جون کے مہینے کی چمکتی دھوپ اور
طلباءکے چہروں پر خوشگوار مسکراہٹیں اپنی جگہ لیکن ایک شخص کی موجودگی نے
ماحول کو چار چاند لگادیئے ۔ یہ 12جو ن2005کا دن تھا جب اسٹین فورڈ
یونیورسٹی کے طلباءسروں پر کانوکیشن کیپس اور جسم پر کالی عبائیںپہنے عملی
زندگی میں قدم رکھ رہے تھے ، کالج کے سالانہ کانووکیشن کے موقع پر ملک بھر
سے نامور شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا جو باری باری ڈائس پر آکر طلباءکو
اپنے تجربات سے آگاہ کر رہے تھے ، کانوو کیشن کے تمام معاملات بخیر خوبی
انجام پارہے تھے کہ اچانک اسٹیج سیکریٹر ی کی گرجدار آواز نے سامعین کو
اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔دوستوں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں،اب میں جس شخصیت
کو دعوت خطاب دینے جارہا ہوں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ نے اپنی بھر
پور محنت ، لگن اور جدوجہد سے ایک ایسی مشین ایجاد کی جس نے پوری دنیا میں
انقلاب بپا کر دیا ، اس مشین کی بدولت فاصلے سمٹ گئے ، دوریاں قربتوں
میںبدل گئیں ، علم کے دروازے کھل گئے اور جو کام کل تک ہمارے لئے خام خیال
تھا آج حقیقت بن کر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔آپ کی بھر پور تالیوں میں
دعوت خطاب دوں گا ایپل کمپنی کے بانی اسٹیو جابز کو کہ وہ آئیں اور اپنے
خیالات کا اظہار کریں ۔
تالیوں کی گونج میں پختہ عمر کا یہ شخص جب ڈائس پر آیا تو نہ صر ف طلبابلکہ
اساتذہ بھی اس کے استقبال کیلئے کھڑے ہوئے گئے اور فضا کافی دیر تک تالیوں
کی گونچ سنائی دی ۔
آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے آج اس پر مسرت موقع پر مدعو کیا ،پر
مسرت لہجے میں جابز نے اپنی تقریر شروع کی ، یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات
ہے کہ میں آج ایک ایسے وقت میں آپ کے ساتھ ہوں جب آپ دنیا کی بہترین یونی
ورسٹی سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ، میرے لئے یہ لمحہ
اس لئے بھی لائق فخر ہے کیونکہ میں نے کبھی کسی کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی
۔ سچ پوچھیں تو کالج گریجویٹس کے ساتھ جتنی قربت مجھے آج مل رہی ہے اتنی
شاید پہلے کبھی نہیں ملی ۔ اس قربت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں آج آپ کو
اپنی زندگی کی تین دلچسپ کہانیاں سنا تا ہوں جویقینا آپ سب کیلئے سبق اور
عملی زندگی میں کام آئیں گی ۔
میر پہلی کہانی معلومات اکٹھا کرنے یا عملی تجربات سے متعلق ہے
میں جب 17سال کی عمر کو پہنچا تو میں نے بھی آپ کی طرح خوبصورت سپنے سجاکر
کالج کی دہلیز پر قدم رکھا لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ،
ابتدائی 6مہینوں بعد میں نے کالج کو الوداع کہہ دیا اور بقیہ 18مہینے کالج
کے اردگر د منڈلاتا رہا ۔ آپ سو چ رہے ہوں گے کہ میں نے کالج کیوں چھوڑا
؟۔یہ جاننے کیلئے آپ کو تھوڑا سا پیچھے جانا ہوگا۔ میری والدہ کالج کی ایک
کم عمر طالبہ تھیں اور اُن کیلئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ
میری کفالت بھی کرتی لہٰذا میری ولادت سے قبل ہی اُنہوں نے یہ فیصلہ کر لیا
کہ وہ مجھے کفالت کیلئے کسی کے سپر د کر دیں گی ۔اُن کی شدید خواہش تھی کہ
میری پرورش کوئی ایسا جوڑا کر ے جو کم از کم کالج گریجویٹ ہو ۔ اس سلسلے
میں ایک وکیل اور اُس کی بیوی سے بات ہوئی تو انہو ں نے حامی بھر لی، یہاں
تک کہ تمام قانونی تقاضے بھی پورے ہو گئے لیکن جب میری ولادت ہوئی تو انہوں
نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ہمیں تو بیٹی چاہئے ۔ خیر میری والدہ نے ایک
اور جوڑے سے رابطہ کیا جنہوں نے میری پرورش کی حامی بھر ی لیکن معاملہ جب
آخری دستاویزات پر دستخط کا آیا تو پتہ چلا کہ وہ دونوں تعلیم یافتہ نہیں ۔
میر ی والدہ نے دستخط سے انکار کر دیا لیکن کچھ ماہ بعد اس شرط پر راضی
ہوئیں کہ میرے رضائی والدین ہرحال میں مجھے تعلیم دلائیں گے ۔
لہٰذا 17برس کی عمر میں مجھے کالج جاناتھااور میں نے ایک ایسے کالج کا
انتخاب کیا جو سٹین فورڈ کی طرح مہنگاتھا ، جس پر میرے والدین ،جوکہ متوسط
طبقے سے تعلق رکھتے تھے ، کی تمام جمع پونجی خرچ ہوگئی ۔تعلیمی سلسلہ شروع
ہوا اور میں باقاعدگی سے کلاسیں لینے لگا لیکن مجھے مزا نہیں آرہا تھا ،
مجھے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ یہ ڈگری میرے کس کام کی ہے اور جو کچھ میں
سوچتا ہوں کیا یہ اُس کے حصول میں میری کچھ مدد کر پائے گی ؟۔ مجھے اپنے
سوالوں کا جواب ہر مرتبہ نفی میں ملتا۔ میں ایک ایسے منجدھار میں پھنس چکا
تھا جہاں سے نکلتا تو مصیبت ،نہ نکلتا تو مصیبت ۔کالج چھوڑتا تو والدین کی
عمر بھر کی کمائی جاتی ، نہ چھوڑتا تو دم گھٹتا ۔ بالآخر 6ماہ تذبذب کے بعد
بالاخر میں اس نتیجے پر پہنچا کے کالج کو خیر باد کہہ دیا جائے ۔ اُس وقت
شاید یہ میری زندگی کا سب سے احمقانہ فیصلہ ہو لیکن آج جب میں پیچھے مڑ کر
دیکھتا ہوں تو یہ میری زندگی کے بہترین فیصلوں میں سے ایک تھا ۔ کیوں کہ جب
میں نے یہ فیصلہ کیا اُس وقت میر ے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ میں ان بور
کلاسوں سے چھٹکارا حاصل کر کے وہ کام کروں جو میرے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو
اور جس کے کرنے میں مجھے مزا آئے ۔ لہٰذا کالج چھوڑنے کے بعد میری زندگی کا
ایک نیا دور شروع ہوا ،لوگوں کو تو میں احمق نظر آتا لیکن آج جب میں وہ دور
یاد کرتا ہوں تواحساس ہوتا ہے کہ کتناسنہرا دور تھا ۔ جو پا جو پیسے بچ گئے
تھے میں وہ انتہائی احتیاط سے خرچ کرنے لگا،میر ے پاس ہاسٹل میں کوئی کمرہ
نہیں تھا لہٰذا میں اپنے ایک دوست کے کمرے میں فرش پر سو جاتا ۔کوکا کولا
کی کچھ بوتلیں تھیں جو میں نے ایک دکاندار کو واپس دے کر اُس کے بدلے کھانے
پینے کی اشیا ءخریدی ، میں ہر اتوار کو اچھا کھانا کھانے کیلئے 7میل کا
فاصلہ طے کر کے ہری کرشنا مندر جاتا ۔مجھے یہ سب بہت اچھا لگتا تھا ۔
میں نے کبھی اس چیز کی پروا نہیں کی کہ کون کیا کہتا ہے ، میں صرف وہی کرتا
جو میرا دل چاہتا ۔ اپنے جنون کی خاطر میں نے کئی ایسے کام کئے جس کا نتیجہ
بعد میں صفر نکلا لیکن پھر بھی میں نے کرنا وہی تھا جو میرا دل چاہتا ۔
مثلاًریڈ کالج ( Reed College)نے اُن دنوں ملک بھرمیں کیلیگرافی کی تربیت
کا اہتمام کیا ۔ پورے کیمپس کا کونہ کونہ ہاتھ سے بنی خوبصورت پینٹنگز سے
سجا یا گیا ۔میں چونکہ فارغ تھا لہٰذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ یہی سیکھا
جائے ۔ میں نے حروف تہجی کی مختلف اقسام میں مہارت حاصل کرنا شروع کی،فراغت
کے باعث میرے ذہن میں نت نئے آئیڈیاز جنم لیتے اور میں اُنہیں کاغذ یا پلے
کارڈز پر اُتار تا جاتا، دھیرے دھیرے میں نے محسوس کیاکہ میرے فن میں مہارت
آرہی ہے اور یہ کسی بھی طور پروفیشنل آرٹ سے کم نہیں ،یہاں تک کہ ایک وقت
ایسا بھی آیا کہ میر ادعویٰ تھا کہ میرے ہاتھ سے کی گئی خطاطی سائنس کے بس
کی با ت نہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ اُس وقت تک تھا جب تک میں کالج میں رہا ، جس
دن کالج چھوڑا خطاطی بھی چھوٹ گئی۔
دوستوں یہ پوری کہانی سنا نے کا مقصد یہ تھا، زندگی میں تجربات ،خواہ وہ
اچھے ہوں یا برے ، بڑی اہمیت رکھتے ہیں،میں نے کالج کے زمانے میں جو کچھ
سیکھا، ممکن ہے وہ اُس وقت میرے لئے احمقانہ اور فضول ہو لیکن 10سال بعد جب
ہم نے پہلا macintoshکمپیوٹر ڈیزائن کیا تو یہ سب میرے کام آگیا ۔ ہم نے اس
کمپیوٹر میں نہ صرف حروف تہجی کے خوبصورت نمونے شامل کئے بلکہ خطاطی کے نت
نئے انداز بھی متعارف کروائے اور یہی اس کمپیوٹر کی اہم خصوصیت تھی جس کی
بدولت یہ آتے ہی مارکیٹ میں چھا گیا ۔ اب آپ سوچئے کہ اگر میں کالج نہ
چھوڑتا تونہ ہی میں خطاطی کی کلاسیں لیتا اور نہ ہی اس مقام پر پہنچ سکتا
تھا ۔یہ کہانی یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارے ماضی کے کسی نہ کسی
نقطے سے ضرور جڑا ہو تا ہے ، ہمیں بس اپنے ماضی میں جھانک کر اُن نقطوں کو
پہنچاننا ہے اور اُن دونوں کو آپس میں جوڑناہے۔آپ سوچئے کہ اگریہ کمپیوٹر
میں کالج کے دنوں میں بناتا تو شاید میرے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ میں ایک
کورے کاغذ کی طرح تھا لیکن 10برس بعد بے شمار چیزیں میرے عملی تجربات کے
باعث آسان ہوگئیں ۔یہی میری کامیابی کا پہلا ٹوٹکا ہے ۔ لہٰذا فارغ رہنے کے
بجائے سیکھئے اور بس سیکھتے رہیے ۔
میری زندگی کی دوسری کہانی محبت اور نقصان پر مشتمل ہے
میں بہت خوش قسمت تھا کہ مجھے اپنی ابتدائی زندگی میں ہی ہر وہ چیز مل گئی
جس کی مجھے چاہت ہوئی ۔ میں جب 20برس کا تھا تو میرے ساتھی ووزنائیک اور
میں نے مل کر اپنے والدین کے گیراج میں ایپل بنا نا شروع کیا ۔ ہماری دن
رات کی انتھک محنت کے سبب 10برسوں میں یہ گیراج 2ارب ڈالر مالیت کے ساتھ
4ہزار ملازمین کی کمپنی میں تبدیل ہو گیا ۔ اُس وقت میری عمر 30برس تھی اور
ہم نے مارکیٹ میں صر ف macentosh کمپیوٹر ہی متعارف کیا تھا۔یہاں پہنچ کر
میری زندگی نے مجھ سے ایک ایسا امتحان لیا جس کی تیاری کا میں نے کبھی سوچا
بھی نہ تھا ۔ مجھے ملازمت سے برخواست کر دیا گیا ۔ آپ حیران ہوں گے کہ جس
کمپنی بانی میں خود ہوں وہاں سے مجھے کیسے نکالا جاسکتا ہے ؟ ۔ اس کا جواب
یہ ہے کہ جب ایپل اپنے ابتدائی مراحل میں تھا تو ہم نے ایک شخص کو ملازمت
پر رکھا جس کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ یہ ہمارے ساتھ مل کر بہت اچھے
طریقے سے کمپنی چلائے گا ۔ایک سال یا کچھ عرصہ معاملات اچھے چلتے رہے لیکن
پھر اچانک کمپنی کو دھچکا لگا اور ہم نیچے آنا شروع ہو گئے ۔ فوری طور پر
بورڈ آف ڈائیریکٹرز کی میٹنگ بلائی گئی اور اُنہوں نے سارا الزام میرے سر
تھونپ دیا ۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر وہ میری دی ہوئی رائے پر عمل نہ کر تے
تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ۔مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا اور نہ صرف نکالا
گیا بلکہ سب کے سامنے نکالا گیا ۔ میری عمر اُس وقت 30برس تھی اور اپنی
پوری جوانی جس چیز پر میں نے صرف کی تھی اُس کا یوں ہاتھ سے نکل جانا یقینا
میرے لئے کسی صدمے سے کم نہ تھا۔ کچھ مہینے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ آخر میں
کروں تو کیا کروں ۔مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرے اندر کی تخلیقی صلاحیتیں
ماند پڑ چکی ہیں اور میں کبھی بھی نیا کاروبار شروع نہیں کرسکوں گا۔مجھ سے
اتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی تھی کہ میں نے سوچا اس شعبے کو ہی خیرباد کہہ دوں
لیکن آخری حربے کے طو رپر میں نے اپنے ساتھیوں سے معافی مانگنے کا فیصلہ
کیالیکن یہاں بھی مجھے ناکامی ہوئی اور کمپنی نے مجھے دوبارہ رکھنے سے صاف
انکار کر دیا ۔ میرے لئے ترقی کے تمام دروازے بند ہو گئے ، قسمت نے مجھے
آسمان سے زمین پر پٹخ دیا ،ہر طرف تاریکی ہی تاریکی اور حبس کا ماحول تھا
لیکن اس تاریک ماحول میں ایک کونہ ایسا بھی تھا جہاں سے روشنی کی باریک سی
کرن اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہو ا آرہی تھیں ، وہ کونہ میری امید تھی ۔پتہ نہیں
میرے اند ر ایسی کیا چیز تھی جو بار بار مجھے کہے جارہی تھی کہ جوکچھ بھی
میں نے کیا وہ بالکل ٹھیک ہے ۔بلا شبہ میری رائے سے کمپنی کو وقتی طور پر
خسارے کاسامنا کرنا پڑا لیکن میرا دل یہ کہہ رہا تھا اگرمیری سوچ کو عملی
جامہ پہنایاجائے تو اسے کوئی نہیں ہرا سکتا ۔ مجھے کل بھی اپنے کئے پر کوئی
شرمندگی نہیں تھی اور آج بھی میرے وژن میں رتی برابر کوئی فرق نہیں آیا ۔
لہٰذا میں نے پھر سے اپنے وژن کی تکمیل کی ٹھان لی اورنیا بزنس شروع کرنے
کا فیصلہ کیا ۔ مجھے اُس وقت تو محسوس نہیں ہوا لیکن بعد میں یہ نتیجہ نکلا
کہ ایپل سے فراغت میرے لئے کتنی مفید ثابت ہوئی جس نے ایک مرتبہ پھر مجھے
تخلیقی دنیا میں گم کر دیااور میں نے آئندہ پانچ برسوں میں میں تین بڑی کام
یابیاں حاصل کیں ، میں نے NEXTکے نام سے ایک کمپنی شروع کی ، پھر ایک اور
کمپنی PIXERکے نام سے شروع کی ، اوراسی عرصے میں ایک منفرد خاتون کی محبت
میں گرفتار ہو اجو بعد ازاں میری بیوی بنی ، PIXER کی بدولت دنیا کے سب سے
پہلی کمپیوٹر اینی میٹڈ فیچر فلم ،Toy Storyبنی اور آج یہ دنیا کا سب سے
کام یاب اینی میشن اسٹوڈیو کہلاتا ہے ۔ اپنی منفرد حیثیت کی بدولت ایپل نے
میر ی کمپنی NEXTکو خریدلیا اور میں ایک مرتبہ پھر ایپل میں دوبارہ واپس
آگیا اور جو ٹیکنالوجی جو ہم نے NEXT کیلئے ترتیب دی تھی ، آج وہ ایپل کی
جان سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ میری اہلیہ لورین اور میں بہترین زندگی
گزار رہے ہیں ۔
میں اپنی دوسری کہانی سے آپ کو یہ سبق دینا چاہتاہوں کہ بعض اوقات زندگی
میں بہت سی پریشانیاں اور تکلیفیں آتی ہیں ۔ آپ صحیح سلامت اپنی منزل کی
طرف گامزن ہوتے ہیں لیکن اچانک قسمت آپ کو اوپر سے نیچے پھینک دیتی ہے ایسی
صورت میں کبھی مایوس ہو کر امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا ۔ میری زندگی کی
وہ واحد شے جس نے مجھے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا وہ میری چاہت تھی اور
مجھے اُس وقت تک چین نہیں ملا جب تک کہ میں نے اپنی چاہت کو پانہ لیا
۔لہٰذا آج سے آپ نے خود کو پرکھنا ہے اور یہ تلاش کرنا ہے کہ آپ کس چیز سے
محبت کر تے ہیں ،اور پھر جب آپ اپنی محبت کو پالیں تو اسے ایسے ہی نبھائیں
جیسے سچی محبت نبھائی جاتی ہے ۔ عظیم کام وہی ہے جس سے آپ کا دل مطمئن ہو
اور دلی اطمنا ن اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب آپ اپنے کام سے محبت کر یں
اور اس کے بغیر آپ کو سکون نہ ملے ۔رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ا س میں
بہتری آتی جائے گی اور ایک دن یہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گی۔ لہٰذا آج سے
یہ عہد کریں کہ اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک آپ اپنی محبت کو تلاش
نہ کر لیں ۔
میری تیسری کہانی موت سے متعلق ہے
میں جب 17برس کا تھا تو بزرگوں سے سنا کر تا تھا کہ ” آپ اپنا ہر دن یہ سوچ
کر گزاریں کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے“۔ اس چیز نے زندگی پر بہت گہرا
اثر ڈالا اور گزشتہ33 برسوں سے میں ہر صبح آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود
سے سوال کر تا ہوں کہ ” اگر آج میری زندگی کا آخری دن ہو تو مجھے کیا کرنا
چاہئے ؟ ، کیا مجھے اُس کام میں ہاتھ ڈالنا چاہئے جو میں آج کرنے جارہا ہوں
؟۔ یہ سوچ مجھے اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ میں وہ کام کروں جو سب سے زیادہ
ضروری ہو اور وہ کام جو باربار کرنے کے باوجود بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو
رہاتو اُسے ترک کر کے اُس کی جگہ کوئی بامقصد کام کیا جائے ۔ جلد مرنے کا
خیال ایک ایسا ہتھیار ہے جس نے مجھے زندگی میں بہت مدد دی ، کیونکہ تمام
خوشیاں ، غم ، پریشانیاں ، تکلیفیں اور خواہشات موت کا نام سن کر ہی بھاگتی
ہیں اور آپ ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کوئی ہار آپ کو ہرا نہیں
سکتی ، کسی قسم کا خوف ، دھمکی ،دھونس اور نقصان کا اندیشہ آپ کے ارادے
متزلز ل نہیں کر سکتااور آپ یکسو ہوکر اپنے مشن کی تکمیل کیلئے نکل پڑتے
ہیں ۔ لہٰذا میر اآپ کو مشورہ ہے کہ آپ تمام کام ایک طرف رکھ کر صرف اُسی
کام میں ہاتھ ڈالئے جو آپ سب سے زیادہ ضروری سمجھتے ہوں ۔
یہاں میں آپ کو موت سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ سنا تا ہوں ایک سال قبل میرے
جسم میں کینسر کی تشخیص ہو ئی اور ڈاکٹروں نے مجھے لاعلاج قرار دے کر موت
کی تیاری کا مشورہ دیا ۔اس تشخیص کے بعد میں پورا دن گہری سوچ میں ڈوبا رہا
۔ رات کو میرا ایک اورٹیسٹ ہونا تھا جہاں ڈاکٹروں نے ایک آلہ میرے حلق کے
ذریعے متاثرہ حصے تک پہنچایا اور کچھ سیلز حاصل ،میں چونکہ بے ہوش تھا لیکن
میری اہلیہ نے بعد میں مجھے بتایا کہ جب ڈاکٹروں نے میرے سیلز کو جانچا تو
وہ خوشی سے چلانے لگے ، کیوں کہ یہ کینسر کی منفرد قسم تھی جس کا علاج
سرجری کے ذریعے ممکن تھا ۔ میرا آپریشن ہو اور میں آج بالکل خیریت سے ہوں
۔موت کو اس قدر قریب سے دیکھنے کے بعد میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی
بھی شخص مرنا نہیں چاہتا لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھاگ نہیں
سکتا ۔ میرے نزدیک موت زندگی کی سب سے بڑی ایجاد ہے ، یہ زندگی متغیر ہے
،یہ پرانی چیزوں کو ہٹا کر نئی چیزوں کیلئے راہ ہموار کر تی ہے ۔معذرت کے
ساتھ اس وقت آپ سب نوجوان ہیں لیکن آہستہ آہستہ آپ بوڑھے ہو تے جائیں گے
اور ایک دن مر جائیں گے پھر آپ کی جگہ کوئی اور لے لے گا۔آپ کے پاس محدود
وقت ہے ، لہٰذا اپنا وقت کسی اور کی زندگی گزارنے میں صرف نہ کریں ۔ دوسروں
کی سوچ کے مطابق زندگی گزارنا چھوڑ دیئے ، اپنی رائے کو اہمیت دیجئے ، اپنے
دل کی آواز سنیں کیونکہ آپ کا دل بہتر جانتا ہے کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں ۔
باقی سب ثانوی چیزیں ہیں ۔
میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے دور میں ایک بڑی حیرت انگیزکتاب شائع ہو ئی جس
کا نام تھا ”The Whole earth cataloge“ یہ اپنے دور کی بائبل سمجھی جاتی
تھی ۔ اس کتاب میں روز مرہ استعمال کی چیزوں کی فہرست، تفصیلات ، قیمت اور
دکان کا پتہ جہاں سے یہ دستیاب ہوتی، شامل تھیں۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ
گوگل کی کتابی شکل تھی، یعنی گوگل 35برس قبل تخلیق ہو چکا تھا ۔1970ءمیں
کتاب کے مصنف سٹیورڈ برانڈ نے جب اس کا آخری ایڈیشن نکالا تو کتاب کی پشت
پر ایک عبارت درج کی ” Stay Hungry. Stay Foolish “ (اس عبارت کا لغوی
معنیٰ بھوکے رہو اور بے وقوف رہو ہے لیکن اصطلاحاً بھوکے رہنے سے مراد
بہتری کی تڑپ ، بہترزندگی کیلئے جدوجہد اور کسی صورت اس پر سودے بازی نہ
کرنا ہے جبکہ بے وقوف یا جاہل رہنے سے مراد دنیا جہاں سے بے پروا ہو کر ہر
وقت کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا اور کبھی یہ نہ سوچنا کہ میں نے تمام چیزیں
سیکھ لی ہیں )۔سٹیورٹ کا یہ پیغام اُس وقت ہمارے لئے تھا لیکن آج جب آپ
اپنی زندگی کی ابتداءکر رہے ہیں تو میرا یہی پیغام آپ کیلئے ہے ۔ Stay
Hungry, Stay Foolish
جوبز اپنی تقریر ختم کرکے نشست کی طرف بڑھا تو دنیا نے دیکھا کہ نہ صرف
اسٹیج پر موجود کالج کے پرفیسرز ، ڈاکٹرز، انجیئرز اور مختلف شعبہ ہائے
زندگی سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ ترین شخصیات بلکہ ہال میں موجود طلبہ کی
کثیر تعداد بھر پور تالیوں کی گونج میں ایک ایسے شخص کو خراج تحسین پیش کر
رہی ہے جس کے پاس نہ ہی کوئی ڈگری تھی اور نہ ہی اُس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر
یا پروفیسر جیسے القابات ، اُس کے پاس تو صرف اُس کا عمل تھا جس نے کئی
لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر دی اور یہ اُس کے عمل ہی کانتیجہ ہے
کہ آج اُس کی وفات پر پوری دنیا اُداس ہے ۔ سٹین فورڈ کالج کی یہ الوداعی
تقریب پیغام دے رہی ہے کہ انسانی عظمت ڈگریوں سے نہیں بلکہ عمل سے حاصل کی
جاسکتی ہے اور عمل بھی وہ جو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے ہو۔ کام یابی
یہ نہیں کہ آپ کتنی بلندی تک پہنچے بلکہ کام یابی یہ ہے کہ آپ کی وجہ کوئی
کتنی بلندی تک پہنچا اور ابھی جب میں مضمون ختم کررہاہوں تو میرے موبائل پر
ایک میسج آیا کہ ” زندگی بہتر ہو تی ہے جب آپ خوش رہتے ہیں کسی بھی وجہ سے
، لیکن زندگی بہترین ہوتی ہے جب دوسرے خوش رہیں آپ کی وجہ سے “۔ |