زمرہ جات : ہمارا معاشرہ‘ انفارمیشن
ٹیکنالوجی
محترم قارئین صدائے مسلم! آج ایسی شحصیت کی مختصر سوانح پیش کرنے کی سعی کی
ہے جس نے ملک پاکستان اور اس کے آنے والی نسلوں کی بقا کے لئے اپنی قومی
خدمات پیش کرکے ملک کو اس قابل بنایا کہ آج ملک پاکستان ایک ایسے موڑ پر
کھڑا ہے جہاں دنیا اور خصوصاً اہل اسلام اسے اہمیت دیتی ہے،ڈاکٹر عبد
القدیر خان انڈیا میں 1936ء میں پیدا ہوئے ، آپ نے 1952میں ایک عام سے سکول
سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایک روایت کے مطابق آپ میٹرک میں حساب کے
مضمون میں فیل ہوئے، یعنی ڈاکٹر صاحب بہت زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلباء
میں نہیں تھے۔ اسی سال آپ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ انہوں نے کراچی میں
F.Sc(انجینئرنگ ) میں داخلہ لیا، انہیں فزکس کا مضمون بہت پسند تھا۔ اسی
دور میں انہوں نے فزکس میں کمال حاصل کرنے کا عہد کر لیا۔
ڈاکٹر خان کو بچپن سے ہی مطالعے کا شوق تھا۔ آپ نسیم حجازی کے ناول بہت شوق
سے پڑھتے تھے اور نسیم حجازی کو ہندوستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی باعث
سمجھتے تھے اورا پنے دوستوں کو ان کے ناول پڑھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔
بچپن ہی سے آپ کے خیالات بہت بلند تھے۔ آپ اونچے خواب دیکھتے اور دوستون سے
کہتے ’’ یار سنو! اسے دیوانے کا خواب نہ سمجھنا ، میں بڑا ہو کر سائنس
پڑھونگا اور بہت بڑا انجینئر بن کرایک ایسا منصوبہ بناؤ گا جس کو دنیا یاد
رکھے گی۔۔۔اور اپنے کام سے مسلم امہ کوفائدہ پہنچاؤں گا۔اگرچہ F.Scمیں نہ
انہوں نے ٹاپ کیا اور نہ وظیفہ حاصل کیا مگر ان کے د ل و دماغ میں ایک بڑا
انجینئر بننے کا بھوت سوار تھا۔ یعنی ان کو اپنے مقاصد حیات کا شعور تھا
اور ان کا مقصد بہت واضح تھا۔ اگرچہ انہوں نے اپنے مقصد حیات کو قلمبندنہیں
کیا تھا تاہم وہ اس کا گہرا ادراک رکھتے تھے. انہوں نے1957میں B.Scکی ۔بی
ایس سی میں بھی و ٹاپر نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے کوئی وظیفہ حاصل کیا۔ ان
دنوں ان کے مالی حالات اچھے نہ تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنی اعلٰی تعلیم جاری
نہ رکھ سکے۔ چنانچہ انہوں نے ملازمت اختیار کی اور محکمہ اوزان و پیمانہ
جات میں انسپکٹر بھرتی ہو گئے۔ اس محکمہ میں انہوں نے تین سال ملازمت کی ۔
ان تین برسوں کے دوران کوئی بھی دن ایسا نہ تھا جب انہوں نے اعلٰی تعلیم کے
حصول کی خاطربیرون ملک جانے کے لئے تگ و دو نہ کی ہو۔ وہ جرمنی کی مختلف
یونیورسٹیوں کو اپنے کوائف ارسال کرتے رہے مگر انہیں داخلہ نہ ملا۔ وہ ان
ناکامیوں سے مایوس نہ ہوئے بلکہ اپنی کوشش جاری رکھی ان کو اپنی کامیابی کا
پورا یقین تھا چنانچہ اس دوران میں انہوں نے جرمن زبان بھی سیکھ لی ۔ ان کی
استقامت رنگ لائی اور آخر کار تیسرے سال ان کو جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں
داخلہ مل گیا وہاں انہوں نے دو سال تعلیم حاصل کی ۔ وہاں سے وہ ہالینڈ چلے
گئے جہاں انہوں نے 1967ء میں ایم ایس سی کا امتحان پاس کیا۔
1967ء میں ڈاکٹر خان پاکستان آئے اور کراچی سٹیل ملز میں ملازمت حاصل کرنے
کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے کوئی بڑا کام لینا تھا،
چنانچہ وہ ہالینڈ واپس چلے گئے ۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے بیلجیم سے Ph.Dکی
ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان سے بے پناہ محبت ہے، وہ اپنے ملک ملک
کی خدمت کے لئے پاکستان آنا چاھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان کے مختلف
اداروں کو اپنی خدمات پیش کین مگر کسی ادارے نے ان کی خدمات سے فائدہ
اٹھانے کے لئے رضامند ی کااظہار نہ کیا۔ تاہم یہ ناکامی ان کو مایوس نہ
کرسکی۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ڈاکٹر بیلجم میں تھے۔وہاں انہوں نے ٹیلی ویژن
پر سقوط ڈھاکہ کی فلم میں پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالتے دیکھا تو تڑپ کر رہ
گئے۔وہ اپنے ملک کی ناتوانی پر بے چین تھے اور کئی ہفتے انہوں نے کرب و
اذیت میں گزارے۔یہ لمحہ ان کی زندگی کا سنگ میل تھاجب انہوں نے فیصلہ کیا
کہ وہ اپنی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں پاکستان کے لئے وقف کر دیں گے اور
اسے ناقابل تسخیر بنائے گے، چنانچہ انہوں نے نئے سر ے سے پاکستان آنے کے
لئے رابطے شروع کر دیے مگر آپ کو کویہ مثبت جواب نہ ملاتاہم انہوں نے حوصلہ
نہ چھوڑا۔ اسی دوراں 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر دیا جس سے ڈاکٹر
خان کے دل پر ایک گہرا چرکہ لگا۔ بار بار کی ناکامیوں نے ان کے حوصلے پست
نہ کئے۔ چنانچہ ایک بار پھر انہوں نے پاکستان آنے کی کوشش کی اس مرتبہ
انہوں نے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو براہ راست خط لکھا۔ ڈاکٹر
خان ان کو بتایا کہ وہ پاکستان کو سستی اور ایٹمی صلاحیت فراہم کر سکتے ہیں۔
بھٹو نے آپ کو پاکستان آنے کی دعوت دی ، چنانچہ آپ ملک کی خدمت کے جذنے کے
تحت مئی 1976ء میں ہالینڈ میں بہت اچھی ملازمت چھوڑ کر معاوضے پر پاکستان آ
گئے ، انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی میں بطور ایڈوائزر کام کرنا شروع کر
دیا مگر کمیشن کے لوگوں خصوصاً منیر احمد خان نے آ پ کو بہت پریشان کیا، اس
نے ڈاکٹر خان کو بھگانے کی بھرپور کوشش کی،تاہم پاکستان کی خوش قسمتی کہ
ڈاکٹر صاحب ثابت قدم رہے۔ جب بھٹو کو اس صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے
جولائی 1976میں کہوتہ پراجیکٹ کو اٹامک انرجی کمیشن سے علیحدہ کرکے خود
مختار ادارہ بنا دیا۔
ڈاکٹر خان نے بے سروسامانی اور مایوسی کی فضا میں جوہری منصوبے کی داغ بیل
ڈالی اور اس پراجیکٹ کی تعمیر کے لئے تیز رفتاری سے کام شروع کیا۔اس کے لئے
انہوں نے اپنی تمام تر صلاحتیں کھپا دیں۔ دن رات ایک کر دیا۔ اپنے بیوی
بچوں تک کو بھول گئے۔ آپ بیس بیس گھنٹے تک کام کرتے۔بالآخر 1978 میں ڈاکٹر
خان سینٹری فیوج کے تحت یورینئم کوا فزودہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ
حیران کن کام آپ نے صرف تین سال کے قلیل عرصہ میں کر دکھایا۔
اگرچہ پاکستان ایٹم بم کا دھماکہ 1984ء میں کر سکتا تھا مگر بعض مصلحتوں کی
وجہ سے اس میں تاخیر کی گئی۔ ایٹم بم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر خان نے میزائل
سازی کا بیڑا بھی اٹھایا، چنانچہ کہوٹہ لیب نے 1989ء میں زمین سے فضا میں
کم فاصلے تک مار کر نے والا کندھے پر رکھ کر چلایا جانے والا عنزہ میزائل
بنایا۔ پھر زمین سے زمین پر اینٹی ٹینک بکتر شکن میزائل بنایا ۔1998میں
ڈاکٹر خان نے زمین سے زمین تک 1500کلومیٹر تک مار کرنے والا مہلک اور جدید
ترین بیلسٹک میزائل غوری نمبر ۱کا تحفہ دیا۔ یہ میزائل ایٹمی میزائل لے
جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 1999ء میں غوری IIکا کامیاب تجربہ کیا۔ اس کے
علاوہ آپ نے لیزر بم بھی بنایا۔
آخر کار ڈاکٹر خان نے اپنے بچپن کا خواب سچ کر دکھایا ۔ اوسط درجہ کی ذہانت
اور تعلیمی کیرئر کے مالک ڈاکٹر نے وہ معجزہ کر دکھایا جو سارے عالم اسلام
کے ذہین فطین اور ٹاپر نہ دکھا سکے۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر قدیر خان کو ان
کی خدمات کے اعتراف کے طور پر بلال امتیاز سے نوازا۔ 2001میں ڈاکٹر خان
ریٹائرڈ ہوئے اور آج کل ریٹارمنٹ کی زندگی بسر کر رہے۔
قارئین ڈاکٹر قدیر خان کی زندگی کے بیان کردہ پہلوؤں اگر جائزہ لیا جائے تو
یہ حقیقت ہم پر عیاں ہو جاتی ہے اپنے مقاصد کے حصول کے جہد مسلسل ‘ہمت
وحوصلہ اور قربانی دینی پڑتی ہے ، جیسا کہ بتایا گیا کہ ڈاکٹر خان اپنے
تعلیمی کرئیر میں کوئی اچھے اور فتین طلباء میں نہ تھے لیکن ان کا مشن اور
مقصد حیات واضح تھا جس کے حصول کے لئے انہوں نے اپنی تگ ودو جاری رکھی اور
اللہ نے انہیں کامیابی دی۔
شاعر نے کیا خوب کہا
پہلی سیڑھی پر قدرکھ ‘آخری پر رکھ نظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منزلوں کی جستجومیں رائیگاں
اک پل نہ ہو۔ |