افغانستان میں افیون گھٹ گئی، مگر میتھ کی پارٹیز زوروں پر ہیں


افغانستان کے پاپی کے کھیتوں نے بالکل اچانک ڈائٹ پکڑ لی ہے۔ یو این او ڈی سی کے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2025 میں افیون کی کاشت میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔ جی ہاں، وہی افیون جو کبھی پورے افغانستان کو سونے کا میدان لگتی تھی، اب کسان بھائیوں نے آخرکار گندم اور دیگر قانونی فصلوں کے فائدے دیکھ کر ترک کر دی ہے۔

کل کاشت کا رقبہ 12,800 ہیکٹر سے گھٹ کر 10,200 ہیکٹر ہو گیا۔ 2022 میں جب طالبان نے مکمل پابندی سے پہلے 232,000 ہیکٹر تک پھیلی ہوئی افیون کی دنیا تھی، وہ صرف ایک یادگار بن گئی۔ پیداوار میں کمی اور بھی تیز رفتار رہی: 32 فیصد کمی کے ساتھ اب یہ صرف 296 ٹن بچی ہے۔ کسانوں کی آمدنی بھی دھڑام سے نیچے گری، $260 ملین سے گھٹ کر $134 ملین ہو گئی۔ لگتا ہے گندم کے کاروبار میں سونا نہیں ملتا، اور افیون کی یادیں مزید روشن ہو گئی ہیں۔

لیکن خوشی منانے سے پہلے ایک نظر خشک سالی اور خراب بارش پر ڈالیں۔ 40 فیصد سے زیادہ کھیتیں خالی پڑی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے زمین آسمان کو گھور رہی ہو، کہ بھائی، اب کیا کریں؟ کچھ کسان خوش ہیں کہ اب وہ قانونی راستے پر ہیں، مگر بہت سے سوچ رہے ہیں: “پیسے زیادہ کماتے تھے، خاک سے نہیں۔”

یو این او ڈی سی کے علاقائی نمائندہ اولیور اسٹولپ کہتے ہیں کہ افغانستان کی ترقی کے لیے “طویل المدتی بین الاقوامی سرمایہ کاری اور پائیدار متبادل” ضروری ہیں۔ سیدھا ترجمہ کریں تو: بھائی، کچھ پیسے پھینک دو کہ کسان دوبارہ افیون کی طرف نہ بھاگ جائیں۔

مزید دلچسپ موڑ یہ ہے کہ تقریبا چار ملین افغان پڑوسی ممالک سے واپس آ چکے ہیں۔ تصور کریں چار ملین لوگوں کو محدود وسائل اور محدود نوکریوں میں کس طرح فٹ کرنا ہے۔ اگر وسائل پہلے ہی کم ہیں تو اب تو لگتا ہے جیسے کسی نے پانی کی بالٹی میں سوئی ڈال دی ہو۔

اب آئیے قیمتوں پر نظر ڈالیں۔ خشک افیون کی قیمتیں 27 فیصد کم ہو کر $570 فی کلو ہو گئی ہیں، مگر یہ 2022 کے پہلے دنوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ قانونی فصلیں اچھا خیال ہیں، لیکن اتنے پیسے دیکھ کر کچھ کسان پھر بھی افیون کی طرف نظریں جما کر بیٹھے ہیں۔ یہ وہی لمحہ ہے جب انسان کہتا ہے: قانون اچھی بات ہے، لیکن پیسے تو میٹھے ہیں۔

اب ڈرامائی موڑ آتا ہے: میتھامفیٹامین کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ یو این او ڈی سی نے خبردار کیا کہ 2024 کے آخر تک میتھ کی ضبطی 50 فیصد بڑھ گئی۔ سبب؟ یہ سستا ہے، چھپانا آسان ہے، اور خشک سالی سے متاثر نہیں ہوتا۔ یعنی، یہ وہ رشتہ دار ہے جو شادی میں آ کر سارے سناکس کھا جائے اور گھر چھوڑے بغیر بیٹھے رہے۔

یوں، افغانستان میں صورتحال کچھ اس طرح ہے: افیون کم ہو رہی ہے، کسان مشکل میں ہیں، گندم کوشش کر رہی ہے کہ فیشن میں آئے، اور میتھ دھوم مچا رہا ہے۔ طالبان کی پابندی نے افیون کو کم کیا، مگر مصنوعی منشیات نے پارٹی شروع کر دی۔

سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انسانی رہائش اور غربت نے کسانوں کے انتخاب محدود کر دیے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اور بین الاقوامی ادارے واقعی چاہتے ہیں کہ افیون مکمل طور پر ختم ہو جائے تو انہیں کسانوں کے لیے قابل عمل متبادل پیش کرنا ہوں گے۔ ورنہ، لوگ تاریخ کی کلاسیک مثال دہرائیں گے: جب ایک دروازہ بند ہو، دوسرا دروازہ کھل جاتا ہے — اور اکثر یہ دروازہ چمکدار، خطرناک اور پولیس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آتا ہے۔

ادھر، افیون کے عالمی بازار میں قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ کسی کو بھی مہذب اخلاقیات کی یاد نہیں رہتی۔ کسانوں کے لیے یہ ایک چھوٹا سا خواب ہے: قانونی فصلوں کے درمیان پیسہ کمانا مشکل، افیون میں آسان اور منافع زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی علاقے ابھی بھی افیون کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔

میتھ کے معاملے میں صورتحال مزید پیچیدہ ہے۔ یہ مصنوعی منشیات اتنی لچکدار اور سستی ہے کہ جرائم پیشہ گروہ اسے چھپانے میں ماہر ہو گئے ہیں۔ خشک سالی اور بارش کی کمی سے متاثر نہیں ہوتی، اور یہی وجہ ہے کہ میتھ آہستہ آہستہ افیون کی جگہ لے رہا ہے۔ ایک لفظ میں: افیون کم ہوئی، مگر منشیات کا مارکیٹ نے ارتقاء کر لیا ہے۔

آخرکار، افغان کسانوں کے لیے انتخاب کٹھن ہے: قانونی فصلوں پر انحصار کریں اور امداد کے انتظار میں رہیں، یا پرانی عادتیں یاد کریں اور افیون یا میتھ میں حصہ ڈالیں۔ یو این او ڈی سی کے لیے یہ ایک مسلسل چیلنج ہے کہ وہ پائیدار متبادل، طویل المدتی سرمایہ کاری، اور مقامی مدد فراہم کرے۔

تو دوستو، افغانستان کے منشیات کے منظرنامے نے ہمیں یہ سبق سکھایا: زندگی میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، لیکن انسان ہمیشہ منفعت اور حالات کے درمیان توازن تلاش کرتا ہے۔ افیون کم ہوئی، مگر افغانستان کی تخلیقی صلاحیت، کسانوں کی حکمت عملی، اور جرائم پیشہ نیٹ ورک ابھی بھی زندہ ہیں۔ 2025 میں خوش آمدید، جہاں منشیات ترقی کر رہی ہیں، کسان منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اور یو این او ڈی سی کی رپورٹیں کبھی کبھی ڈرامائی کامیڈی کا حصہ بن جاتی ہیں۔


#Afghanistan #Opium #Meth #UNODC #Farmers #Drugs #Crime #Drought #Agriculture #2025

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 848 Articles with 692366 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More