جب اپنی ہی حکومت پر بندہ لعنت بھیج کر استعفیٰ دے

پاکستانی سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ یہاں وزیر اعلیٰ خود کو کامیاب بھی کہتا ہے، اور خود ہی اپنی پارٹی کی پچھلی حکومت کو ناکامی کی علامت بھی۔ اور پھر کہتا ہے کہ استعفیٰ دے رہا ہوں کیونکہ "قائد نے حکم دیا ہے"۔ ایسا ہی ایک مظاہرہ حال ہی میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کیا۔ 8 اکتوبر 2025 کو انہوں نے نہایت عاجزی سے استعفیٰ پیش کیا، اور دعویٰ کیا کہ ا±نہوں نے صوبے میں مالی استحکام، دہشت گردی کا خاتمہ اور ترقیاتی منصوبوں کی داغ بیل ڈالی۔

مگر ان کے استعفیٰ سے زیادہ دلچسپ وہ جملے تھے جو ا±نہوں نے وزیراعلیٰ بنتے وقت ادا کیے تھے۔ وہ فرما رہے تھے کہ:"گزشتہ حکومت نے صوبے کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔" یاد دہانی ضروری ہے کہ وہ "گزشتہ حکومت" بھی پی ٹی آئی ہی کی تھی۔ یعنی محترم نے پہلے خود اپنی پارٹی پر تنقید کی، پھر اس ہی پارٹی کے جھنڈے تلے حکومت کی، اور اب اسی پارٹی کی قیادت کے حکم پر استعفیٰ دے دیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے بندہ خود ہی باورچی ہو، خود ہی سالن خراب کرے، پھر کہے:"یہ کس بے غیرت نے نمک تیز کر دیا؟"

تحریک انصاف کی قیادت کے اندازِ سیاست کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ ہوگا: "ری سیٹ"۔ ہر نئی قیادت آتی ہے، کہتی ہے "پچھلے والے نالائق تھے" اور پھر خود وہی کچھ کرتی ہے۔ جب علی امین گنڈا پور آئے تو کہا کہ سابق حکومت ناکام تھی۔ جب اگلا آئے گا، وہ کہے گا گنڈا پور ناکام تھا۔ گویا ہر پی ٹی آئی حکومت کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ پچھلی پی ٹی آئی حکومت پر کیچڑ اچھالا جائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے گھر میں سب ایک ہی فیملی کے ہوں، مگر ہر نیا فرد آ کر کہے: "گھر تباہ ہے، اب میں اصل صفائی کروں گا!"

کیا استعفیٰ عوام کے لیے تھا؟نہیں۔ گنڈا پور نے واضح لکھا کہ یہ استعفیٰ عمران خان کے "احکامات" پر دے رہے ہیں۔ یعنی نہ کوئی عوامی دباو، نہ اپوزیشن کا مطالبہ، نہ کوئی عدالت کا فیصلہ۔بس لیڈر نے کہا:"چلو، استعفیٰ دو" اور محترم نے دے دیا۔ جمہوری نظام میں ایسا طرزِ عمل بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا عوام کے مینڈیٹ کی قیمت صرف ایک "حکم" ہے؟کیا ایک وزیر اعلیٰ اپنی مرضی سے حکومت چلا رہا تھا یا صرف کٹھ پتلی تھا؟ کامیابی کا دعویٰ اور ناکامی کا اعتراف — بیک وقت! استعفے میں ایک طرف کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے گئے:

مالی استحکام ‘ قرضوں کے میں ڈوبے خیبرپختونخواہ کی صورتحال سب کے سامنے ہیں‘ دہشت گردی اتنی بڑھ گئی ہیں کہ صرف گذشتہ روز سیکورٹی فورسز کے گیارہ جوان شہید ہوگئے اس ملک کی خاطر اور وہ بھی خیبرپختونخواہ میں ‘ وزیراعلی کے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کی جانب سے بھتے کیلئے کالیں وصول ہورہی ہیں.رہی ترقیاتی منصوبوں کی بات ‘ تو اللہ جانے ‘ اور دوسری طرف یہ بھی کہا گیا کہ جب حکومت سنبھالی تو "تباہی کا سامنا تھا"، جس کا ذمے دار "پچھلی حکومت" تھی۔یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے:"گھر لٹ چکا تھا، میں نے سب سنبھالا… مگر اب جا رہا ہوں کیونکہ مالک نے کہا ہے۔" نہ کوئی انکوائری، نہ احتساب، نہ کوئی سوال۔ یہ سب کچھ صرف پارٹی لیڈر کے اشارے پر ہو رہا ہے — اور یہی سب سے بڑا سیاسی بحران ہے۔

اگلا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ غالب امکان ہے، وہ بھی پی ٹی آئی ہی کا ہوگا۔ اور اس کا پہلا بیان کیا ہوگا؟ بالکل وہی جو گنڈا پور نے دیا تھا: "گزشتہ حکومت نے صوبے کو تباہ کیا۔ ہم اصل تبدیلی لائیں گے!" یعنی تماشہ جاری ہے۔ چہرے بدلتے رہیں گے، بیانیہ وہی رہے گا: پچھلے نالائق تھے، ہم اصل "نیا پاکستان" ہیں۔ اور عوام؟ بس تماشائی بنی، ہر نیا نعرہ سن کر تالیاں بجاتی رہے گی… یا شاید اب نہیں۔

علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ دراصل اس تسلسل کا حصہ ہے جہاں ہر پی ٹی آئی رہنما خود کو تبدیلی کا سفیر اور باقیوں کو ناکامی کا نشان بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہی وہ “musical chairs” والا کھیل ہے — جس میں کرسی گھومتی ہے، موسیقی چلتی ہے، ایک بندہ بیٹھتا ہے، دوسرا ہٹتا ہے — مگر آخر میں جیتنے والا ہمیشہ وہی ہوتا ہے جس نے گانا بجایا۔ جب تک سیاسی جماعتیں خوداحتسابی سے انکاری رہیں گی، اور ہر ناکامی پر نیا چہرہ آگے لا کر عوام کو بہلانے کی کوشش کریں گی — تب تک نہ تبدیلی آئے گی، نہ ترقی۔

اگر ہر بار نئی قیادت کا پہلا بیان یہ ہو کہ "پچھلی حکومت ناکام تھی" اور وہ پچھلی حکومت بھی آپ کی اپنی ہو، تو قصور کس کا ہے؟ عوام کا، جنہوں نے اعتبار کیا؟ یا پارٹی کا، جس نے اعتبار کے بدلے بیانیے بیچے؟پاکستان زندہ باد، لیکن سیاسی یادداشت کا علاج بھی ضروری ہے۔


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 810 Articles with 672766 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More