تیری بربادی کے مشورے ہیں آسمانوں میں

ڈاکٹر صفدر محمود اپنے ایک حالیہ کالم”پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی“ میں لکھتے ہیں کہ ”مجھے اپنی تاریخ کا یہ اہم سیاسی کردار لیاقت علی خان اس لئے پسند ہے کہ یہ ہمارے چند لیڈروں کی اس صف میں شامل تھا جن سے ملک و قوم کے لئے ایثار کی روشن داستانیں وابستہ ہیں اور جن کے لئے سیاست عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔ اس صف اول کے لیڈران کے ختم ہوتے ہی وہ غدر مچا کہ خدا پناہ… ان کی کرسیوں اور گدیوں پر بیٹھنے والوں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا اور اندرون بیرون ملک دولت کے ڈھیر لگا دیئے جبکہ تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل قائد اعظم کے یہ ساتھی سب کچھ ملک و قوم کو دے کر تہی دامن اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ قائد اعظم کی ذات میں کچھ ایسا جادو یا کرشمہ ضرور تھا جو لوہے کو سونا اور پلاٹینم بنا دیتا تھا اور دل میں قوم سے محبت اور ایثار کے چراغ جلا دیتا تھا… ورنہ اتنا بڑا تضاد سمجھ میں نہیں آتا۔ قائد اعظم سے لے کر ایوبی مارشل لاءسے قبل آخری جمہوری وزیر اعظم ملک فیروز خان نون تک کسی بھی وزیر اعظم کے دامن پر کرپشن، لوٹ مار ، عہدے کا ناجائز استعمال وغیرہ کے الزامات نہیں لگے لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی اور جنرل ایوب خان سے لے کر آج تک کسی بھی وزیر اعظم کا دامن ان الزامات سے صاف نہیں۔ لوٹ مار کی پانچ دہائیوں پر پھیلی ہوئی واردات نے ملک کو اَن گنت مسائل میں مبتلا کر دیا ہے اور ان میں ایک خوفناک مسئلہ کرپشن ہے جو اوپر سے سفر کرتی ہوئی نیچے تک پہنچ گئی ہے۔ اب تو لوگوں نے کرپشن سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور اسے اپنی زندگی کی ایک قدر تسلیم کر لیا ہے۔ میرے نزدیک یہ خطرناک ترین پیشرفت ہے کہ لوگوں کے دلوں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو کہ جنرل ایوب خان نے تحریک پاکستان کے لیڈروں اور قائد اعظم کے سپاہیوں کو سیاسی زندگی سے عاق کر کے جرنیلوں اور ایسے سیاستدانوں کو شریک اقتدار کیا جن کا نہ سیاسی پس منظر تھا اور نہ ہی وہ تحریک پاکستان میں شامل تھے کہ ان کے دلوں میں پاکستان کے لئے وہ جذبہ ہوتا جو قائد اعظم کے ساتھیوں کے دلوں میں تھا۔“

بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ جنرل ایوب خان کے مارشل لاءسے پہلے کوئی اپنی دولت کے بل پر سیاسی رہنما تو دور کی بات سیاسی کارکن بھی نہیں بن سکتا تھا۔سیاسی کارکن کو معاشرے میں عزت حاصل تھی کیونکہ اس وقت سیاست کا مطلب قومی نظریات کی روشنی میںملک کا نظام عوام کے مفاد میں چلانا تھا۔ملک میں طاقت، دھونس اور لاقانونیت کا چلن عام ہوا تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒقیادت کے لئے میدان میں نکل آئیں اور محب وطن عوام کی واضح اکثریت مادر ملت کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے ۔ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں ہم پاکستان مخالف عنصر کہتے رہے ہیں۔اس کے مقابلے میںجنرل ایوب خان نے بنیادی جمہورت کے نام پر ایسا نظام تشکیل دیا جس میں سیاسی کارکنوں کے مقابلے میں ایک نئی مفاد پرست و بد عمل افراد کی کھیپ تیار کی گئی اور سیاست کے لئے ایسے افراد کی پنیریاں مخصوص گملوں میں تیار ہونے لگیں۔اور اب یہ عالم ہے کہ عوام بھی سیاست میں کسی شریف آدمی کو قبول ہی نہیں کرتے ،سیاست کے لئے پارٹی ٹکٹ کے علاوہ ہماری عوامی توقعات میں بھی دولت مند ہونا لازمی ہے باقی تمام امور غیر ضروری ہیں۔عوام قومی مفاد کی سیاست کرنے والوں کو الیکشن سے پہلے ہی مسترد کرتے ہیں اور سیاست کو مال و طاقت کا ذریعہ بنانے والے ہی سیاست کے مروجہ تقاضوں پر پورا اترتے ہیں۔

قومی فکر پر مبنی رائے میںہم صرف جنرل ایوب خان،جنرل یحی خان،جنرل ضیاءالحق،جنرل پرویز مشرف کو مورد الزام ٹہرا کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔اس میں ان کے تمام ساتھی بھی شامل تھے اور ملک و عوام کی اس ابتر حال میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ان طالع آزماﺅں نے حقیقی سیاسی جماعتوں کو خاتمے کی راہ دکھائی، قبیلائی، علاقائیت وشخصیت پرستی کو ہوا دی ۔ سیاست میں ایسے ہی افراد کایہی چلن جاری ہے اور اب یہ منظر ہے کہ ارباب اختیار ،ہماری تمام سیاست ہی پیٹ سے سوچنے والوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور ملک و عوام کے ” مائی باپ “ اب بھی وہی ہیں جنہوں نے باکردار سیاست دانوں کو مختلف طریقوں سے ختم کر دیا اور بدکرداری پر مبنی سیاست کو فروغ دیا۔کیا قیامت ہے کہ جمہوریت ، سیاست کے نام مچنے والے طوفان بدتمیزی پریہی عناصر کہتے ہیں کہ دیکھ لی جمہوریت۔ جبکہ حقیقت میں جمہوریت کو ملک میں آنے ہی کہاں دیا گیا ہے۔طالع آزماﺅں نے حکومت کے نام پر ایک بھاری بھرکم پرتعیش استحصالی ڈھانچہ تشکیل دیا ہوا ہے اور عوام اس استحصالی ڈھانچے پر براجمان ہر نئے آنے والے سے ملک و عوام کی بہتری کی توقعات باندھ لیتے ہیں۔حقیقت سے دیکھیں تو پہلے مارشل لاءسے اب تک اسی غیرآئینی و غیر قانونی حکومت کے تسلسل میں حکومت سازی کا عمل چل رہا ہے۔

آزاد کشمیر کے سابق ڈپٹی سپیکر سید غلام حسن کرمانی(مرحوم) نہایت زندہ دل شخصیت تھے۔تقریبا دو عشرے پہلے کی بات ہے کہ میں خواجہ عبدالصمد وانی(مرحوم) اور سید غلام حسن کرمانی کے ہمراہ میر پور سے راولپنڈی آ رہا تھا۔میر پور سے ایک جماعتی کارکن بھی ساتھ بیٹھ گیا ،اس نے دینہ تک جانا تھا۔دبلے پتلے جسم کاوہ کارکن نہایت اداس طبیعت لئے گاڑی میں بیٹھا تھا۔راستے میںوانی صاحب سے باتیں کرتے کرتے اچانک کرمانی صاحب نے اس کارکن سے پوچھا کہ تمھیں کیا ہوا ہے جو اس طرح منہ لٹکا کر بیٹھے ہوئے ہو۔اس کارکن نے جواب دیا ،جی مجھے شوگر ہے۔کرمانی صاحب کہنے لگے ” شوگر ہے تو کیا ہوا،مجھے دیکھو مجھے شوگر ہے،بلڈ پریشر ہے اور بھی کئی بیماریاں ہیں لیکن میں خوش وخرم ہوں کیونکہ میرے پاس پیسہ ہے،تمھاری یہ حالت شوگر سے نہیں بلکہ غربت سے ہے۔“

پاکستان میں عوام کو ہر روز اور نت نئے مسائل،مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے۔ریاست کوتو نہیں البتہ پاکستان کی حکومت، انتظامیہ کو ضرور ناکام کہا جا سکتا ہے۔حکومت اور انتظامیہ کی یہ ناکامی عوامی ،قومی نکتہ نظر سے ہے ورنہ اگر ارباب اختیار کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو وہ سو فیصد کامیاب چلے آ رہے ہیں۔کبھی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ،ملک میں توانائی کے ذرائع کی قلت کا مسئلہ،برق رفتاری سے بڑہتی ہوئی بجلی،پیٹرول،ڈیزل،گیس کی قیمتوں کا مسئلہ،اشیائے ضروریہ کی ناقابل برداشت گرانی کا مسئلہ،حکومتی،انتظامی اداروں کی غفلت ،ناہلی کا مسئلہ،نا انصافی کا مسئلہ،اختیارو طاقت کے بل بوتے ناجائز کاروائیوں کا مسئلہ،عوام کو کمتر مخلوق سمجھنے کا مسئلہ۔بنیادی مسئلہ حکمرانوں کی بد کرداری کا ہے،۔بد کردار افراد جب نظام چلاتے ہیں تو ملک و عوام کو ہر معاملے میں مسائل و مشکلات درپیش ہوں گے،زندگی جہنم بنی رہے گی،ملک ناکام اور عوام نامراد و بے توقیر ہی رہیں گے۔اس بد نصیبی کا کیا ذکر کہ ہماری طاقت ہی ہماری بربادی کا عفریت بن گئی ہے اور ملک وعوام کو واپس باکردار بنانے کے راستے پر ڈالنا ایک ایسا سہانا سپنا ہی محسوس ہوتا ہے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہم نے بحیثیت مجموعی برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی بنا لیا ہے۔طاقتور کی تابعداری،منافقت ،خوشامد،شخصیت پرستی ہمارا خاصہ بن چکا ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ملک میں جہالت مسلسل حکمرانی کر رہی ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699846 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More