محمد منشا یاد: حیات و ادبی خدمات

 جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز افسانہ نگار محمد منشا یاد نے ترک رفاقت کی ۔دل کے جان لیوا دورے نے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا ۔علم و ادب کا وہ نیر تاباںجو 5ستمبر 1937کو ضلع شیخوپورہ کے قصبے ٹھٹہ نستر سے طلوع ہوا15۔اکتوبر2011کو اسلام آباد کے افق سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب غرو ب ہو گیا ۔اتنے بڑے ادیب کا زینہءہستی سے اتر جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے ان کی رحلت پر بزم ادب برسوں تک سوگوار رہے گی ۔یہ عظیم تخلیق کار اسلام آباد کے شہر خموشاں میں ابدی نیند سو رہا ہے ۔دنیا بھر میں ان کے کروڑوں مداح ان کی وفات پر سکتے کے عالم میں ہیں ۔اسلام آباد میںجب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئے تو پورا شہر احساس زیاں کے باعث حسرت و یاس کی تصویر پیش کر رہا تھا ۔ ہر مکتبہ ءفکر کے لوگ اس صدمے سے نڈھال تھے ۔ اس شہر میں ہو کا عالم تھا ،اشک رواں کی لہر تھی جس نے پورے ماحول پرعالم حزن و یاس کی کیفیت طاری کر دی تھی ۔لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور ایک دوسرے کو پرسہ دے رہے تھے ۔محمد منشا یاد ایک ایسا رانجھا تھا جو سب کا سانجھا تھا۔سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں سمٹ آیاتھا ۔صداقت نگاری ،فطرت نگاری ،حریت فکر اور حسن و عشق کی مرقع نگاری کرنے والا تخلیق کار کیا گیا کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے بے معنی ہو کر رہ گئے ۔ہجوم غم میں دل کو سنبھالنے کی کو شش ناکام ہو گئی ۔ہر شخص سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔راول پنڈی ،اسلام آباد اور پاکستان کے طول و عرض سے آنے والے ہزاروں سوگواروںنے اس لافانی تخلیق کار کو آنسوﺅں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مٹی میں چراغ رکھ دیا تا کہ زمیں کے اندر بھی سفاک ظلمتوں کو کافور کیا جا سکے ۔زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ کی گرہ کشائی کون کر سکا ہے ۔موت ایک ایسا درد لا دوا دے جاتی ہے جس کا مداواکبھی ممکن نہیں ۔یہ ایک ایسا زخم ہے جس کے اندما ل کی کوئی صور ت موجود نہیں ۔تقدیر کا سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ یہ ہر لمحہ ہر گام تمام انسانی تدبیروں اور منصوبوں کے پر خچے اڑا کے رکھ دیتی ہے تما م حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں ۔یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں دیکھ کر ہم جیتے ہیں وہ جب آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو زندگی ایک جبر مسلسل کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ زندگی تو مر مر کے جیے جانے کا نام ہے ۔اس فلک پیر نے ہمیںکس قدر جان لیوا صدمات سے دو چار کر دیا ہے ان کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

محمد منشا یاد کے والد حاجی نذیر احمد پیشے کے اعتبار سے کسان تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ طب اسلامی کے ممتاز حکیم تھے ۔ان کی طبابت کے پورے علاقے میں چرچے تھے اور دکھی انسایت کی بے لوث خدمت ان کا شعار تھا ۔انھوں نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ ابھی محمد منشا یاد کی عمر تین سال تھی جب ان کی والدہ انھیں پنجابی لوک کہانیاں،نعتیں ،اسلامی واقعات اور داستانیں سناتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ داستان اور افسانے سے وابستگی ان کی گھٹی میں پڑی تھی ۔۔محمد منشا یاد نے ایم ۔بی ہائی سکول نمبر 1سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبر حاصل کر کے 1955میںپاس کیا ۔زمانہ طالب علمی ہی سے انھو ں نے اپنی خداداد ذہانت اور تخلیقی فعالیت سے اپنے اساتذہ اور ہم جماعتوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ابھی وہ چھٹی جماعت کے طالب علم تھے کہ ان کی نظمیں ،کہانیاں اور نعتیں ادبی مجلات میں شائع ہونے لگیں ان کے اساتذہ نے ان کی حوصلہ افزائی کی ۔میٹرک کے بعد وہ گورنمنٹ سکول آف انجنیئر نگ (GSE) رسول میں داخل ہوئے اور وہاں سے 1957 میں سول انجینیرنگ میں ڈپلوما حاصل کیا ۔یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ محکمہ پی۔ ڈبلیو۔ ڈی (P.W.D)میں ملازم ہو گئے اور دو سال (1958-1960)اس محکمہ میں سب انجینئیر کی حیثیت سے راول پنڈی اور مری میں خدمات انجام دیتے رہے ۔مئی 1960میں انھوں نے وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے (CDA)اسلام آباد میں شمولیت اختیار کر لی اور اسی ادارے سے 1997میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد وہ شام کو اپنی تعلیم پر توجہ دیتے اور مزید تعلیم کے لیے نہایت انہماک سے کام جاری رکھا ۔انھوں نے 1964میں فاضل اردو کا امتحان پاس کیا۔ جامعہ پنجاب سے بی ۔ اے کا امتحان 1965میں ،ایم ۔اے اردو کا امتحان 1967میں اور ایم۔اے پنجابی کا امتحان 1972میں اعلیٰ نمبر حاصل کر کے پاس کیا ۔ان کا پہلا افسانہ 1955میں شائع ہوا۔اس کے بعد ان کی درج ذیل تصانیف منظر عام پر آئیں ان کتب کو علمی و ادبی حلقوں نے بہ نظر تحسین دیکھا:
افسانوی مجموعے
۱۔ بند مٹھی میں جگنو(1975) ۲۔ ماس اور مٹی ( 1980 )
۳۔ خلا اندر خلا(1983 ) ۴۔ وقت سمندر( 1986 )
۵۔ وگدا پانی ( 1987 ) ۶۔ درخت آدمی( 1990 )
۷۔ دور کی آواز ( 1994 ) ۸۔ تماشا ( 1998)
۹۔ خواب سرائے ( 2005 )
ناول ۱۔ ٹانواں ٹانواں تارا ۔پنجابی ( 1997) ۲۔ ناول (اردو) زیر تصنیف
متعلقہ کتب انتھالو جیز اور رسائل

۱۔ منشا یاد کے تیس منتخب افسانے مرتبہ خارو نقوی 1992 (پاکستان بکس لٹریری ساﺅتھ ، لاہور)
۲۔ منشایا د کے بہترین افسانے مرتبہ امجد اسلام امجد1993 ( ادب پبلی کیشنز۔ نئی دہلی )
۳۔ منتخب کہانیاں ( انگریزی تراجم ) مرتبہ جمیل آزر 1994 ( سٹرلنگ پبلشرز ۔ نئی دہلی اور لاہور )
۴۔ منشا یاد کہانی نمبر لہراں لاہور 1986
۵۔ منشایاد کے منتخب افسانے مرتبہ طاہر اسلم گورا اور امجد طفیل( 1997)
۶۔ شہر افسانہ ( خود منتخب کردہ پچاس افسانوں کی انتھالوجی )2004
۷۔ منشایاد کے منتخب افسانے ۔تر تیب و مقدمہ ڈاکٹر اقبال آفاقی 2008
اعزازات
۱۔ ادب (ناول ۔ افسانہ ) کے شعبے میں نمایاں کار کردگی پر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ( پرا ئڈ آف پر فارمنس2004)
۲۔ پنجابی افسانوں کے مجموعے ” وگدا پانی “ پر اکادمی ادبیات پا کستان کا ” وارث شاہ ایوارڈ (1987 )
۳۔ اردو افسانے ” تاج محل کی سیر “ ( ریپلیکا) پر نقوش ادبی ایوارڈ (1989)
۴۔ پنجابی ناول ” ٹانواں ٹانواں تارا “ (مسعو د کھدر پوش ایوارڈ ) اور اکادمی ادبیات پاکستان کا وارث شاہ ایوارڈ ( 1998)
۵۔ ڈراما سیریل ” راہیں “ پر پی ٹی وی ینشنل ایوارڈ برائے سال 1998
۶۔فیض محمد ٹرسٹ لاہور نے محمد منشا یاد کی تصنیف خواب سرائے (2005)پر انھیں احمد ندیم قاسمی ایوارڈ سے نوازا۔
۷۔عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ انھیں دوحہ قطر میں 2008میں دیا گیا۔عالمی سطح پر ان کی علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔
۸۔نامور ماہر لسانیات ایم مبین نے منشا یاد کے ایک شاہ کار افسانے ”بند مٹھی میں جگنو“کا بھارت کی آٹھ زبانوں میں ترجمہ کر کے تہذیبی اور ثقافتی سنگم کی راہ ہموار کردی ۔اس طرح اس عظیم تخلیق کار کی تخلیقی کامرانیوں کے بارے میں حقیقی شعور اور آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملی ۔
۸۔منشا یاد کی حیات اور ادبی خدمات پر ایک وقیع تصنیف ”محمد منشا یاد :شخصیت اور فن “اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے زیر اہتمام شائع ہوئی ۔اس کے مصنف اسلم سراج الدین ہیں۔
۹۔عالمی شہرت کی حامل نامور ادیبہ امرتا پریتم نے محمد منشا یاد کے نمائندہ افسانوں کو اپنے وقیع ادبی مجلے” ناگ منی“میں شامل کیا اور ان کے تراجم گور مکھی زبان میں کیے۔

قلم و قرطاس کے معتبر حوالے سے انھوں نے بے پناہ محبتیں اور چاہتیں سمیٹیں۔دنیا بھر کے ادیب ان کی ادبی کامرانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔اس سلسلے میں بعض باتیں زبان زد عام ہیں ان کا ذکر قارئین کے لیے دلچسپی کا وسیلہ ثابت ہو گا ۔نامور شاعر ماجد صدیقی نے اس شعر میں منشا یاد کو نہایت دلکش انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے ۔
پھولوں جیسے بول ہیںاس کے پیڑوں جیسی چھاﺅں
انساں ہے اپنی مرضی کا منشا اس کا ناﺅں

ادبی محفلوں میں منشا یاد ہمیشہ مرکز نگاہ بنے رہتے ۔مشاہیر ادب ہوں یا نو جوان اہل قلم سب ان کی عزت و تکریم کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ۔ممتاز افسانہ نگار نیلو فر اقبال کی رہائش گاہ پر ایک ادبی نشست کا اہتمام تھا ۔اس میں پاکستان کے کچھ نامور ادیب مدعو تھے۔جوں ہی منشا یاد پہنچے احمد فراز نے انھیں دیکھتے ہی بر جستہ کہا ” اللہ کی مرضی تھی کہ منشا نہ رہے یاد ۔“پاس ہی احمد ندیم قاسمی بیٹھے تھے ،انھوں نے فی الفور اس میں ترمیم کی اور جواب میں کہا ”اللہ کی مرضی ہے کہ منشا ہی رہے یاد“اس لطیف گفتگو سے محفل کشت زعفران بن گئی۔اپنے حلقہءاحباب میں وہ بریشم کی طرح نرم و گداز گفتگو کرتے ۔ان کی پر لطف باتیں سن کر ان کے احباب پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ۔ان کے احباب میں ممتاز مفتی ،نذیر احمد شیخ ،کرنل محمد خان ،شفیق الرحمٰن،سید جعفر طاہر ،سید ضمیر جعفری ، صدیق سالک ، منصور قیصر ،اعجاز راہی ،بشیر سیفی ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض ،نظیر صدیقی ،خاطر غزنوی ،صہبا لکھنوی ،شبنم رومانی ،محسن بھوپالی ، شہزاد منظر ،نور احمد ثاقب ،اقتدار واجد ،غلام علی چین ،رانا سلطان محمود ،شیر افضل جعفری ،کبیر انور جعفری ،سمیع اللہ قریشی ، صابر کلوروی اور رام ریاض شامل تھے ۔دوستوں کے انتخاب میں جس وضع احتیاط کے و ہ قائل تھے وہ ان کے مزاج کی آئینہ دار ہے ۔تمام ملنے والوں سے اخلاق اور اخلاص سے بھر پور بر تاﺅ کرنا ان کا شیوہ تھا ۔ اس میں وہ اپنے یا بیگانے کی تفریق کے قائل نہ تھے ۔ دلوں کو مسخر کر نا انھیں خوب آتا تھا ۔ جو بھی ان سے ایک بار مل لیتا وہ ان کی وضع داری اور حسن سلوک کا شیدائی ہو جاتا تھا یہاں تک کہ وضیع لوگوں سے بھی انھوں نے کبھی دل برا نہ کیا ۔ان کا پیغام سب سے محبت اور خلوص پر مبنی تھا ۔بے لوث محبت اور بے باک صداقت کا یہ ارفع معیار اب کہاں ؟

محمد منشا یاد کی گل افشانی گفتار ان کا امتیازی وصف تھا۔موقع و محل کی مناسبت سے وہ تبسم زیر لب کی کیفیت پیدا کرنے میں اپنی مثال آپ تھے ۔یہاں تک کہ وہ اپنی ذات کو بھی طنز و مزاح کا ہدف بنانے سے گریز نہ کرتے ۔ زندگی کی نا ہمواریوں ،بے اعتدالیوں اور تضادات کے بارے میں ان کا ہمدردانہ شعور ان کی عالی ظرفی کی دلیل ہے ۔مزاحیہ صورت واقعہ کو سامنے لا کر مزاح پیدا کرنا ان کے اسلوب کا ایک اہم وصف ہے ۔ان کے انداز گفتگو میں تصنع اور تکلف کا کہیںشائبہ نہیں گزرتا ۔اپنے نام کے متعلق ان کی گل افشانی ءگفتار کی ایک مثال پیش خدمت ہے : ” کچھ لو گ ہمارے نام کو مغالطے سے منشانت ، منشا حیات یا منشا یار بولتے ہیں ۔آپ نے مشہور بھارتی اداکارہ منیشا کوئرالہ کا نام تو سنا ہوگا ۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ بھی منشا ہی میں غلط جگہ پر ایک ی بڑ ھا کر بنا یا گیا ہے ۔ لیکن گذشتہ دنوں ایک بھا رتی چینل پر ” منشا “ نام کا ٹی وی سیریل بھی چل رہا تھا ۔ جس کے آ غا ز میں بلند آواز میں کوئی خاتون ” منشا منشا “ پکارتی تھی ۔ ایک روز ہم میاں بیوی نے اس کا کچھ حصہ دیکھا اور ہماری بیگم کا ہنس ہنس کر بر ا حال ہو گیا کیو نکہ منشا اس کی ہیروئین کا نام تھا اور آپ کو یہ تو پتا ہی ہو گا کہ نا جائز طر یقے سے لڑکیوں کاپا ﺅں بھا ری ہو جانا، بھا رتی فلموں اور ڈراموں کا پسند یدہ ترین موضوع ہے۔“

اپنے نام اور اس کے بارے میں عام لوگوں میں پائے جانے والے ابہام کو طنز و مزاح کا ہدف بناتے ہوئے منشا یاد نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے : ”ہمارے نام کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی منسوب ہے ۔ سابق چیر مین اکادمی ادبیات پا کستان اور معروف دا نشور پریشان خٹک ایک بار لاہور کے ایک ہوٹل کی دوسری منزل سے میٹنگ ختم کرکے نیچے اترے تو انھیں پتا چلا کہ گراﺅ نڈ فلور پر ایک بڑے ہال میں منشا یا د کے بارے میں کوئی جلسہ ہورہا ہے ۔ وہ ہمارے مہر بان تھے فوراً اند ر چلے گئے مگر وہا ں جاکرپتا چلا کہ جلسہ منشایاد کے بارے میں نہیں منشیات کے بارے میں ہورہا ہے۔ “

محمد منشا یاد کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوﺅں کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے جن ممتاز ادبی مجلات نے انھیں خراج تحسین پیش کیا ان میں اوراق،لاہور،1991,،ما ہ نامہ بیاض ،لاہور مئی 2008, عالمی فروغ اردو ادب دوحہ قطر 2008 ،طلوع افکار کراچی ،1995,،ماہ نامہ چہار سو،راول پنڈی 2001، ماہ نامہ سپو تنک لاہور ،جولائی 2008 ،ادب ساز دہلی 2007 کی خصوصی اشاعتیںہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔ادبی مجلات کی یہ اشاعتیں مستقبل کے ان تمام محققین کے لیے خضر راہ ثابت ہو ں گی جو اس نابغہ ءروزگار ادیب پر تحقیقی کام کریں گے ۔ان ادبی مجلات نے قرطاس اعزاز شائع کرکے بلا شبہ ایک مستحسن کام کیا ہے ۔ان کے بار احسان سے اردو داں طبقے کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔ایک زیرک،فعال اور مستعد ادیب کی حیثیت سے محمد منشا یاد نے بھر پور زندگی بسر کی ۔دسمبر 1972میں انھوں نے اسلام آباد میں حلقہ ءارباب ذوق کی بنیاد رکھی ۔اسلام آباد میں انھوں نے دو اور ادبی تنظیمیں ”لکھنے والوں کی انجمن“ اور ” رابطہ“ کے نام سے قائم کیں ۔ان ادبی تنظیموں نے منشا یاد کی رہنمائی میں صحت مند تخلیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ وہ مختلف اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے ۔ان کے کالم عصری آگہی کے آئینہ دار ہیں ۔انھوں نے روزنامہ تعمیر ،نوائے وقت ،مشرق ،جنگ اور ہمدرد میں جو کالم لکھے وہ ان کے خلوص ،دردمندی اور حق گوئی و بے باکی کا اعلیٰ ترین معیار پیش کرتے ہیں ۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے انھوں نے جو ڈرامے اور سیریل لکھے وہ بے حد مقبول ہوئے ۔ٹیلی ویژن کے با ذوق اور سنجیدہ ناظرین ان کے سیریل جنون ،بندھن ،راہیں ،پورے چاند کی رات ،آواز اور رنگ وفا کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔ابن انشا کی طرح انھیں سیاحت کا بہت شوق تھا ۔انھوں نے دنیا کے کئی ممالک کی سیر کی ۔انھیں متعد دممالک سے ادبی حلقوں کی جانب سے مدعو کیا گیا اور ان کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کیا گیا ۔1987میں وہ دہلی میں پنجابی ادبی کانفرنس میں مندوب کی حیثیت سے شامل ہوئے ۔پاکستانی ادیبوں کے وفد کے ہمراہ انھوں نے 1999میں چین کا دورہ کیا۔1987میں وہ دہلی گئے جہاں انھوں نے ساہت اکادمی کی اردو و پنجابی کانفرنس میں شرکت کی۔اس دورے میں وہ مرزا غالب کے مزار پر بھی گئے اور بھارت کے تمام اہم تاریخی مقامات کی سیر کی ۔انھوں نے 2004میں یورپ کا دورہ کیا اور وہاں ادیبوں کے کئی نمائندہ اجتماعات میں شرکت کی ۔خاص طور پر لندن ،نیو یارک ،سان فرانسسکو،اور ڈیلاس کی ادبی انجمنوں نے ان کے اعزاز میں یادگار اجلاس منعقد کیے ۔صحافت سے انھیں گہری دلچسپی تھی ۔اخبارات میں کالم نویسی کے علاوہ انھوں نے کچھ عرصہ ادبی مجلات کی مجلس ادارت میں بھی کام کیا ۔وہ ہفت روزہ ہمدرد راول پنڈی کے 1958 تا 1959 معاون مدیر رہے اور ماہ نامہ علامت لاہور میںگیارہ برس (1990-2001) بہ حیثیت شریک مدیر خدمات انجام دیں ۔افسانے کی تخلیق اور اس کے انتخاب میں ان کی دلچسپی کا یہ حال تھا کہ انھوں نے اپنے گھر کا نام ”افسانہ منزل “ رکھ دیا ۔عالمی ادب کے شاہ کار افسانوں کے متعدد انتخاب انھوںنے مرتب کیے اور ان کے تراجم کے ذریعے افسانے کے ارتقا کے امکانات روشن کر دئیے ۔ان کے افسانوں کے تراجم دنیا کی متعدد زبانوں میں کیے گئے۔ان کی تخلیقی کامرانیوں سے اردو اور پنجابی ادبیات کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ان کی علمی ،ادبی اور تخلیقی خد ما ت کا ایک عالم معترف ہے ۔انھوں نے ادب کو معیار اور وقار کی جس رفعت پر فائز کیا اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

محمد منشا یاد کی شادی 1960میں اپنے چچا کی بیٹی فرحت نسیم اختر سے لاہور میں ہوئی ۔یہ شادی بہت خوشگوار رہی اور ان کا خاندان ایک مثالی خاندان سمجھا جاتا ہے ۔ان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار ہیں ۔ان کی بیوہ فرحت نسیم اختر ایک سلیقہ شعار اور تعلیم یافتہ خاتون ہیں ۔انھوں نے اپنے شوہر اور اولاد کے آرام کا ہمیشہ خیال رکھااور گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیا۔محمد منشا یاد کی فقید المثال کامرانیوں اور عدیم النظیرادبی فتوحات میںان کی اہلیہ کا تعاون کلیدی اہمیت کا حامل رہا ۔باہمی اعتماد ،خلوص و مروت اور ایثار پر مبنی یہ تعلقات عہد وفا استواررکھنے کی عمدہ مثال ہے ۔گھریلو زندگی میں باہمی افہام و تفہیم کو دونوں نے علاج گردش لیل و نہار سمجھا۔ان کے بچے بھی اپنے والدین کی تربیت اور فیضان نظر کے اعجاز سے نہایت خو ش اخلاق اور ملنسار ہیں ۔

انسانی ہمدردی ،حریت فکر ،انصاف ،خلوص و دردمندی ان کی فطرت ثانیہ تھی ۔ مظلوم کی حمایت اور ہر ظالم پہ لعنت بھیجناان کا شعار تھا۔پاکستان میں جب 1977میں ضیا الحق نے سلطانی ءجمہور کا خاتمہ کر کے پورے ملک میں مار شل لا نافذ کر دیا تو متعدد ادیب بھی بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ان میں جھنگ کے ممتاز شاعر رام ریاض بھی شامل تھے ۔رام ریاض جو گریڈ 17کے ملاز م تھے جبری برطرفی کی زد میں آگئے ۔ رام ریا ض نے مجھے بتایا کہ محمد منشا یاد نے ان کی بحالی کی پوری کوشش کی مگر سب تدبیریں الٹی ہو گئیں اور کوئی امید بر نہ آئی۔یہ سب کوششیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں ۔رام ریاض پر فالج کے جان لیوا مرض کا حملہ ہوا اور لمحہ لمحہ وقت کی تہہ میں اتر کر قلزم خوں پار کر گیا ۔محمد منشا یاد کو رام ریاض کی حسرت ناک موت کا سخت صدمہ ہوا اور انھوں نے اسے انسانیت کی توہین،تذلیل ،تضحیک اور اہل علم و دانش کی بے توقیری کی قبیح مثال سے تعبیر کیا۔اس عہد ستم میںجھنگ کے جن ادیبوں نے جبری بر طرفی کے وار سہے اور اپنے سوز دروں کے باعث زندگی کا بازی ہار گئے ان میں عباس ہادی ،فضل الٰہی خان اور احمد حیات بالی شامل ہیں ۔محمد منشا یاد رفتگاں کی یاد میںدل گرفتہ ہو جاتے اور امجد اسلام امجد کا یہ شعر پڑھ کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے :
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم

ابتدائی تعلیم کے دوران انھوں نے شاعری میں گہری دلچسپی لی اور ” یاد “تخلص رکھا اور یاد بھٹی کے قلمی نام سے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ۔جلد ہی انھیں احساس ہو گیا کہ شاعری کے بجائے کہانی ان کی پسندیدہ صنف ہے اور افسانے پر انھیں جو خلاقانہ دسترس حاصل ہے وہ شاعری میں نہیں ۔ چنانچہ انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت میں کہانی کو مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیااور شاعری سے توجہ ہٹا لی ۔ان کی زندگی میں کہانی کو محوری مقام حاصل رہا اور اسی کے مدار میں ان کے معمولات سر گرم سفر رہے ۔

جھنگ اور شیخوپورہ کے تہذیبی تعلق کو وہ بڑی اہمیت دیتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ جھنگ نے ہیر اور رانجھے کے رومان کو جنم دیا اس قصے کو وارث شاہ نے شاعری کے قالب میں ڈھال کر لا زوال بنا دیا ۔وہ شر افضل جعفری کی اس بات کے معترف تھے کہ جھنگ ایک شہر سدا رنگ ہے ۔جس شہر سے ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل پرائز)جیسا سائنس دان ،مجید امجد جیسا شاعر ،وزیر آغا جیسا نقاد اور دانشور،جعفر طاہر ،شیر افضل جعفری اوررام ریاض جیسے حریت فکر کے مجاہد پیدا ہوں اس کی علمی ،تہذیبی اور ثقافتی میراث کا عدم اعتراف نہ صرف تاریخی غلطی کے مترادف ہے بلکہ یہ ایک ناشکری ہے ۔قدرت اللہ شہاب نے جھنگ کے جس پر اسرار موچی کا ذکر شہاب نامے میں کیا ہے منشا یاد نے اس سے ملاقات کی ۔ایک رتبہ وہ جعفر طاہر کے ہمراہ جھنگ آئے تو یہاں کا پر اسرار مجذوب فقیر میاں مودا انھیں ملااس کی تھپکی نے نو جوان منشا یاد کی دنیا ہی بدل دی ۔امیر اختر بھٹی نے منشا یاد کے اعزاز میں ایک تقریب میں جب یہ باتیں کیں تو منشا یاد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے : ” جھنگ کا رنگ بھی عجب سے عجیب ہے ۔اس شہر سدا رنگ کی ہر بات نرالی ہے ۔کبھی تو جھنگ کا موچی قدرت اللہ شہاب کو مسحور کر دیتا ہے اور کبھی جھنگ کا مودا منشا یاد کو مشہور کر دیتا ہے ۔کبھی جھنگ کا متفنی فلسفی شیخ چلی بن کر بھیگی بلی بن جاتا ہے ۔اس علاقے کے کھیتوں میں سبزیاں کثرت سے اگائی جاتی ہیں ۔یہاں کے بینگن بہت مشہور ہیں ۔“یہ سن کر منشا یاد کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور بولے ”خدا کا شکر ہے کہ یہاں تھالی کے بینگن نہیں پائے جاتے “یہ سن کر سب حاضرین زور سے ہنسنے لگے اور منشا یاد کی حاضر دماغی کے قائل ہو گئے ۔

منشا یاد کا اسلوب ان کی ذات تھی ۔منفرد اسلوب کے حامل اس زیرک تخلیق کار نے اردو اور پنجابی افسانے کو عالمی ادب کے پہلو بہ پہلو لانے میںجو فقید المثال کامیابی حاصل کی وہ تاریخ ادب کا اہم ترین واقعہ ہے جسے ادب کا کوئی دیانت دار نقاد نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ان کے افسانوں میں ندرت ،تنوع ،مقصدیت ،کردار نگاری ،لفظی مرقع نگاری ،وحدت تاثر ،حرف صداقت ،حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے ۔ان کی سادہ ،دلکش اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی تحریروں کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔انھو ں نے سچے جذبات ،قوی مشاہدے اور تجربات کو اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنایاانھوں نے زندگی کے تلخ حقائق پر نظر رکھی اورکبھی ہوا میں گرہ لگانے کی سعی رائیگاں کا خیال ان کے دل میں نہ آیا ۔وطن ۔اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ ان کے اسلوب میں تخلیقی عمل کو ترکیبی (Synthetic)صورت میں دیکھنا چاہیے۔وہ روزمرہ زندگی کے حالات اور واقعات کا تجزیاتی (Analytic)مطالعہ کرنے کے بعد اس فنی مہارت سے افسانو ں کوصفحہ ءقرطاس پر منتقل کرتے ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔دنیا نے تجربات و حوادث کی صورت میںانھیںجو کچھ دیا وہ انھو ں نے من و عن اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین کو منتقل کر دیا ۔وہ قاری کی سطح پر پہنچ کر اپنے تجربات و احساسات کو پیرایہ ءاظہار عطاکرتے ہیں ۔تخلیق کار اور قار کے مابیں فکر و خیال کی سطح پر ایک ہم آہنگی پید ا ہو جاتی ہے اور اس کے معجز نما اثر سے وہ ابلاغ کو یقینی بنا دیتے ہیں ۔ان کی تمام خداداد صلاحیتیں اور تخلیقیق فعالیتیں ان کے اسلوب میں رچ بس گئی ہیں ۔وہ اپنے ذہن و ذکاوت کی تجسیم اپنے اسلوب میں اس فنی مہارت سے کرتے ہیں کہ تخلیق اپنی اثر آفرینی کا لوہا منوا لیتی ہے ۔ان کے تخلیقی عمل میں تاریخ کے مسلسل عمل پر توجہ مرکوز رہتی ہے ۔ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق ناخواندہ سے وہ نت نئے موضوعات تلاش کر کے قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔

منشا یاد نے تاریخ ،تہذیب اور ثقافت کے بارے میں اپنے خیالات کا بر ملا اظہار کیا ہے ۔ان کا اصرار ہے کہ اہل مشرق کو اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سیکھنا چاہیے ۔مشرقی تہذیب و ثقافت پر پڑے تار عنکبوت ہٹا کر انھو ںنے پوری قوت کے ساتھ اپنی اقدار و روایات کی ترجمانی کی ۔وہ ادب کو ایک سماجی فعالیت سے تعبیر کرتے تھے ۔ان کے افسانے قاری کے جذبات و احساسات کی تہذیب و تزکیہ کرنے میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔انھوں نے زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو پروان چڑھانے میںجس خلوص ،دردمندی اور والہانہ پن کا مظاہرہ کیا وہ انھیں منفرد مقام عطا کرتا ہے ۔وہ عمر بھر آزادی ءتحریر کے لیے جدو جہد کرتے رہے ۔ان کا خیال تھا کہ انسانی آزادی اور آزادی تحریر کا چولی دامن کا ساتھ ہے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے خیال میں منافقت کی دلیل ہے ۔وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے قائل تھے ۔زندگی کو سر آدم اور ضمیر کن فکاں سے تعبیر کرتے ۔ان کا اصرار تھا کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے زندگی جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراںہی تو ہے ۔وہ یہ بات واضح انداز میں بتاتے ہیں پیہم محنت ،لگن اور فرض شناسی کے بغیر کسی جوہر کا کھلنا بعید از قیاس ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خانہ ءفرہاد میں روشنی کی شعاع در اصل شرر تیشہ کی مرہون منت ہے ۔ان کے افسانوں کے تمام کردار جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حریت ضمیر کا علم بلند رکھنے کی قابل تقلید مثال پیش کرتے ہیں ۔

بعض اوقات شگون بھی انسانی زندگی اور فکر و خیال پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ابن انشا نے جب اپنی غزل ” انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میںدل کا لگانا کیا “کہی تو ستم ظریف لوگوں کو اپنی درفنطنی چھوڑنے کا ایک مو قع مل گیا ۔کالی زبان والے یہ کہتے سنے گئے کہ اب ابن انشا کا جانا ٹھہر گیا ہے اب یہ صبح گیا کہ شام گیا ۔خود ابن انشا کو اس بد شگونی کا شدت سے احساس تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ یہ بد شگونی شاید ان کی زندگی کی شمع گل کر دے ۔بعض توہم پرست لوگوں کی رائے ہے کہ ابن انشا اس غزل کی تخلیق کے بعد جلد ہی عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے ۔منشا یاد کے ساتھ بھی تقدیر نے عجب کھیل کھیلا ۔وہ اس غزل کی تحریف اور اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں لکھتے ہیں : ” ہمارے بعض بد خواہ احباب جو اندر سے ہمیں جلد از جلد ابن انشا مرحوم کے پاس بھیجنے کی خواہش رکھتے ہیں مذاق کے بہانے ان کی معروف غزل میں تھوڑی سی تحریف کر کے ”منشا جی اٹھو اب کوچ کرو “ گنگنانا شروع کر دیتے ہیں ۔پتا نہیں ہمارے نام میں کیا خوبی یا خرابی ہے کہ بہت سے شاعر دوستوں نے اس کو خوب تختہءمشق بنایا۔ایک بار ہم معروف شاعر اور براڈ کاسٹر عطا حسین کلیم مرحوم سے کیا ہوا کوئی وعدہ بر وقت پورا نہ کر سکے تو انھوں نے خفا ہو کر کہا ” نام منشا یاد ہے اور یاد کچھ رکھتا نہیں ۔“

منشا یاد اب اس دنیا میںنہیں رہے ۔ان کی یادیں تا ابد موجود رہیں گی ۔اردو اور پنجابی ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کو تاریخ ادب میں آب زر سے لکھا جائے گا ۔ان کی یاد اس قدر خوب ہے کہ اسے دل سے بھلانا بعید از قیاس ہے ۔
پھیلی ہیں فضاﺅں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیر ی آئی
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 8 Articles with 29288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.