خُدایا! اِن خُداؤں سے رہائی ہو!
(Ammanullah Zubair, Karachi)
خُدایا! اِن خُداؤں سے رہائی ہو!
کل صبح آفس میں ایک کام کے حوالے سے سوشل میڈیا دیکھ رہا تھا تو سب سے پہلی پوسٹ پر ہمارے وزیراعظم کا ٹویٹ سامنے آیا، جس میں انہوں نے امریکہ کی جانب سے غزہ کے حوالے سے پیش کیے گئے ایک 'امن معاہدے' کے 20 نکات کی حمایت کی اور امریکی صدر کی کوششوں کو سراہا بھی۔ ایک ساتھی نے اس پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھا: ”پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے“ ۔ یہ جملہ پڑھتے ہی میرے ذہن میں ہلچل مچ گئی اور میں نے تحقیق کرنے کا ارادہ کیا۔ آفس میں مصروفیت کے باعث فوری طور پر تحقیق نہ ہو سکی، مگر گھر آ کر رات میں جو حقائق سامنے آئے وہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
جب پاکستان میں سیلاب آیا تو اس موقع پر ہمارے وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان، وزرائے اعلیٰ وغیرہ ملک میں صورتحال کا جائزہ لینے کے بجائے بیرونِ ملک مسلسل دوروں پر گئے…کبھی جاپان، کبھی چین، کبھی سعودی عرب، کبھی قطر۔ یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ جب اپنے ملک میں حالات خراب ہیں تو آپ دوسرے ممالک کے پاس کیا کرنے جا رہے ہیں؟ سوالات یہیں ختم نہیں ہوئے۔ جب سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ سامنے آیا تو وہ بھی اچانک ظاہر ہوا۔ عوام کے سامنے اچانک آیا، اور اس کے فوراً بعد وزیراعظم نے امریکی صدر سمیت مسلم ممالک کے بڑے عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور اقوامِ متحدہ میں تقریر بھی کی۔
ان تمام دوروں اور ملاقاتوں کا جو مقصد نمایاں دکھائی دیا وہ یہ تھا کہ امریکہ، جو خود کو سب سے بڑی قوت سمجھتا ہے، مسلم ممالک کو ایک مشترکہ چارٹر کے تحت یکجا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس چارٹر میں جو 20 نکات تھے انہیں سب سے پہلے پاکستان نے سراہا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں خصوصی طور پر پاکستان کا ذکر کیا اور ان ملاقاتوں کا تذکرہ کیا، جبکہ دیگر وزرائے اعظم کی جانب سے ایسی الاعلان تائید سامنے نہیں آئی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ حالیہ دنوں میں انہوں نے متعدد مسلم رہنماؤں سے بات کی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نکات حماس کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں، اور اگر حماس نہ مانا تو اسرائیل وہی کرے گا جو اسے ضروری لگے گا… اور ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے (یہاں ہم سے مراد وہ تمام ممالک ہیں جو اس معاہدے پر رضامند ہیں)۔ اسرائیل کے صدر نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ اگر حماس راضی ہو جائے تو بہتر، ورنہ وہ اس معاملے کو آخری مرحلے تک لے جائیں گے۔ انہوں نے مسلم ممالک کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اب اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہا کہ بہت جلد ایران بھی تسلیم کر لے گا (یہ الگ بحث ہے کہ ایران ایسا کرے گا یا نہیں)۔
سوال یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا معنی رکھتا ہے اور کیا یہ قبول کیا جانا چاہیے؟ میں نے معاہدے کے چند اہم نکات پڑھے جو میڈیا میں عام ہوئے، اور ان میں سے چند نہایت تشویشناک ہیں:
1. غزہ کو غیر مسلح کیا جائے گا تاکہ پڑوسی ممالک 'خطرہ' محسوس نہ کریں۔ بظاہر مختصر جملہ ہے مگر اس میں پوری مزاحمت کو ختم کرنے کا عندیہ ہے۔
2. غزہ کی تعمیر نو ہوگی مگر مکمل کنٹرول بین الاقوامی قوتوں کے ہاتھ میں ہوگا۔
3. جنگ کے خاتمے کی بات ہے مگر اس کی شرائط اور نفاذ کا اختیار مبہم اور یک طرفہ ہے۔
4. اسرائیلی فوج بظاہر پیچھے ہٹے گی مگر مکمل انخلا نہیں ہوگا، سکیورٹی کنٹرول برقرار رہے گا۔
5. حماس اگر 72 گھنٹوں میں نہ مانے تو اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے اور امریکہ سمیت تمام تائید کرنے والے ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
6. غزہ کی حکومت کے لیے ایک Board of Peace بنایا جائے گا، جس کی سربراہی خود ٹرمپ کریں گے۔ مقامی خود اختیاری ختم کر دی گئی ہے۔
7. حماس کو اس حکومت میں مؤثر کردار سے محروم رکھا گیا ہے۔
8. پورے علاقے سے ملٹری ہٹانے کے بجائے ایک بین الاقوامی فورس تعینات ہوگی جو امریکہ کی قیادت میں کام کرے گی۔
یہ سب کچھ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ایک ایسا ڈھانچہ بنایا جا رہا ہے جو غزہ کی مقامی خودمختاری، سیاسی قوتوں اور مزاحمتی عوامل کو ختم کر کے مکمل بین الاقوامی کنٹرول مسلط کرے گا۔
ہم پر بھی بطور قوم یہ سوال عائد ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران نے کن بنیادوں اور کن دستاویزات کو سامنے رکھ کر اس معاہدے کو 'تسلیم' کیا؟ نہ صرف تسلیم بلکہ سراہا۔ کیا پوری کابینہ یا پارلیمنٹ کو مکمل متن دکھایا گیا؟ عوام کو درست معلومات کیوں نہیں دی گئیں؟ یہ سارا عمل عوامی جوابدہی کے منافی ہے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے فیصلے اندھیرے میں کیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ آج ہمارے اوپر ایسے حکمران مسلط ہیں جو اپنے آپ کو خداوندِ وقت سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے اوپر بھی کچھ بڑے خدا بیٹھے ہیں…امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواری، جو پوری دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ ہماری ریاست نے ان خداؤں کے آگے سر جھکا دیا، اور یہ ہمارے لیے صرف سیاسی نہیں بلکہ تہذیبی، مذہبی اور قومی خودداری کا بھی سوال ہے۔
آخر میں وہی دعا جو عابی مکھنوی صاحب نے ان خداؤں کے لیے کی تھی، میں بھی دہراتا ہوں کہ:
خداؤں کی خداؤں سے لڑائی ہو، مزہ آئے تماشائی خدائی ہو!
خداؤں کے گھروں کو آگ لگ جائے، خداؤں کا بھی قاتِل کوئی بھائی ہو!
خداؤں کو گھسیٹیں ہم بھی جی بھر کے، خُداؤں کا تماشا ہو، دُھلائی ہو!
خداؤں کو بھی چوکوں پر کھڑے دیکھوں، خداؤں کی بھی روزی پھر ہوائی ہو!
خُدایا! سُن لے عابی کی یہ اِک عرضی، خُدایا، اِن خُداؤں سے رہائی ہو!
از قلم: امان اللّٰہ زبیر |
|