"بھوکے ر ہو،ا حمق رہو" یہ بظا
ہر ایک جر یدے کے آخر ی شما رے کے بیک کور پر شا ئع ہو نے والی "طلوع
سحر"کی تصویر کا کیپشن تھا لیکن اس نے ا پنی 56برس کی ز ندگی انہی الفا ظ
کے سا ئے میں گزاری۔
جابز ایک غیر شا دی شدہ جوڈے کے گھر پیدا ہوا جس نے اس کو بو جہ مجبور ی
ویٹنگ لسٹ پر مو جود امیدوارجوڑے کو گود دینے کا فیصلہ کیا۔جابز کی ذمہ
داری ایک محنت کش جوڑے کے حصہ میں آئی جو کہ تھا تو غریب پر انہوں نے اس کے
بہتر مستقبل کی ضما نت پر اس کی پرورش کی ذمہ داری قبو ل کی۔جابز کی حقیقی
ماں"شیبل"نے اس کی تعلیم و تر بیت پر کو ئی سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اسے اس
جوڑے کے حوالے کیا پر اس کے باوجود اسے سترہ سال کے بعد کا لج جا نا نصیب
ہوا۔جابز نے تعلیم کے حصول کے لیے جس کا لج کو منتخب کیا وہ تعلیمی لحا ظ
سے تھا تو مستند ،پر وہاں کی پڑھائی کے ا خرا جات اٹھانے کی سقت اس کے ماں
باپ میں نہ تھی۔اس نے پڑھائی کے فیصلے کو اپنا غلط ترین فیصلہ قرار دیتے
ہوئے کالج چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور با لآخر 6ماہ بعد ہی اسے کالج سے نکال
دیا گیا۔یہا ں سے اس کی زندگی کا محنت طلب سفر شروع ہوا۔ وہ اپنا پیٹ پالنے
کے لئے خا لی بو تلیں ا کٹھی کرکے بیچتا اور ہفتہ میں ایک دن اچھا کھانا
کھانے کی غرض سے 9کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے مندر جاتا۔ا س نے اپنی زند گی
کو تجر بات کی درسگاہ بنا لیااور اپنی فرا غت کے اوقا ت میں فن خطا طی
سیکھنا شر وع کر دیا۔ اس نے کسی بھی تحریر کو مختلف زاویوں، شکلوں اور
منفرد انداز سے لکھنے کا فن سیکھا۔یہ "ٹائپو گرافی"کا ہی کمال تھا جس نے
اسے ایک دن پر سنل کمپیو ٹر کی ونڈو کے لئے مختلف اشکال اور فو نٹس کا مو
جد بنا دیا۔
جی ہاں یہ وہی سٹیو جابز تھا جس نے 70کی د ہا ئی مں اپنے باپ کے گیراج سے
ٹیکنا لوجی کی دنیا کو تسخیر کر نے کا سفر شر وع کیا اور آج اس کی چھو ڑ ی
گئی کمپنی"ایپل"کے پا س 77ارب امریکی ڈالر نقد رقم مو جود ہے جو کہ امریکی
حکو مت کے مختص کئے گئے اخرا جات سے بھی زیا دہ ہے۔یہ سٹیو جابز کی کچھ کر
دکھا نے کی بھوک اور محنت کر نے کے ا حمقا نہ جنون کا نتیجہ تھا کہ جس نے
اسے ایک بو تل فروش سے ٹیکنا لو جی کا با د شا ہ بنا دیا۔جابز نہ صر ف
کمپیو ٹر ٹیکنا لو جی کا مو جد تھا بلکہ اس کی ا یجا دات نے میو زک ا ور
موبائل فو نز کی دنیا میں بھی تہلکہ مچا دیا ۔اس نے پرسنل کمپیو ٹر، آئی
پیڈاور آئی فون جیسی آئیکو نک پراڈکٹس متعارف کرائیں۔
جابز نے اس وقت موت کوبہت قریب سے دیکھا جب ڈاکٹرز نے اس کے جسم میں کینسر
کی تشخیص کر تے ہو ئے اس کی زند گی کو صرف 6ماہ کا و قت دے دیا۔ لیکن اس نے
ہمت نہ ہا ری اور اپنی زندگی کے ہر دن کو، زند گی کا آخر ی دن سمجھ کر گزا
رنا شر و ع کر دیا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اس کی تشخیصی رپو رٹ 6ماہ کی بجا
ئے 10سال کی با علاج زندگی پر محیط نظر آئی۔اس کے کچھ کر دیکھا نے کے جنون
نے موت کو بھی شکست دے دی۔ سٹیو جابزنے اپنی زندگی میں مختلف اتار چڑ ھا ﺅ
د یکھے۔اس کی زندگی میں ایک وقت ایسابھی آیا کہ جب اس کی اپنی کمپنی ا یپل
کے بورڈ آف ڈائر یکٹرز نے اسے کمپنی سے بے دخل کر دیا۔ لیکن یہ بات اس کے
لئے اور کارگر ثابت ہوئی اور اس نے ایک نئے عظم کے سا تھ پا نچ برس کے
دوران ہی دو نئی کمپنیوں کی بنیاد رکھی۔ اس کی نطر میں اس کو ایپل سے نکال
دینا اس کے شان دار مستقبل کی طرف اہم پیشرفت تھی کیو ں کہ اس کی کامیابیوں
کا خمار توڑنے کے لئے یہ دھچکا بہت ضروری تھا۔ جلد ہی اس نے نو وارد
کمپنیوں "نیکسٹ"اور "پکسر"کے تحت دنیا کی پہلی کمپیوٹر انیمیٹڈ فلم"ٹوائے
سٹو ری"بنا ڈالی اور اس طرح دنیا کا کامیاب تر ین انیمیٹڈ اسٹوڈیو اس کی
ملکیت بن گیا۔ یوں قسمت کی دیو ی اس پر ایک بار پھر مہر بان ہو ئی اور ایپل
نے "نیکسٹ"کو خر ید نے میں دل چسپی ظاہرکی ۔یو ں وہ ا یپل فیملی میں پھر
لوٹ آیا۔
جابز زیرو سے ہیرو بننے کی کہا وت اور عظیم کام کرنے پر یقین رکھتا تھا ۔اس
نے ہمیشہ کام سے عشق کیا ۔جابز کی زندگی نو جوا نو ں کے لئے سبق آموز
داستان کی صورت ہے۔ اس کی زندگی سے ہمیں یہ بات سیکھنے کا مو قع ملتا ہے کہ
سستی اور کاہلی جیسی بیماریو ں کو بھگا نے کے لئے زند گی میں لا زمی "کڑوی
گو لی"کی ضرورت پڑتی ہے۔ محنت کر نے کا جنون اور پھر اس سے حا صل شدہ کامیا
بی انسان کو مندر کی سڑ ھیو ں سے ا ٹھا کر بھگوا ن کی گو د میں بیٹھا دیتی
ہے۔ اپنی ذات کو تسخیر کر نے کی کو شش انسان کو اس راہ پر گامزن کر دیتی ہے
جہا ں پر وہ تلاش و جستجو کے ذریعے زندگی میں کچھ کر گزرتا ہے۔جا بز نے
اپنی زند گی کو ا سٹیورٹ کے جریدے کے آخری شمارے کے آخری صفحہ پر شا ئع ہو
نے والی تصو یر کے یک سطری کیپشن"بھوکے ر ہو، ا حمق ر ہو"سے عبارت کر رکھا
تھا۔یہ محا ورہ نہ صرف جابز بلکہ تمام نو جوا ن نسل کے لئے ایک ایسا اقوال
زریں ہے جس پر عمل کر کے ز ند گی کی کسی بھی مظاہمتی دیوار کو احمقا نہ جد
و جہد کے ذر یعے گرا یا جا سکتا ہے جبکہ عظیم کا میا بی بھی کچھ کر نے کی
بھو ک کے مر ہو ن منت ہی ملتی ہے پھر کیو ں نہ
"بھو کے ر ہو، احمق رہو" |