کا فیصلہ کیا۔ اس پر ہندوستانی علما دو گروہوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے صادر کرنے شروع کر دیے۔ اس دوران اقبال نے سلیمان بن سعود کے حق میں بیان دے دیا۔ بس پھر کیا تھا مخالف گروہ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گیا۔ وہ پہلے ہی اقبال سے نالاں تھے۔ یہ موقع ہاتھ آیا تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کر دیا۔ یہ فتویٰ لاہور کی مسجد وزیر خان کے مولوی ابو محمد دیدار علی نے صادر کیا تھا۔ دوسری جانب پرستارانِ اقبال کی بھی کمی نہیں تھی۔ پڑھے لکھے عام مسلمان اور روشن خیال علما اقبال کو سچا مسلمان، عاشقِ رسولؐاور درد مندِ ملت مانتے تھے۔ انھوں نے مولوی دیدار علی پر ہر طرف سے لعنت و ملامت کی بوچھار کر دی۔ علمائے اسلام نے اس فتویٰ کو بہت سنجیدگی سے لیا کیونکہ اس سے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے تھے اور مسلمانوں کے عظیم رہنما اور مصلح پر حرف آیا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ اقبال جیسے مردِ مومن اور اُمّت کے رُوحانی رہنما کو کوئی کیسے کافر قرار دے سکتا ہے۔ علما اور ملاؤں کے ساتھ ساتھ کچھ سکہ بند پیر اور خانقاہوں کے مجاور بھی اقبال کو ناپسند کرتے تھے۔ ان کی وجہ یہ تھی کہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو بہکا کر اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے راستے سے دُور کر رہے تھے۔اقبال نے اپنی شاعری میں انھیں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے خاص طور پر جب اقبال کی پہلی کتاب ’اسرار خودی‘ شائع ہوئی تو اس میں روایتی پیر پرستی اور خانقاہوں میں ہونے والی بدعتوں اور اس تصوّف پر انھوں نے سخت تنقید کی جو ترکِ دنیا کا مشورہ دیتاہے۔ اقبال کے مطابق ایسے صوفی مسلمانوں کو مشکلوں سے نبرد آزما ہونے اور زمانے کے سرد گرم سے مقابلہ کرنے کی بجائے صبر کی میٹھی گولی دے کر سونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اپنے اور قوم کے حق اور سر بلندی کے لیے میدانِ عمل میں اُترنے کی بجائے حالات پر قانع رہنے اور کونے کھدرے میں بیٹھ کر صرف دُعاؤں سے کام چلانے کی راہ دکھلاتے ہیں۔ ایسے رہنما دنیا میں سر بلندی حاصل کرنے کی بجائے ترک دنیا کا مشورہ دیتے ہیں۔ ظالموں کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے ظلم سہتے رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر ان کی سنی جائے تو مسلمان ترقی کی دوڑ میں کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ وہ مسابقت اور مقابلے کی بجائے گوشہ نشینی کو ترجیح دیں گے۔ ایسے تو مسلمان ہمیشہ کے لیے غیروں کے دستِ نگر بن کر رہ جائیں اور قوم ذلت، رسوائی اور غلامی کی دلدل میں دھنسی رہے گی۔ اقبال ایسے تصوّف کے خلاف تھے اسی لیے انھوں نے سعدی شیرازی کے بجائے مولانا رُومی کی تعلیم کو اپنے دل سے زیادہ قریب پایا۔ کیونکہ سعدیؒ صوفی ازم اور رومیؒ عشق و عمل کی راہ کے مسافر تھے۔ اقبال نے جب اسرارِ خودی میں اپنے ان خیالات کا اظہار کیا تو تصوّف کے بہت سے حامی مسلمان علما اور پیران کے خلاف ہو گئے۔ یوں مسلمانوں کو ایک گہری دھند سے نکال کر روشن راستے پر ڈالنے کی اقبال کی کوشش ہدف تنقید بنی۔ مگر اقبال نے ہمیشہ کی طرح اس تنقید کا بھی ہمت سے سامنا کیا۔ اقبال کی مخالفت کرنے والوں میں وطن پرست ہندو بھی سرگرم تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز ہندی وطنیت اور قومیت کی شاعری سے کیا تھا۔ نوجوانی میں وہ بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے وطنیت کے کیسے کیسے گیت گائے۔ یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند مگر اقبال کی ذہنی اور قلبی کا یا پلٹی تو وہ قومیت اور وطنیت کے اس مصنوعی دائرے سے نکل آئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یورپ میں رہ کر انھوں نے قومیت کا تعصب اور اس کے مضمرات کا بھرپور مشاہدہ کیا تھا۔ وطن پرستی کے اس جذبے سے متاثر ہو کر یورپی اقوام باہم دست و گریباں تھے اور بالآخر اقبال کی زندگی ہی میں پہلی عالمی جنگ میں وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے۔ انگریز، فرانسیسی، جرمن، ولندیزی، رُوسی اور دیگر نے ایک دوسرے کا اتنا قتل عام کیا کہ یورپ کی سر زمین لہو رنگ ہو گئی۔رفتہ رفتہ یہ جنگ کئی بر اعظموں میں پھیل گئی اور کروڑوں افراد اس نفرت کی بھینٹ چڑھ کر لُقمہ اجل بن گئے۔اقبال نے قومیت کا یہ زہر اور اس کی تباہ کاری اپنی آنکھوں کے سامنے پھیلتے دیکھی۔پہلی عالمگیر جنگ ان کی زندگی میں لڑی گئی اور دوسری ان کے انتقال کے صرف ایک سال بعد شروع ہوئی جس کی تباہ کاری پہلی سے کہیں زیادہ تھی۔ اگر وہ حیات ہوتے او ر قومیت کے نام پر یہ کشت و خون دیکھتے تو نہ جانے ان کے دل و دماغ پر کیاگزرتی۔چنانچہیورپ سے واپسی کے بعد اقبال قومیت کے اس حصار سے نکل کر ملت اسلامیہ کے ترجمان بن گئے۔ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے اگرچہ ان کی شاعری جملہ بنی نوع انسان کے لیے تھی مگر مسلمان اور اُمت محمدیؐ ان کی فکر کا مرکزی نکتہ تھے۔ یہی بات غیر مسلموں کو کھٹکتی تھی۔ ملت اسلامیہ کی ترجمان شاعری کرتے کرتے اقبال سیاست میں بھی مسلمانانِ ہند کی ترجمانی کرنے لگے حتی کہ انھوں نے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ لہٰذا اکثر غیر مسلم اقبال کے مخالف ہو گئے۔ اس کے ساتھ خود کانگریسی ذہن کے مسلمان علما بھی اقبال سے نا خوش تھے۔ جمعیت علمائے ہند، تحریکِ خلافت، احرار اور دیگر جماعتوں کے رہنما جو زیادہ تر علما تھے اقبال کے خلاف ہو گئے۔ مگر اقبال تحریک پاکستان کے واحد رہنما تھے جو آغازِ سیاست سے لے کر تادمِ مرگ اس مطالبے پر سختی سے قائم رہے۔ ۰۳۹۱ء کے سالانہ جلسے میں انھوں نے جب مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا تو اس کی گونج پورے ہندوستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر سنائی دی۔ لہٰذا اگلے روز کے ہندو اخبارات اقبال کے خلاف بھرے پڑے تھے۔انھوں نے علامہ پر دشنام طرازی کی حد کر دی۔ اسی پروپیگنڈے کا اثر تھا کہ مجلسِ احرار کے قائد عطاء اللہ شاہ بخاری نے اقبال کے کلام کو تو سراہا لیکن ان کی سیاسی کاوشوں کی مخالفت کی۔ لہٰذا ہندو اور ہندو نواز مسلمان اقبال کی مسلم نواز شاعری اور سیاست سے نالاں تھے اور ان کے خلاف زہر اگلتے رہتے تھے۔ جب کوئی شخصیت بہت زیادہ مشہور و معروف اور ہر دلعزیز ہو جائے تو سماجی و سیاسی گروہ اس شخصیت کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اس شخصیت کی وجہ سے اس گروہ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو۔ اقبال کے دور میں سوشلزم اور کیمونزم دنیا میں فروغ پا رہا تھا۔ اس کے اثرات ہندوستان میں بھی پہنچے تو شعرا اور ادیبوں کا ایک گروہ اس تحریک سے متاثر ہوا۔ اگرچہ اقبال کو بھی لینن کے مزدوروں اور کسانوں کے حق میں جانے والے اُصول پسند تھے اور انھوں نے”لینن کے حضور میں“ایک نظم لکھ کر اسے سراہا بھی تھا۔علاوہ ازیں وہ سرمایہ دارانہ نظام کی برائیوں اورخامیوں سے بھی کماحقہٗ واقف تھے۔ اس کے باوجود وہ سوشلزم کی بے دینی اور انکارِ خدا کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔ یہ بات انھوں نے ایک مضمون لکھ کر بتا دی تھی۔ علامہ نے واضح فرما دیا کہ میں مسلمان ہوں اور میرے عقیدے کے مطابق تمام معاشی مسائل کا حل قرآن میں موجود ہے۔ اشتراکیت دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اقبال کے اس دو ٹوک مؤقف پر اشتراکیوں نے ان پر مختلف الزامات لگائے۔ انھوں نے مزید اضافہ کر دیا کہ اقبال انگریزوں کا گماشتہ ہے اور ان کے ایما پر ملک تقسیم کرنے کے درپے ہے۔ دراصل اقبال کی روز بروز بڑھتی شہرت ان کے حاسدین میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہی تھی۔ خدا نے انھیں عوام الناس میں بے پناہ پذیرائی دی تھی۔ جس مشاعرے میں وہ شرکت کرتے وہاں قرب و جوار سے ہزاروں افراد اُمنڈے چلے آتے۔ انجمن حمایت اسلام جس کے مشاعروں میں علامہ شرکت کرتے وہ سب سے مقبول ادبی تنظیم بن گئی۔ اس کے مشاعروں میں شرکت کرنے کے لیے دوسرے شہروں اور صوبوں سے سیکڑوں لوگ طویل سفر کر کے آتے تھے۔ کئی مشاعروں میں دس ہزار سے بھی زائد کا مجمع ہوتا۔ اگر اس دور کی آبادی کو مدّ نظر رکھا جائے تو یہ عصرِ حاضر کے لاکھوں کے برابر تھا۔ اقبال جب ان مشاعروں میں ترنم سے اپنا کلام سنا رہے ہوتے مجمع جیسے سحر زدہ ہو جاتا۔ لوگ اقبال کے ایک ایک شعر پر جھوم جھوم جاتے اور فرطِ جذبات سے مغلوب نظر آتے۔ اتنی مقبولیت اس دور کے کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ لہٰذا بعض ہم عصر شعرا اور دیگر سماجی و سیاسی شخصیات اقبال سے حسد کرتیں اور جو منہ میں آتا کہہ دیتے۔ اقبال صرف شاعر ہی نہیں قانون دان، استاد، ممتحن، سیاست دان، فلسفی اور سماجی شخصیت تھے۔ لہٰذا ان تمام شعبہ ہائیحیات میں ان کے دوست بھی تھے اور قدرتاً کچھ دشمن بھی تھے۔ مثلاً پنجاب میں سرشادی لال جیسے متعصّب ہندو جج نے اقبال کے جج بننے کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی۔ کچھ بھولے بھالے معصوم لوگ بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے اور اقبال کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ اقبال کی بدنامی میں کچھ ان کا اپنا حصہ بھی تھا۔ اُنھیں رِند بننے کا شاید اتنا شوق نہیں تھا جتنا رِند کہلانے کا تھا۔ اپنی طبعی ظرافت، دوست داری اور بذلہ سنجی میں بعض اوقات ایسی باتیں کہہ جاتے جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا مگر محفل میں رنگ آمیزی کے کام آتا۔ مثلاً ایک روز اپنی کتابوں کی لائبریری میں کسی خاص کتاب کو تلاش کر رہے تھے اوپر سے ان کے دوست محمد دین فوق آگئے۔ فوق نے پوچھا: ”کیا ڈُھونڈ رہے ہیں؟“ اقبال کو شرارت سوجھی ”انگوری شراب کی بوتل رکھی تھی کل شمس العلما مفتی عبد اللہ ٹونکی آئے تھے شاید وہ لے گئے ہیں۔“ فوق پہلے تو حیران ہوئے، مذاق سمجھ آیا تو خوب ہنسے۔ مشہور عالمِ دین مولانا مودودی اپنے ایک مضمون جو اقبال کی وفات کے فوراً بعد ۸۳۹۱ ء میں لکھا گیا،میں اقبال کی اس شاعرانہ رندی کے متعلق یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔ ”اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھے۔عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی اُفتاد طبع کا بھی بہت کچھ دخل ہے۔ ان میں کچھ فرقہ ملامتیہ کے سے میلانات تھے۔ جن کی بنا پر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انھیں کچھ مزہ آتا تھا۔ ورنہ در حقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاصا شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے۔ اخیر زمانے میں طبیعت کی رقّت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۔(رسالہ جوہر۔ دہلی، ۸۳۹۱) دراصل اقبال احباب کی محفل میں ظرافت طبعی کا مظاہرہ کرتے۔ سر شہاب الدین اور سر جوگندر سنگھ کے متعلق اقبال کے لطائف مختلف کتابوں میں ملتے ہیں۔ ایسی ظرافت بعض اوقات اقبال کے کھاتے میں ڈال دی جاتی جو محض غلط فہمی ہے۔جیسا کہ بعض لوگ ان پر بادہ نوشی کاالزام لگاتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی ثبوت ہے نہ کوئی شاہد۔ اقبال کے متعلق کچھ پوشیدہ نہیں ہے۔وہ کھلی کتاب کی طرح تھے۔ درجنوں احباب کا ان کے ساتھ شب و روز اور سفر و حضر کا ساتھ رہا۔ ان میں سے کئی ایک نے اقبال کی حیات پر کتابیں لکھی ہیں اور اقبال کی ہر چھوٹی بڑی بات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ غلام بھیک نیرنگ (طالب علمی کے دور کے دوست)، سر عبد القادر، عطیہ فیضی، فقیر وحید الدین، خلیفہ عبد الحکیم نے اقبال کی زندگی کے ہر گوشے پر نظر ڈالی ہے۔ حتیٰ کہ ان کے دیرینہ ملازم علی بخش جس نے چالیس برس تک اقبال کی خدمت کی، کا تفصیلی انٹرویو بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان تمام قریبی احباب نے کبھی اقبال کو شراب نوشی کرتے نہیں دیکھا۔ بلکہ ہر ایک نے اقبال کی اسلام سے رغبت، قرآن سے محبت اور عشقِ رسولؐ کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ اقبال ساری زندگی علی الصبح اُٹھنے کے عادی تھے۔ تہجد اور نمازِ فجر ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت ان کے روزمرہ کے مشاغل میں تھی۔ حتیٰ کہ یورپ کی رنگین فضا، مجرد زندگی اور یخ بستہ موسم میں بھی ان کی یہ عادت برقرار رہی۔اپنی اس عادت کے بارے میں لکھتے ہیں۔: زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی علامہؒ کی بیشتر شاعری کی آمد بھی رات کے آخری پہر میں ہوئی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی شخص رات کے پہلے پہر میں بادہ نوشی کا متحمل ہو سکتا ہے جو آدھی رات کے بعد اُٹھ کر مصلے پر بیٹھ جاتا ہو۔مہاراجہ کشن پرشاد کو ۱۳ اکتوبر ۶۱۹۱ء میں تحریر کردہ خط میں علامہ خود لکھتے ہیں: ”صبح چار بجے کبھی تین بجے اُٹھتا ہوں پھر اس کے بعد نہیں سوتا، سوائے اس کے کہ مصلیٰ پر کبھی اونگھ جاؤں۔“ علامہ اقبال کو گانے کا خاصا شوق تھا۔ قدرت نے ان کے گلے کو سُر اور لے سے نواز رکھا تھا۔ قیام لاہور کے دوران میں انھوں نے ایک ستار خرید لی اور اس کی مشق کرتے رہتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب کوٹھے پر جا کر گانا سننا شرفا کا عام چلن تھا۔ بڑے بڑے مولانا جیسے حسرت موہانی، سرسید احمد خان، محمد علی جوہر، ابو الکلام آزاد اور دیگر اپنی اپنی پسندیدہ مغنیہ کے گانے سننے جاتے تھے۔ موسیقی سننے کا کوئی اور ذریعہ بھی نہیں تھا۔ ریڈیو،ٹی وی حتیٰ کے سینما بھی بعد کی چیزیں ہیں۔ اقبال بھی ان افراد میں شامل تھے جو گاہے بہ گاہے مغنیہ کا گانا سننے جاتے تھے۔ مگر اس کے آگے کے عیش و نشاط سے ان کو غرض نہیں تھی۔ نوجوانی میں کئی برس تک اکیلے بھی رہے اور یورپ کی رنگین فضاؤں میں حسیناؤں کے جلوے بھی ملاحظہ کیے مگر اپنے ملک و ملت، اپنے دین اور اپنے خاندان کے عزّت و وقار کو ہمیشہ مد نظر رکھا۔ وہ چاہتے تو آسانی سے یورپ میں مقیم ہو سکتے تھے۔ اچھی سے اچھی ملازمت اور مراعات حاصل کر سکتے تھے لیکن ڈگری لینے کے بعد ایک دن بھی فالتو وہاں نہیں رُکے۔ حصولِ تعلیم کے دوران میں انھیں اپنے خاندان کی نازک معاشی حالت کا بھی احساس تھا۔ خاص طور پر اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے احسانات کو ہمیشہ مدّ نظر رکھا جنھوں نے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے اقبال کی مالی اعانت کی تھی۔ ملازمت پیشہ اور عیال دار بھائی کی یہ اعانت اتنی نہیں تھی کے اقبال کسی عیاشی یافضول خرچی کے متحمل ہو سکتے۔ لہٰذا قیام یورپ کے دوران میں اقبال نے نہ تو بلا ضرورت کہیں کا سفر کیا اور نہ سیر و تفریح کے لیے جاتے تھے۔ تین سالہ قیام کے دوران میں شاید چند مرتبہ دوست احباب کے ساتھ سیر و سیاحت کے لیے گئے ہوں ورنہ وہ پڑھائی میں مصروف رہتے۔ ویسے بھی تین سال میں تین اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنا اور وہ بھی غیر ملک کی غیر زبان میں، آسان نہیں تھا۔ یہ اقبال کی ذہانت و فطانت کے ساتھ ساتھ ان کے احساسِ ذمہ داری کا بھی پتا دیتی ہے۔ قیامِ یورپ کے چند برس بعد اقبال کی شاعری، سیاست اور فلسفیانہ خیالات میں انتہائی سنجیدہ تبدیلی آئی اور وہ شاعر اقبال سے آگے بڑھ کر بین الاقوامی سطح کے فلسفی، علامہ اور داعی ملت بن کر نمایاں ہوئے۔ غمِ روزگار سے فرصت ملتی تو اسلام کی نشاۃ الثانیہ اور ملتِ بیضا کی آب یاری میں صرف کرتے۔مسلمانانِ ہند کی فکر کرتے۔اب ان کے جوانی کے مشاغل بھی جاتے رہے۔تاہم موسیقی سے رغبت کسی حدقائم رہی اور قوالی کی محفل میں شرکت کرتے رہے۔ تاہم اقبال پر بادہ نوشی کے جو الزامات لگے وہ قطعی غلط تھے۔ اور ان الزامات کا کوئی ثبوت بھی نہیں ملا۔ حتیٰ کہ عطیہ فیضی جنھوں نے اقبال کے قیام یورپ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے انھوں نے بھی اقبال کو شراب نوشی کرتے نہیں دیکھا۔ اس کے برعکس شراب سے اقبال کی نفرت کے کئی واقعات ہیں۔ ان میں سے ایک اقبال کے صاحب زادے جسٹس جاوید اقبال نے اپنی کتاب ”زندہ رُود“ میں لکھا ہے: ”جاوید منزل میں قیام کے دوران جہاں راقم سن تمیز تک پہنچا، اقبال کو اس نے شراب پیتے کبھی نہیں دیکھا۔ بلکہ راقم اس سلسلے میں علی بخش (اقبال کا دیرینہ ملازم) سے اقبال کی برہمی کے ایک واقعے کا شاہد ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ۸۳۹۱ء کے اوائل میں کوئی سکھ اقبال سے ملنے کے لیے آیا۔ اس وقت اقبال کے پاس عرب قاری بھی بیٹھے ہوئے تھے جو انھیں عمر کے آخری ایام میں قرآن مجید خوش الحالی سے پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ علی بخش نے سکھ کو عقیدت مند سمجھتے ہوئے اقبال تک پہنچا دیا۔ کچھ دیر وہ ان سے باتیں کرتا رہا پھر کمرے سے باہر نکل آیا اور علی بخش سے کہا کہ تانگے میں رکھی ہوئی بوتل اور گلاس اسے لا کر دے۔ علی بخش نے اس کے حکم تعمیل کی اور سکھ برآمدے میں کرسی کے سامنے میز لگا کر بیٹھ گیا اور بلا دھڑک شراب پینے میں مصروف ہو گیا۔ بیس پچیس منٹ گزرنے پر اقبال نے علی بخش کو بلوا کر پوچھا: ”کیا سردار صاحب چلے گئے؟“ علی بخش نے بتایا: نہیں وہ تو برآمدے میں بیٹھے شراب پی رہے ہیں۔ اس پر اقبال کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ بیماری کی حالت میں بنیان اور دھوتی پہنے وہ ایک دم بستر سے اٹھے اور باہر نکل پڑے۔ عرب قاری بھی ان کے پیچھے بھاگا۔ اقبال نے آتے ہی سکھ کو گریبان سیپکڑنے کی کوشش کی اور اسی کشمکش میں شراب کی بوتل فرش پر گر کر چکنا چور ہو گئی۔ گھر میں شور سن کر راقم بھی بھاگتا ہوا موقع پر پہنچا۔ سکھ انھیں انتہائی غصے کی حالت میں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اور تانگے میں سوار ہو کر رفو چکر ہو گیا۔ لیکن اقبال غصے میں کانپ رہے تھے۔ اور عرب قاری نے انھیں تھام رکھا تھا۔ راقم نے پہلی بار انھیں علی بخش کو جھڑکیاں دیتے سنا۔ برآمدے کے سارے فرش کو اسی وقت دھلوایا گیا۔ اور اقبال نے دو تین روز تک علی بخش سے بات نہیں کی، بلکہ اسے ان کے سامنے آنے کی اجازت نہیں تھی۔ بالآخر چودھری محمد حسین کی کوششوں سے اسے معافی ملی۔“ (زندہ رُود صفحہ ۶۱۲) بعض نقّاد اقبال کی شاعری سے انھیں بادہ خور سمجھ لیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ شاعری میں ساغر و جام اور شیشہ و مے کا ذکر عام ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ شاعر اپنے ہاتھ میں جام تھام کر یہ اشعار لکھتے ہیں۔ شاعری تو ویسے بھی زورِ تخیل کا ثمر ہے اور تخیل کے بل پر شاعر کوئی بھی منظر کشی کر سکتا ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ وہ اس منظر کا حصہ بھی ہو۔ بے شمار شعرا نے بادہ و ساغر پر شاعری کی ہے لیکن اپنی زندگی میں اسے چھوا تک نہیں۔ بعض احباب قیاس آرائی سے کام لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنا بہت سارا کلام اس لیے حذف کر دیا کہ اس میں ان کے عشق و محبت کا اظہار تھا۔ یہ بات اس لیے قرین قیاس نہیں ہے کہ اقبال نے اسی دور کی بہت نظمیں بانگ درا میں شامل کی ہیں جو خالصتاً عشق و محبت کی عکاس ہیں۔ جیسے حسن و عشق، نوائے غم اور پھول کا تحفہ عطا ہونے پر وغیرہ۔ ان نظموں کا پس منظر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اقبال کی نہ شائع والی والی شاعری اب بھی موجود ہے جو اعلیٰ پائے کی ہے مگر انھوں نے صرف منتخب شاعری شائع کرنا مناسب سمجھا جو ان کا حق ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ کو اپنے جذبات و خیالات پوشیدہ رکھنے کا خیال ہی نہیں تھا۔ اس بات کا ثبوت احباب کے نام ان کے کئی خطوط ہیں جن میں انھوں نے اپنے انتہائی نجی معاملات اور وہ بھی بلاوجہ بیان کر دیے۔ ایسا بے تکلف اور لا پرواہ شاعر اپنی محبت کو کیسے چھپا سکتا ہے۔ مثلاً ۰۳ دسمبر ۵۲۹۱ء میں اپنے دوست مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں جنھوں نے ان کی بحالی صحت کے لیے کوئی نسخہ تجویز کیا تھا۔ ”میری صحت عام طور پر اچھی نہیں رہتی کوئی نہ کوئی شکایت دامن گیر رہتی ہے۔ دوا پر مجھے چنداں اعتبار نہیں۔ ورزش سے گریز ہے۔ اس واسطے یہ فیصلہ کر بیٹھا ہوں کہ چلو اگر مقررہ وقت سے کچھ عرصہ پہلے رخصت ہو گئے تو کیا مضائقہ ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ورزش وغیرہ سے عمر میں اضافہ ہو گا۔ مگر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ دس سال پہلے کیا اور پیچھے کیا۔آخر رخصت تو ہونا ہے تو کیوں دوا اور ورزش کا درد ِسر خریدا جائے۔ سرکار نے جو نسخہ میرے لیے تجویز فرمایا ہے ضرور مفید ہو گا۔ کیونکہ مجرّب ہے اور مجھے اس کے استعمال کی خواہش بھی بہت ہے مگر نر ی خواہش سے کام نہیں چلتا۔ استعمال کے وسائل ضروری ہیں اور وہ مفقود…… ایک مطربہ پنجاب میں رہتی ہے۔ میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں، مگر سنا جاتا ہے کہ حسن میں لاجواب ہے اور اپنے گزشتہ اعمال سے تائب ہو کر پردہ نشینی کی زندگی بسر کرتی ہے۔ چند روز ہوئے اس کا خط مجھے موصول ہوا کہ مجھ سے نکاح کر لو۔ تمہاری نظم کی وجہ سے غائبانہ پیار رکھتی ہوں اور میری توبہ کو ٹھکانے لگا دو۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ اس کارِ خیر میں حصہ لوں مگر کمر میں طاقت نری کافی نہیں، اس کے لیے دیگر وسائل بھی ضروری ہیں۔ مجبوراً مؤدبانہ انکار کرنا پڑا۔“(صحیفہئ اقبال،حصہ اوّل۔ صفحات ۸۵۱۔ ۹۵۱) الزام تراشی کرنے والے بعض اوقات حد سے گزر جاتے ہیں، اقبال جیسے درد مند شاعر پر قتل کا الزام لگاتے وقت انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ ایسا رقیق القلب شخص جو اپنے اشک روکنے پر قادر نہیں۔جو انسان تو انسان حیوانات اور چرند پرند سے محبت رکھتا ہے۔ جس کی شاعری انسان دوستی، فطرت سے محبت اور عشق الٰہی اور عشقِ رسولﷺ سے عبارت ہے وہ کسی انسان کی جان بھی لے سکتا ہے۔ ویسے بھی طوائف اور اس کا قتل سنی سنائی کہانی ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے اور نہ حقیقت سے کوئی تعلق ہے۔غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں مگر اقبال کو سمجھنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ یہ بات انھوں نے خود بھی فرما دی ہے۔ بلکہ انھوں نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ اقبال بھی اقبالکو سمجھنے سے قاصر ہے۔
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے ویسے بھی روزِ قیامت ہم سے اقبال کے اعمال کے بارے میں سوال جواب نہیں ہو گا۔ یہ سوال ضرور ہو سکتا ہے کہ روحِ قرآن سے ماخوذ کلام اقبال کی شکل میں اسلام کا پیام ہمارے سامنے موجود تھا ہم نے اس سے استفادہ کیوں نہیں کیا۔ اقبال کا کلام اور ان کا پیام ایک عام مسلمان سے لے کر پوری ملت اسلامیہ کے لیے مژدہ جان فزا ہے جو نوجوانوں میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ بشرطیکہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے۔ کم از کم اسے متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے۔یہ ہمیشہ سے ہماراالمیہ رہا کہ ہم ایسی عہدساز شخصیات کو ان کے دَور میں نہیں پہچا ن پاتے۔ہاں، ان کے گزر جانے کے بعد ان کے یومِ ولادت اور ان کی برسی ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ یہی بات خود علامہؒ نے فرمائی تھی ”تم غور کرو تو معلوم ہو گا کہ جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو دنیا کی بند ہوتی ہیں اور جب شاعر کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں تو دنیا کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ صدیوں تک اس کی تعریف و توصیف کے گیت گاتی رہتی ہے“ (روزگار فقیر۔ صفحہ ۵۶) حقیقت یہ ہے کہ اقبال پربھی عام انسانوں کی طرح جوانی اور اس کے جذبات نمایاں ہوئے۔ وہ بھی عام انسان تھے نبی یا فرشتے نہیں تھے۔ بشریت کے تقاضوں سے مبرّا نہیں تھے۔ حسن اور اس سے انسیت انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ تاہم اقبال کی سوانح حیات میں رِندی صرف وقتی نجات یا سکون کی تلاش میں گزرے چند لمحات پر مشتمل ہے۔ یہ رندی اکثر تخلیاتی اور شاعری ہے۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی میں ایسا کوئی داغ نہیں ہے جو اس عظیم شاعر اور ترجمان القرآن کی شان کے خلاف ہو۔ عشق رسولﷺ جن کی رگ رگ میں بسا ہو اور قرآن جیسے ان کے دل پر اُتراہو۔ جن کے کلام سے نوع انسانی سرشار ہوتی ہو۔ اور جس نے بیسوی صدی میں اسلام کا پرچم اتنا بلند کیا ہو کہ اس کی دھوم چار دانگ عالم تک پہنچی ہو۔ وہ ہر تحسین اور خراج تحسین کا مستحق ہے۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز، اپنے مشاہیر کی عزت و توقیر میں کوئی کسر روا نہیں رکھتیں۔ہمیں بھی اپنے قومی و ملی شاعر کی خدمات کو فراموش نہیں کرناچائیے اور اس کے حیات افروز پیغام کو حرزِ جاں بنا لینا چائیے۔ (مضمون نگار طارق محمود مرزا”حیات و افکارِ اقبال“ کے مصنف ہیں۔ آسٹریلیا میں ”علامہ اقبال سٹڈی سرکل“ قائم کر کے فکر اقبال کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہتے ہیں۔))
|