چین کا روزگار کی فراہمی کا ماڈل

چین کا روزگار کی فراہمی کا ماڈل
تحریر: شاہد افراز خان ، بیجنگ

یہ کھلی حقیقت ہے کہ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ایک بڑا ملک ہے جہاں روزگار کی فراہمی کسی چیلنج سے کم نہیں ، مگر چینی قیادت کو داد دینی پڑے گی جس کی موثر پالیسیوں کی بدولت ملک ہر سال روزگار کے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے اورہنرمند افرادی قوت کی صلاحیتوں سےبھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ چین نے حالیہ برسوں میں ملک میں روزگار کے استحکام کو برقرار رکھا ہے، چودہویں پنج سالہ منصوبہ (2021-2025) کے دوران چین میں روزگار کی صورت حال مستحکم رہی اور معیار میں بھی بہتری آئی ہے۔

چودہویں پنج سالہ منصوبہ کے دوران چین میں روزگار کی صورت حال کو معاون پالیسیوں سے تقویت ملی اور یہ مجموعی طور پر مستحکم رہی ہے ، جبکہ اس ڈھانچے میں بہتری جاری رہی ہے اور روزگار کے معیار میں مسلسل بہتری آئی ہے۔چودہویں پنج سالہ منصوبے کے آغاز سے لے کر رواں سال اگست تک شہری علاقوں میں کل 59.21 ملین نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، جو 55 ملین کے ہدف سے متجاوز رہے ہیں۔

سال 2021 سے 2024 تک شہری علاقوں میں بے روزگاری کی اوسط شرح 5.3 فیصد رہی، جو 5.5 فیصد کے پہلے سے طے شدہ کنٹرول ہدف سے کم ہے۔اس عرصے کے دوران روزگار کے شعبہ میں تیز تر ترقی اور قابل ذکر چیلنجز دونوں کا سامنا رہا، جو عوام کی بہبود کی بنیاد ہے۔جامع روزگار کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی کوششیں کی گئی ہیں۔

2021 سے اب تک روزگار کے سبسڈی کے لیے 470 ارب یوان (تقریباً 66.06 ارب امریکی ڈالر) سے زیادہ کی رقم مختص کی گئی، جبکہ روزگار کے استحکام کی مالیت کی شکل میں 130 ارب یوان سے زیادہ جاری کئے گئے ہیں۔

اسی طرح 2021تا 2025 کی مدت کے دوران چین کے سماجی تحفظ کے نظام میں مسلسل بہتری آئی ہے۔ بنیادی پنشن انشورنس اسکیموں میں حصہ لینے والوں کی تعداد 107 کروڑ سے متجاوز رہی ہے، اور اس کے احاطے کی شرح تیرہویں پنج سالہ منصوبہ (2016-2020) کے آخر میں 91 فیصد سے بڑھ کر 95 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔

بے روزگاری انشورنس اور کام کے دوران زخمی ہونے والے افراد کی انشورنس بالترتیب 24.6 کروڑ اور 30.2 کروڑ تک پہنچ گئی ہے، جو 2020 کے آخر میں 29 ملین اور 34 ملین سے کہیں زیادہ ہے۔

اسی طرح چین نے کالج گریجویٹس جیسے اہم روزگار کے گروہوں کی حمایت میں اضافہ کیا ہے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ان کی ملازمتوں کا تحفظ مجموعی روزگار کے استحکام کی بنیاد ہے اور براہ راست عوام کی بہبود کو متاثر کرتا ہے۔

گریجویٹس کو ملازمتوں کے حصول میں مدد کے لیے ایک جامع حمایتی پیکج فراہم کیا گیا ہے، جو گریجویشن سے پہلے کیمپس کی خدمات سے شروع ہوتا ہے۔ گریجویشن کے بعد بھی ملازمت کی تلاش میں رہنے والوں کے لیے کیریئر گائیڈنس، نوکری کی مطابقت پذیری اور تربیتی مواقع جیسے اقدامات دستیاب ہیں۔

دیہاتی مزدوروں، خاص طور پر غربت سے نکلنے والوں کے لیے مستحکم روزگار برقرار رکھنے اور بے روزگار افراد کے جلد از جلد کام پر واپس آنے میں مدد کے لیے بھی کوششیں کی گئی ہیں۔

چودہویں پنج سالہ منصوبہ کے دوران چین کی معاشی طاقت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور اس کے صنعتی ڈھانچے میں مسلسل بہتری آئی ہے، جو روزگار کو مستحکم کرنے کی بنیاد رکھتی ہے۔اس دوران نئی ترقی کے محرکات پیدا کیے گئے ہیں۔

چین میں اس وقت 22 کروڑ سے زیادہ ہنر مند کارکن ہیں، جن میں 72 ملین سے زیادہ اعلیٰ ہنر مند پیشہ ور افراد شامل ہیں، جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ سطح کی خود انحصاری اور طاقت حاصل کرنے اور جدید صنعتی نظام کی ترقی کے لیے ایک اہم قوت ہیں۔

معیاری معاشی ترقی سے پیدا ہونے والی صلاحیت کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے چین نے ڈیجیٹل معیشت، جدید خدمات اور اسمارٹ مینوفیکچرنگ سمیت شعبوں میں گزشتہ پانچ سالوں میں 72 نئے پیشوں کو تسلیم کیا ہے۔چینی حکام کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نئے پیشوں میں منتقل ہونے والے کارکنوں کی حمایت کے لیے پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں کو مضبوط بنایا جائے گا۔

چین کی کوشش ہے کہ روزگار سے متعلق پالیسیوں کو بدلتے وقت کے تقاضوں کی روشنی میں مزید مضبوط کیا جائے اور مالی اور مالیاتی میدانوں میں روزگار کو فروغ دینے کے لئے کوششوں میں تیزی لائی جائے۔اس خاطر سروس سیکٹر، مائیکرو اور اسمال انٹرپرائزز اور سیلف ایمپلائمنٹ والے افراد کو مزید مدد فراہم کی جا رہی ہے جن میں روزگار کی بڑی گنجائش موجود ہے۔

کاروباری اسٹارٹ اپس کی حوصلہ افزائی اور غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے والوں کی مدد کے لئے اقدامات تیز کیے جا رہے ہیں ، جبکہ اہم گروہوں اور صنعتوں کے لئے بڑے پیمانے پر تربیتی پروگرام بھی متعارف کروائے گئے ہیں تاکہ روزگار کی نئی صورتیں اور نئے مواقع سامنے آ سکیں ۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1639 Articles with 939676 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More