لیڈی ریڈنگ اسپتال کا المناک واقعہ — خاموش سلنڈر، غائب ڈاکٹر، اور مر جاتی انسانیت
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور کے معروف لیڈی ریڈنگ اسپتال میں پیش آنے والا تازہ واقعہ نہ صرف دل دہلا دینے والا ہے بلکہ ہمارے پورے صحت کے نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ ایک ویڈیو گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ایک نوجوان اپنے بھائی کی موت پر چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو پچاس منٹ قبل اسپتال لایا تھا، مگر نہ ڈاکٹر موجود تھا، نہ نرس آئی، اور آکسیجن سلنڈر میں آکسیجن ہی نہیں تھی۔یہ ویڈیو دیکھنے والے ہر شخص کے دل میں ایک ہی سوال جنم لیتا ہے: آخر کب تک عوام کے جان سے کھیلنے والے ادارے اور اہلکار اس طرح بے حس رہیں گے؟
ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ مریض کے بھائی کے ساتھ کھڑے دیگر لوگ بھی اس کی بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ وہ سب ایک مردہ جسم پر کپڑا ڈال رہے ہیں جبکہ ایک سیکورٹی گارڈ اسے ویڈیو بنانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس پر بھائی کا جواب دل دہلا دینے والا ہے: “ہمارا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں، ہم تو صرف یہ دکھا رہے ہیں کہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں کیا ہورہا ہے تاکہ دنیا دیکھے۔”یہ جملہ پورے نظام صحت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ یہ صرف ایک مریض کی موت نہیں، بلکہ انسانیت کی موت ہے۔
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ لیڈی ریڈنگ اسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین عمران خان کا کزن، برکی، ہے۔ اسپتال کے اندر سیاسی تقرریوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ یہاں میرٹ نہیں بلکہ تعلقات چلتے ہیں۔ “یوتھیے” کہلانے والے افراد کو مختلف عہدوں پر بھرتی کیا گیا ہے، جو مریضوں اور لواحقین سے بدتمیزی کرتے ہیں اور کسی کو جواب دہ نہیں۔یہ ادارہ جو کبھی خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا اور معتبر اسپتال سمجھا جاتا تھا، آج بدنظمی، غفلت اور سیاسی مداخلت کی علامت بن چکا ہے۔ یہاں مریض اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے، اور ذمہ داران فائلوں اور پروٹوکول میں گم رہتے ہیں۔
صوبائی وزیر صحت خلیق الرحمان نے واقعے کا “نوٹس” لیتے ہوئے فوری انکوائری کا حکم دیا ہے۔ یہ جملہ ہم نے نہ جانے کتنی بار سنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انکوائریوں کے نتیجے میں کبھی کسی کو سزا ہوئی؟ کیا کسی غفلت کے مرتکب افسر کو واقعی برطرف کیا گیا؟یہی تو وہ خیبرپختونخوا ہے جسے طنزاً اب لوگ “خیبرپختون خوار” کہنے لگے ہیں۔ یہاں نظام بدلنے کی باتیں تو بہت ہوئیں، مگر ہر آنے والا وزیر، ہر نیا چیئرمین پرانے نظام کو بچانے میں لگ جاتا ہے۔ایمل ولی خان نے ایک موقع پر کہا تھا کہ “خیبر کو ختم کر کے پختونخواہ رہنے دو” — مگر عوام کہہ رہی ہے کہ یہ تو “پختون خوار” بن چکا ہے۔ یہاں کے شہری اپنی ہی سرزمین پر بنیادی علاج کی سہولت کے لیے خوار ہیں، ذلیل ہیں، اور روز مر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ صحافی، جو خود کو “ہیلتھ رپورٹر” کہتے ہیں، اسپتال کی نئی عمارت پر پیکجز بنا رہے ہیں — صاف شیشے، نیا پینٹ، نیا وارڈ، مگر ان کے کیمرے ان بیڈز تک نہیں پہنچتے جہاں مریض آکسیجن کے بغیر تڑپ رہے ہیں۔یہ صحافت نہیں، تماشہ ہے۔ اگر میڈیا بھی وہی دکھائے جو اسپتال کی انتظامیہ چاہتی ہے، تو پھر عوام کس دروازے پر انصاف مانگنے جائیں؟سوال یہ نہیں کہ ایک مریض کیوں مرا۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک کے اسپتالوں میں اب تک کتنے مریض “انتظار” میں مر گئے — کبھی ڈاکٹر کے آنے کا انتظار، کبھی آکسیجن سلنڈر کے بھرنے کا، کبھی کسی کے رحم کا۔
خلیق الرحمان کا کہنا ہے کہ عوام کی جان و صحت کے تحفظ میں غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ جملہ ہر واقعے کے بعد بولا جاتا ہے، اور پھر سب بھول جاتے ہیں۔ نہ اسپتال بدلتا ہے، نہ عملہ، نہ رویہ۔کیا خلیق الرحمان واقعی اس نظام کے خلاف آواز اٹھا سکیں گے؟ تاریخ بتاتی ہے — نہیں۔ کیونکہ جو بھی نظام کے اندر آتا ہے، وہ خود اس کا حصہ بن جاتا ہے۔یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی انسانیت کی بستی میں رہ رہے ہیں؟ جہاں آکسیجن نہ ہونا معمول بن گیا ہو، جہاں ڈاکٹر ڈیوٹی سے غائب ہوں، جہاں نرس کو بلانے کے باوجود کوئی نہ آئے — وہاں زندگی کی قیمت کیا رہ جاتی ہے؟کبھی کبھی غصہ بھی آتا ہے، اور دل بھی دکھتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم اتنے بے حس کیوں ہو گئے ہیں؟ ایک انسان ہمارے سامنے دم توڑتا ہے اور ہم موبائل کیمرے سے ویڈیو بناتے ہیں۔ شاید یہی ہماری اجتماعی موت ہے — جسمانی نہیں، اخلاقی۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال کا یہ واقعہ ایک انتباہ ہے۔ اگر اب بھی حکومت، میڈیا، اور سماج نے آنکھیں نہ کھولیں، تو ہر دن کوئی نہ کوئی “نیا ویڈیو” وائرل ہوگا، کسی اور کے بھائی کی موت دکھائے گا، اور ہم پھر وہی کہیں گے — “افسوسناک واقعہ، نوٹس لے لیا گیا۔”لیکن شاید اب افسوس کافی نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ عوام خود سوال پوچھیں، میڈیا سچ دکھائے، اور حکومت محض “نوٹس” نہیں بلکہ نتائج دے۔ورنہ اگلی ویڈیو میں شاید وہ مریض ہم خود ہوں۔
#Peshawar #LadyReadingHospital #HealthCrisis #LRH #KhyberPakhtunkhwa #PatientRights #HospitalNegligence #PakistanHealthSystem #Accountability #Journalism #Kikxnow #Peshawar #LadyReadingHospital #HealthCrisis #KhyberPakhtunkhwa #PatientRights #LRHIncident #Negligence #PakHealthSystem
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.